میری امّی جان اور میری دو عدد خالائیں اپنی روز مرہ کی گفتگو میں محاورے بے دریغ استعمال کرتی تھیں‘ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ محاوروں میں کچھ کچھ گفتگو کرتی تھیں۔ ہماری زبان یعنی پنجابی کو ایک تو دیگر زبانوں نے زدو کوب کیا اور اس کے علاوہ خود پنجابیوں نے بھی اپنی مادری زبان سے نفرت کی انتہا کر دی۔ بہرحال مجھے ہمیشہ قلق رہے گا کہ میں نے اپنے گھر میں کثرت سے استعمال کئے گئے محاوروں کو محفوظ کیوں نہ کیا۔ ہماری مائیں‘ خالائیں اور پھوپھیاں گئیں تو ان کے ساتھ پنجابی کے لازوال محاورے بھی دفن ہو گئے۔ مثلاً اگر گھر کا کوئی فرد یونہی سارا دن بیکار پھرنے کے بعد واپس لوٹا تو صرف اتنا کہا جاتا تھا کہ انّہے کُتّے تے ہرناں دے شکاری یعنی اندھے کتے اور ہرنوں کے شکار پر نکلے ہیں۔ اسی طور جب کوئی شخص کسی حادثے یا نقصان کے لئے خواہ مخواہ کسی معصوم اور غیر متعلقہ شخص کو ملزم ٹھہرا کر اس کے پیچھے پڑ جائے تو کہا جاتا تھا کہ ڈگی کھوتے توں تے غصہ کمہار تے۔ یعنی گری تم گدھے سے ہو اور اپنا غصہ کمہار پر اتار رہی ہو۔ کیا یہ محاورہ آج کے پاگل ہوتے باچھوں میں سے جنگ اور نفرت کی جھاگ اڑاتے انڈیا پر صادق نہیں آتا۔ تبھی انڈیا تم گرے تو کشمیر کے گدھے سے ہو اور غصہ ہم پر اتار رہے ہو۔ تو ہم کوئی کمہار ہیں۔ ویسے اگر گرے ہو تو گدھے سے نہیں بلکہ کشمیر کے جنت نظیر برفوں ایسے سفید خالص نسل کے جنگجو گھوڑے سے گرے ہو اور الزام ہمیں دیتے ہو۔ گھوڑے پر زبردستی تم چڑھے بلکہ خود سے کہاں چڑھے۔ تم نے کوشش بار بار کی پر اصیل گھوڑے نے تمہیں اپنے بدن پر ہاتھ نہ رکھنے دیا۔ پھر تم فوج لے آئے اور ظفر موج لے آئے اور اس کی مدد سے گھوڑے پر بٹھا دیے گئے۔ پر یہ آزادی کے سبزہ زاروں میں چمن زاروں میں بغیر کسی سوار کے بگٹٹ بھاگنے والا شاندار لشکیلے بدن والا، اکڑوں کنوتیوں اور مورچھل دم والا متوالا گھوڑا کہاں کسی جابر سوار کو برداشت کر سکتا ہے چنانچہ اس نے کبھی بدن جھٹک کر اور کبھی الف ہو کر تمہیں اپنی پشت سے گرا دیا اور تم نے ہمیشہ واویلا کیا کہ ہائے ہائے دنیا والو میں کہاں گرنے والا تھا یہ پاکستان ہے جس نے دھکا دے کر مجھے گرا دیا اور جب گھوڑے نے گرا کر ازراہ کرم دوچار دولتیاں بھی جھاڑ دیں۔ تمہیں لہولہان کر دیا تو تم نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ پاکستان نے اسے ہلا شیری دی ہے اس لئے اس نے مجھے دولتیاں رسید کی ہیں۔ میں طبل جنگ بجا دوں گا۔ پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دوں گا حالانکہ پاکستان تو اینٹوں سے بنا ہی نہیں سیسہ پلائی دیواروں سے بنا ہے۔ ڈگی کھوتے توں تے غصہ کمہار تے۔ حضور کبھی سوچا ہے کہ آپ نے زعفران کی اس سرزمین کو اجاڑ دیا۔ اس جنت کوجہنم بنانے کی کوشش پورے دس لاکھ فوجیوں نے کی اور منہ کی کھائی۔ کبھی جہلم کے پانیوں کو دیکھو جو سرخ ہو رہے ہیں۔ ان میں تمہارے بیدردی سے ہلاک کئے گئے کشمیری نوجوانوں کی لاشیں بہتی ہوئی آتی ہیں یہاں تک کہ ان لاشوں کے انبار پانیوں کے راستے میں حائل ہو جاتے ہیں۔ دریا کناروں سے بہہ نکلتا ہے اور اس کے پانی کشمیر کی مٹی میں جذب ہوتے جاتے ہیں۔ یہ خون آلود پانی جب اس سوہنی سرزمین کو سینچتے ہیں تو اس میں سے بے انت گل لالہ جنم لیتے ہیں اور ہر گل کا چہرہ کسی شہید کا گل رخ ہوتا ہے۔ کچھ نہیں وہ سب چہرے جو تم نے شہید کر دیے لالہ وگل میں نمایاں ہو رہے ہیں اور کشمیری مائیں بین کرتی نہیں مسکراتی ہوئی آتی ہیں اور اپنے بیٹوں کے چہرے اس فصل گل میں سے پہچان کر کچھ آنسو بہاتی ہیں اور ان کے آنسو جیسے شبنم کی بوندیں ہوں ان سرخ پھولوں کے چہرے نکھار دیتے ہیں، جیسے مائیں صبح سویرے اپنے بیٹوں کے منہ دھلا رہی ہوں۔ یہ خون رائیگاں جانے والا نہیں‘ رنگ لانے والا ہے اور اب رنگ لا رہا ہے تو الزام پاکستان پر دھرتے ہو اور ہر بار جب اس گھوڑے کو زیر کرنے کی کوشش میں تم اپنی فوج کی مدد سے بمشکل سوار ہو جاتے ہو تو تمہاری جنتا گیت گانے لگتی ہے کہ دیساں دا راجہ، ویر میرا گھوڑی چڑھیا۔ تو ویر جی تم لاکھ کوشش کرو۔ ہلاک کر دو سب نوجوانوں کو۔ دوپٹے پامال کر دو مائوں بیٹیوں کے اور بچوں کے چہرے چھلنی کر دو چھرّوں سے۔ گائوں کے گائوں جلا کر راکھ کر دو، تب بھی تم کشمیر کے دولہا نہیں بن سکتے۔ تمہارے چہرے پر ہتھیاروں کا جو سہرا سجا ہے وہ ہر بار نوچ پھینکا جاتا ہے اور پھر بھی تمہیں دولہا بننے پر اصرار ہے۔ حد ہوتی ہے ڈھٹائی کی۔ ہر بار گرتے ہو اور غصہ پاکستان پر اتارتے ہو۔ ان زمانوں میں جنگ صرف گِدھ جیتتے ہیں کہ ان کو کھانے کے لئے لاشے مل جاتے ہیں۔ یہ ایک مشترکہ خودکشی کا عمل ہے۔ دونوں ہلاک ہوں گے برباد سب ہو جائیں گے صرف اس لئے کہ گھوڑے نے ایک مرتبہ پھر تمہیں گرا دیا ہے اور یہ شاندار جی دار گھوڑا کسی عام نسل کا نہیں۔ کبھی غور سے دیکھو تو اس کی پشت پر ایک انگوٹھے کا نشان ہے جو چودہ سو برس سے اس گھوڑے کی نسل میں چلا آتا ہے کہ ہمارے محمد رسول اللہ ؐ نے اس گھوڑے کی پشت کو اپنے انگوٹھے سے تھپکا تھا تو یہ گھوڑا زیر ہونے والا نہیں‘ اس پر صرف کشمیر کی سرزمین کے بیٹے محمد رسول اللہ ؐ کے شیدائی سوار ہو سکتے ہیں۔ یہ کسی ابوجہل یا ابو لہب کو کہاں پاس آنے دیتا ہے۔ اس سے پرے رہو ورنہ یہ تمہیں دولتیاں مار مار کر ابابیلوں کی پیروی میں ابرہہ کے ہاتھیوں کی مانند بھوسہ بنا دے گا اور یہ شاندار حُسن والا ایسا گھوڑا ہے جسے والٹ وپٹ مین نے کچھ یوں بیان کیا ہے: ایک شاندار حُسن والا گھوڑا ان چھوا اور میرے لمس کا جواب دینے والا سر بلند ماتھا اور کنوتیوں کے درمیان فاصلہ اعضا لشکتے ہوئے اور نازک۔ دُم زمین پر دُھول اڑاتی ہوئی آنکھوں میں لشکتی ہوئی شرارت کان متحرک اور نفاست سے تراشے ہوئے ایک شاندار حُسن والا گھوڑا۔ تو اے انڈیا کے بدمست ہاتھی‘ اتنا تکبر نہ کر۔ ہم بے شک تیرے مقابلے میں ناتواں سے پرندے ہیں اور ہمیں ابابیلیں کہا جاتا ہے۔ ہماری چونچوں میں کنکریاں ہیں تو اے ہاتھی یاد رکھ تیرا بھی ابرہہ کے ہاتھیوں ایسا حشر ہو گا۔ بھوسہ بن جائے گا۔ کیا تونے ایک لبنانی ادیب کی وہ کہاوت نہیں پڑھی کہ، جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں۔ بالآخر فیصلہ مذاکرات کے ذریعے ہوتا ہے۔ تو کیا یہ بہتر نہیں کہ مذاکرات کی میز آباد سرزمینوں پر سج جائے۔ بجائے اس کے کہ۔ شہروں کے کھنڈروں میں سجے: گؔ گاتی ہوئی گولی ہے کہ گن سے نکلے کسی گمنام سپاہی کا نشانہ باندھے ایک سایہ کسی کھائی میں تڑپتا رہ جائے اپنی برسوں کی تمنائوں کو سینے میں لئے گؔ گبھرو ہے کہ بائیس بہاروںمیں پلے لؔ لاشہ ہے کہ دو روز کے اندر سڑ جائے (’’امن کا آخری دن‘‘ اِبن انشائ)