خزاں ہے اور ایسی کہ درخت بجھ گئے ہیں۔ احمد ندیم قاسمی نے کہا تھا ؎ خزاں دلوں میں جڑیں چھوڑنے کی دُھن میں ہے کہاں گیا مرا پروردگار موسمِ گُل سبزہ پیلا پڑ گیا ہے۔ نامراد عاشق کے رخسار کی طرح رومی نے شمس تبریز کے نام پر پورا دیوان لکھ ڈالا۔ دیوان شمس تبریز! اور عاشق کے زرد رنگ کی طرف معشوق کی توجہ دلائی ؎ آخر تو شبی رحمی نہ کُن بر رنگِ رُخِ ہمچون زرِ من ایک رات بھی تو میرے سونے جیسے رنگ پر رحم نہیں کرتا۔ رنگ عاشق کا پیلا ہوتا ہے اور اس ضعیف کا بھی جو عمر کی سرحد پر پہنچتا ہے۔ ناصر کاظمی یاد آ گیا ؎ رنگ دکھلاتی ہے کیا کیا عمر کی رفتار بھی بال چاندی ہو گئے سونا ہوئے رخسار بھی! شاعروں نے بالوںمیں چاندی بھی ڈھونڈی اور برف بھی!افتخار عارف نے کہا ؎ ابھی سے برف الجھنے لگی ہے بالوں میں ابھی تو قرضِ مہ وسال بھی اتارا نہیں سعدی نے ابراہیم خلیل اللہ کی مہمان نوازی کا بیان جس حکایت میں کیا اس میں ’’برفِ پیری‘‘ کی ترکیب استعمال کی! شاید اس کے بعد ہی یہ تشبیہ فارسی شعرا نے کثرت سے برتی! یارِ دیرینہ‘ محققِ دوراں‘ فارسی داں حضرت پروفیسر ڈاکٹر معین نظامی ہی یہ رہنمائی کریں گے کہ سعدی سے پہلے بھی بڑھاپے کے سفید بالوں کو برف کا ہم رنگ کہا گیا یا نہیں! اور آہ ! کیکر کے پیلے پھول! شہر کے باسی کیا جانیں! گائوں کے شاعر نے کہا تھا ؎ گُلِ کیکر میں خوشبو تو نہیں تھی مگر چہرے کو اُس کا رنگ بھایا خزاں ہے اور ایسی کہ درخت بجھ گئے ہیں سبزہ پیلا پڑ گیا ہے۔ کنارِ بحرالکاہل ‘ اس شہر میں کہ جہاں ان دنوں اِس ابن السبیل کا قیام ہے‘ ہوا زور سے چلتی ہے تو ایک ایک مسام کے اندر داخل ہونے کی کوشش کرتی ہے۔ یہاں اُن پیڑوں کی بھی کمی نہیں جو سدا بہار ہیں۔ جن کے پتے ہر رُت میں سبز رہتے ہیں! سورج بادلوں سے باہر بھی جھانکتا ہے! سنہری دھوپ قالین کی طرح بچھ جاتی ہے‘ مگر ایسی نہیں جو ہمارے جاڑوں میں ہوتی ہے جس میں‘ باہر بیٹھ کر ہم دھوپ تاپتے ہیں! اس لئے کہ یہاں سائیں سائیں کرتی ہوا‘ چین نہیں لینے دیتی ! تھوڑی ہی دیر میں دیواروں کے بیچ! چھت کے نیچے پناہ لینا پڑتی ہے! پت جھڑ کی اِس رُت میں بھی‘ فٹ پاتھ‘ شاہراہیں‘ کھیل کے میدان ‘ گرے ہوئے کھڑکھڑاتے پتوں سے ہرگز اٹے ہوئے نہیں! صفائی کا انتظام اِن ملکوں میں جادوگری سے کم نہیں! ڈیڑھ سو سال سے زیادہ عرصہ ہو چلا جب سرسید احمد خان گھر کا مال و اسباب فروخت کر کے‘ بحری جہاز کے راستے‘ فرانس سے ہوتے‘ لندن پہنچے! گھوڑا گاڑیوں کا زمانہ تھا۔ حیران ہوئے کہ اِدھر گھوڑے نے لید کی‘ اُدھر صفائی ہو گئی! ہر تیسری بی بی اور ہر تیسرا مرد خواجہ سگ پرست ہے! شام کو اپنے اپنے سگِ وفادار کے ساتھ باہر نکل آتے ہیں۔ اپنی ورزش کی کم اور ان کی صحت کی زیادہ فکر کرتے ہوئے! مگر مجال ہے کہ کسی جگہ طبیعت کو مکدر کرنے والی کوئی شے نظر آ جائے اور یہ کہنا پڑے کہ جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے! تربیت کا کمال ہے! پالتو جانوروں سے لے کر انسانوں تک!! اس کرہ ارض پر حیرتوں کے بہت سے در جو انسان پر وا ہوتے ہیں موسموں کا تغیر و تبدل ان میں سر فہرست ہے! ’’بے شک آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے میں اور دن اور رات کے بدلنے میں‘ اور جہازوں میں جو پانیوں میں لوگوں کو نفع دینے والی چیزیں لے کر چلتے ہیں اور اس پانی میں جسے اللہ نے آسمان سے نازل کیا ہے‘ پھر اس سے مردہ زمین کو زندہ کرتا ہے اور ہر قسم کے چلنے والے جانور اس میں پھیلاتا ہے اور ہوائوں کے بدلنے میں اور بادل میں جو آسمان و زمین کے درمیان مسخر ہے۔ نشانیاں ہیں عقل مندوں کے لئے‘‘ منیر نیازی نے کس دلکش پیرائے میں اسے شعر کی صورت دی ؎ رات دن کے آنے جانے میں یہ سونا جاگنا فکر والوں کو پتے ہیں اس نشانی میں بہت ایک خیالی خط‘ زمین کے درمیان‘ شرقاً غرباً کھینچا گیا جسے خط استوا کہا گیا۔ خطِ استوا کے شمال میں واقع کرہ ارض کے حصے کو ’’شمالی نصف کرہ ارض‘‘ اور جنوب میں واقع حصے کو ’’جنوبی نصف کرہ ارض‘‘ کا نام دیا گیا۔شمال اور جنوب کے نصف کرہ ہائے ارض کے موسم الٹ ہو گئے۔ شمال میں جب شدید سردی ہے تو اُس وقت جنوب میں شدید گرمی! ادب کے ساتھ عجیب واقعہ رونما ہوا۔ انگریزی ادب میں بہار کا ذکر آتا تو ذہن میں مارچ اور اپریل کے مہینے آتے۔ خزاں کا موسم سال کے آخری مہینوں سے وابستہ تھا۔ کیٹس تھا یا ورڈز ورتھ‘ یا برونٹی بہنوں کے ‘ ڈی ایچ۔ لارنس کے اور دوسرے ادیبوں کے ناول‘ سب میں موسم سال کے انہی حصوں کے لئے مختص تھے۔ پھر انگریز ننھے منے جزیرے سے نکلے اور کرہ ارض پرہر چہار طرف پھیل گئے۔ بحرِ اوقیانوس پار کیا اور کینیڈا اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ پر قبضہ کر لیا۔ پھر اوقیانوس کے جنوب میں گئے۔ وہاں سے اپنے بحری جہازوں کا رخ مشرق کی طرف موڑااور راس امید سے ہوتے ہوئے ہندوستان کے مشرقی حصے پر لنگر انداز ہوئے۔ کلکتہ اور ہگلی کو مرکز بنایا اور پھر افغانستان کی سرحد تک ملکہ کا پرچم لہرا دیا۔ پھر ایک جہاز سڈنی رکا ۔ چند عشرے ہی گزرے تھے کہ آسٹریلیا سے لے کر نیوزی لینڈ تک برطانوی سلطنت اردگرد کے سمندروں کی طرح ٹھاٹھیں مارنے لگی۔ عسکری قبضہ ہوا تو انتظامی امور بھی انگریزی تصرف میں در آئے۔ اب ادب بھی پیچھے پیچھے آیا۔ کہ ادب بھی انہی کا غلبہ پاتا ہے جن کے تصرف میں اقلیمیں ہوتی ہیں۔ کینیڈا ‘ امریکہ اور برصغیر ہند میں تو خیریت گزری کیونکہ ورڈز ورتھ کی شاعری میں جہاں بہار‘ مارچ اپریل کے ساتھ وابستہ تھی۔ ان ملکوں میں بھی ایسی ہی رہی۔ تاہم انگریز جب اپنے ادب عالیہ کو لے کر جنوبی افریقہ‘ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں وارد ہوئے تو معاملہ مختلف تھا۔ کلاس روموں میں استاد موسم بہار کی شاعری مارچ اپریل کے تناظر میں پڑھاتا اور باہر‘آنکھوں کے سامنے خزاں کے جھکڑ چل رہے ہوتے اور زرد پتے سینہ کوبی کرتے‘ درختوں سے ٹوٹ کر‘ زمین سے گلے مل رہے ہوتے۔ لندن مانچسٹر اور آئر لینڈ میں تخلیق شدہ ادب‘ جنوبی افریقہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں پڑھا پڑھایا جاتا تو کتابوں کے برعکس سرما دسمبر جنوری میں نہیں‘ جون جولائی میں ہوتا۔ پھر ان لوگوں نے اپنا ادب تخلیق کیا۔ شاعری کی۔فکشن لکھا۔ خزاں کو مارچ اپریل اور بہار کو ستمبر اکتوبر کے ساتھ وابستہ کیا۔ مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی‘ شیکسپیئر تو انگریزی ادب میں ایک ہی ہیْ چارلس ڈکنز روز روز نہیں پیدا ہوتا۔ ازرا پائونڈ امریکی تھا مگر عروج کے بارہ سال برطانیہ میں گزارے۔ ٹی ایس ایلیٹ امریکہ سے ہجرت کر کے انگلینڈ آ گیا۔ امریکی پاسپورٹ کو خیر باد کیا اور برطانیہ ہی میں دفن ہوا۔ سچ یہ ہے کہ انگریزی ادب جو انگلینڈ آئر لینڈ سکاٹ لینڈ اور ویلز میں تخلیق ہوا۔ کینیڈا‘ امریکہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ مل کر اس کا عشر عشیر بھی نہیں پیدا کرسکے! خزاں زورں پر ہے! ہوا چل رہی ہے‘ اس سرد‘ زرد‘ اداس سہ پہر کو میرا جی یاد آ رہا ہے ؎ لچکتی ہوئی ٹہنیوں کی گھنی پتیوں میں ہوا سرسرانے لگی ہے ہوا سرسرانے لگی ہے ہوا کس لئے سرسرانے لگی ہے کہیں دور۔غول بیاباں کی دل کو مسلتی ہوئی چیخ جاگی۔ کہیں دور… کیا خوبصورت صاف ستھرا شہر ہے۔ درختوں باغوں پارکوں سے بھرا ہوا۔ مگر دل کو مسلتی ہوئی۔ چیخ ابھرتی ہے۔ اس لئے کہ کبھی اسلام آباد بھی ایسا ہی تھا۔ خوبصورت صاف ستھرا۔ درختوں باغوں پارکوں سے بھرا ہوا۔ پھر یہ عفریتوں کے ہتھے چڑھ گیا۔ عفریت حکمران۔ عفریت بیورو کریٹ! اب یہ شہر Slumsکا مجموعہ ہے۔ میں ایک نیم خواندہ شخص ہوں۔ مجھے نہیں معلوم Slumsکو انگریزی میں کیا کہیں گے۔ہاں فارسی میں محلہ ہائے فقیر نشین کہیں گے۔ امرا نے شہر کو نوچ نوچ کر فقیر کر دیا۔