اتر پردیش (بھارت ) کی ایک خاتون نے اپنے خاوند سے طلاق حاصل کرنے کے لئے عدالت سے رجوع کیا ہے لیکن طلاق لینے کی جو وجہ بیان کی ہے وُہ انتہائی غیر معمولی ہے۔ میرا خیال ہے کہ دنیا بھر کی عدالتی تاریخ میں اِس کی نظیر نہیں ملتی ۔ ملاحظہ فرمائیے: جج: (خاتون سے ) تمہارا کوئی وکیل ہے؟ خاتون: میں اپنی وکیل خود ہوں۔ جج: ٹھیک ہے۔ کیا مسئلہ ہے تمہارا؟ خاتون: میں اپنے خاوند سے نجات حاصل کرنا چاہتی ہوں۔ جج: یعنی خلع لینا چاہتی ہو؟ خاتون: ایک ہی بات ہے۔ تم جج ہو تمہیں پتہ ہونا چاہیے۔ جج: تمیز سے بات کرو۔ میں جج ہوں تمہارا خاوند نہیں ہوں جو تم اِس لہجے میں بات کر رہی ہو۔ خاتون: میں سب سے اِسی لہجے میں بات کرتی ہوں۔ وُہ چاہے میرا خاوند ہو یا کسی اور کا۔ جج: کیا تم جانتی ہو کہ میں تمہیں کھڑے کھڑے جیل بھیج سکتا ہوں؟ خاتون:کھڑے کھڑے نہیں بیٹھے بیٹھے۔ اِس وقت تُم بیٹھے ہوئے ہو۔ جج: بہت ہی بد تمیز عورت ہو۔ توہینِ عدالت کی سزا جانتی ہو، کیا ہوتی ہے؟ خاتون: کمال کے جج ہو تُم۔ میری مدد کرنے کی بجائے مجھے بے گناہ جیل بھیجنے کی دھمکی دے رہے ہو۔ تمہیں جج نہیں تھانیدار ہونا چاہیے تھا۔ }اِس موقعے پر جج صاحب کا جی چاہا کہ اِس منّہ پھٹ عورت کا دماغ درست کر دیا جائے لیکن ان کا غصّہ ، تجسّس میں تبدیل ہوگیا۔ یوں سمجھ لیں کہ وُہ اسِ عورت میں INTERESED ہو گئے تھے اور بات کی تہ تک پہنچنا چاہتے تھے۔ { جج: چلو جلدی کرو۔ اپنا مسئلہ بیان کرو۔ خاتون: جلدی کس بات کی؟ آرام سے کان کھول کر میری بات سُنو۔ جج: سُنائو اُستانی جی۔ خاتون: مجھ سے فری ہونے کی کوشش نہ کرنا۔ بتائے دیتی ہوں۔میں تمہیں اُستانی نظر آرہی ہوں؟ جج: تم جو بھی ہو مجھے اِس سے غرض نہیں۔ یہ بتائو کہ تم نے عدالت کا دروازہ کیوں کھٹکھٹایا ہے؟ خاتون: میں نے کوئی دروازہ نہیں کھٹکھٹایا ۔ سیدھی عدالت کے اندر آئی ہوں۔ تمہارے آدمی نے مجھے روکنے کی کوشش کی تھی۔ میں اُسے دھکّا دے کر اندر آگئی ۔ گر گیا بے چارہ ینچے ۔ ( زور دار قہقہہ لگاتی ہے) جج: تُم ہنس بھی لیتی ہو؟ خاتون: کیوں نہیں ہنستی؟ عورت ہوں ، بھینس نہیں ہوں کہ ہنس بھی نہ سکوں۔ (مزید ہنستی ہے)۔ جج: بھینس سے یاد آیا۔ تمہیں یہ کہنا کہ تمیز سے بات کرو ، بھینس کے آگے بِین بجانے والی بات ہے۔ خاتون: بین گھر جا کر بجا لینا۔ بھینس تو ہوگی گھر میں۔پہلے میری بات سُنو۔ جج: سنائو۔ خاتون: میرا ایک خاوند ہے۔ جج: ایک ہی کافی ہے۔ خاتون: مجھے کہتے ہو تمیز سے بات کر و۔ اپنا حال دیکھا ہے۔ خاوند ایک ہی ہوتا ہے یا بہت سے ہوتے ہیں؟ جج: بہت سی عورتوں کے بہت سے خاوند بھی ہو سکتے ہیں۔ خاتون: (ماتھے پر ہاتھ مار کر) او خُدایا! کیسے کیسے لوگ جج بن جاتے ہیں! جج: عدالت کا وقت مت ضائع کرو ۔ ہاں تو کیا ہُوا تمہارے خاوند کو؟ خاتون: میں اِس سے طلاق لینا چاہتی ہوں۔ وُہ نہیں مانتا۔ جج: کیوں نہیں مانتا؟ اُسے تو فوراً مان جانا چاہیے۔ خاتون: یہ جو تُم طنز کے تیر چلا رہے ہو، میں خوب سمجھتی ہوں۔ جاہل نہیں ہوں۔ ڈائجسٹ پڑھتی ہوں۔ جج: خدا نہ کرے میں تم کو جاہل سمجھوں۔ تُم تو شکل سے ہی میڑک پاس لگتی ہو۔ خاتون: پہلے تم جی بھر کر جگتیں کرلو۔ میں بعد میں بات کرلوں گی۔ جج: ناراض نہ ہو معزز خاتون۔ اچھا تو یہ بتائو کہ تم اپنے خاوند سے کیوں طلاق لینا چاہتی ہو؟ خاتون: طلاق اِس لئے لینا چاہتی ہوں جج بھیّا کہ میرا خاوند بالکل اللہ میاں کی گائے ہے۔ جج: تمہارا تعلق گجّر برادری سے تو نہیں؟ تم گائے بھینسوں کا بہت ذکر کرتی ہو۔ خاتون: اگر تم اِسی طرح مجھے ٹوکتے رہے تو میری بات کبھی مکمل نہ ہو سکے گی۔ جج: سوری۔ ویری سوری۔ ہاں تو بیان جاری رکھو۔ خاتون: ہماری شادی کو دسمبر میں پورے دو سال ہو جائیں گے۔ جج: ٹھیک ہے۔ ٹھیک ہے۔ دسمبر کون سا دُور ہے۔ خاتون: جج بھیا، یہ بتائو کبھی تمہاری اور بیگم کی مارا ماری ہوئی ہے؟ میرا مطلب ہے لڑائی جھگڑاوغیرہ۔ جج: ہاں کبھی کبھار تھوڑا بہت ہوجاتا ہے۔ میاں بیوی میں تو یہ عام بات ہے۔ خاتون: میں تمہیں ایک بات بتاتی ہوں۔تم نہیں جا ن سکتے ۔کیونکہ تُم مرد ہو۔ بات یہ ہے کہ ہر عورت کی خواہش ہوتی ہے کہ گاہے گاہے خاوند سے تو تکار، مُنہ ماری، لڑائی وغیرہ ہوتی رہے۔ پانی پت کی نہ سہی ، چھوٹی موٹی ہی سہی لیکن ہوتی رہے۔ خاوند سے لڑائی جھگڑ ا، عورت کو بڑا سکون دیتا ہے۔ جج: لیکن مرد کا سکون تو برباد ہو جاتا ہے۔ خاتون: وُہ تم مردوں کا معاملہ ہے۔ عورت کو اِس سے غرض نہیں ہوتی۔ اُس نے تو اپنے سکون کا خیال رکھنا ہے۔ اب اگر خاوند برف سے زیادہ ٹھنڈے مزاج کا ہو ۔ گالیاں کھا کر یوں منہ بنائے گویا جلیبیاں کھا رہا ہے۔ اُلٹا شکر گزار ہوتا ہو کہ تم نے مجھے میری اوقات یاد دلا دی ، ہمیشہ مسکرا کر بات کرتا ہو۔ بیوی کی کسی بات سے اِختلاف نہ کرتا ہو، تھپّڑ کے جواب میں ہاتھ چوم لیتا ہو۔ جب منہ کھولے بیوی کی تعریف ہی کرے تو جج بھیّا ، لعنت ہے ایسے خاوند پر۔ اِس حد تک رن مریدی اچھی نہیں۔ عورت بے چاری ترستی رہے کہ کبھی تو جھگڑا ہو، الٹی سیدھی بکواس ہو۔ "دھیں پڑاس" ہو ۔ دل کی بھڑاس نکالنے کا موقع ملے ، چھوٹا موٹا دنگل ہو جائے لیکن اُس کا خاوند برف کے بلاک کی طرح ٹس سے مس نہ ہو۔ جان، جانِ من، میری پیاری ، ناراض نہ ہو۔ کوئی بات نہیں۔ تم میری زندگی ۔ تم میری سب کُچھ۔ سوری ۔آئی ایم سوری۔ اللہ قسم، واہ جی واہ۔ یہ کیا کہہ رہی ہو۔ نہیں ایسا نہیں ہے۔ میں صدقے میں قربان ۔۔۔۔تمہاری قسم ، تمہارے سر کی قسم۔ ایسا نہیں ہے۔ ایسا بالکل نہیں ہے۔ آئندہ ۔۔۔۔ آئندہ۔۔۔۔۔ نہیں آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔ سوال۔۔۔۔سوال۔۔۔۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ میری بِلّو ۔ نہ ۔۔۔نہ۔۔ یہ نہ کہو۔ چلو کہہ لو۔جو چاہو کہہ لو۔ ۔۔۔لو اور مار لو۔ جوتا دُوں۔۔۔۔ میں برا نہیں مانتا۔ ٹھیک کہہ رہی ہو۔ میں بہت بُرا ۔ میرے والدین مجھ سے بھی بُرے۔ تمام رشتے دار اُلّو کے پٹھے۔ دوست سب واہیات۔ کبھی کوئی نہیں آئے گا۔ کوئی اپنی منحوس شکل نہیں دکھائے گا۔ بس اب غصّہ تھوک دو۔ میرے منہّ پر تھوک دو۔ چلو شاپنگ کے لئے چلتے ہیں۔ تمہاری بہن کی شادی آرہی ہے۔ تم نے نیا سوٹ لینا ہے ۔ چلو اب شانت ہو جائو۔ وغیرہ وغیرہ : جج بھیاّ اپنے خاوند کے اِس رویّے سے میں بے حد تنگ آچکی ہوں۔ میں اُس شخص کے ساتھ ایک دن بھی نہیں رہ سکتی۔ مجھے طلاق چاہیے۔ طلاق کے علاوہ اور کچھ نہیں چاہیے۔ جج: مجھے تم دونوں سے ہمدردی ہے۔ اگلی تاریخ پر عدالت فیصلہ سُنا دے گی۔ خاتون: ٹھیک ہے جج بھیّا ۔ کہا سُنا معاف۔