ہندوستان میں مودی سرکار نے جس طرح انسانوں خصوصاً مسلمانوں کے خلاف ظلم اور بربریت کا طوفان برپا کر رکھا ہے تو وہ زمانہ یاد آ رہا ہے 800 سال پہلے ہندو انتہا پسندی اس قدر عروج پر پہنچی ہوئی تھی کہ برہمن چھوٹی ذات کے ہندوؤں پر ظلم کرتے تھے تو اسی اثناء میں ہندوستان میں ایک شخصیت جنم لیا ، جس نے بلا رنگ ، نسل و مذہب تمام دھتکارے ہوئوں کو اپنی آغوش میں لیا ۔ آج ایک بار پھر سے ہندوستان کو ایک ایسے ہی خواجہ غریب نواز کی ضرورت ہے جو انسانوں کو غیر انسانی رویوں اور ظلم سے بچائے ۔ یہ حقیقت ہے کہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ نے طبقاتی نظام اور چھوت چھات کے اس بھیانک ماحول میں اسلام کا نظریہ توحید عملی طور پر پیش کیا اور بتایا کہ یہ صرف ایک تخیلی چیز نہیں ہے ، بلکہ زندگی کا ایک ایسا اصول ہے جسے تسلیم کر لینے کے بعد ذات پات کی سب تفریق بے معنی ہو جاتی ہے ۔یہ در حقیقت ایک زبردست دینی ، سماجی اور اصلاحی انقلاب کا اعلان تھا۔ ہندوستان میں بسنے والے بے شمار وہ مظلوم انسان جن کی زبوں حالی پکار رہی تھی کہ ’’ جینے سے مراد ہے نہ مرنا شاید ‘‘ وہ اس انقلابی اعلان کو سن کر دوبارہ زندگی کا کیف محسوس کرنے لگے ۔ اس بوریانشین مرد قلندر کی نظر کی تاثیر کا یہ عالم تھا کہ جس طرف بھی نگاہ بھر کر دیکھ لیتے ، معصیت کے سوتے اس کی زندگی میں خشک ہو جاتے ۔ ’’ رسالہ احوال پیران چشت ‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’ نظر شیخ معین الدین برقاسقے کہ افتادے ، در زماں تائب شدے ، باز گرد معصیت نہ گشتے ‘‘ کہ حضرت شیخ معین الدین کی نظر جس فاسق ( گناہ گار بندے ) پر پڑ جاتی وہ تائب ہو جاتا اور پھر کبھی گناہ کے پاس تک نہ جاتا ۔ آپ ؒ پندرہ برس کے تھے کہ شفقتِ پدری سے محروم ہو گئے ۔ اسی اثناء میں مشہور بزرگ حضرت ابراہیم قندوزیؒ جو مجذوب بھی تھے کی توجہ سے طلب حق کا جذبہ پیدا ہوا ۔ چنانچہ وطن عزیز کو خیر باد کہہ کر تحصیل علم کیلئے سمر قند و بخارا ، جو ان دنوں اسلامی علوم و فنون کے مرکز سمجھے جاتے تھے کا سفر اختیار کیا ۔ پہلے قرآن حکیم فرقان حمید حفظ کیا اور پھر علوم دینیہ کی تحصیل و تکمیل کی ۔ اس زمانے کے ممتاز علماء سے کسب فیض حاصل کیا ۔ سمر قند سے نکل کر عراق کی طرف روانہ ہوئے اور نیشا پور کے قریب قصبہ ہارون یا ہرون میں مشہور بزرگ حضرت شیخ عثمان ہارونی کی خدمت میں حاضر ہو کر شرف بیعت حاصل کیا ۔ آپ کا نام معین الدین حسن تھا جب کہ خواجہ ہند، غریب نواز، سلطان السالکین ، عطائے رسول کریم ، قطب المشائخ کے القاب سے شہرت پائی ۔ آپ 14 رجب المرجب بروز پیر ایران کے شہر سیستان کے قصبہ سنجر میں 536ھ میں پیدا ہوئے ۔ حسنی حسینی سادات سے ہیں ، سلسلہ نسب بارہ واسطوں سے شیر خدا سیدنا علی المرتضیٰ ؓ سے جا ملتا ہے۔ والد کا نام غیاث الدین تھا ، جبکہ والدہ کا اسم مبارک ام الورع ماہ نور بی بی تھا ۔آپ کا حلیہ شریف کچھ یوں تھا ، رنگ سرخ و سفید، دراز قد، جسم مضبوط و قوی، شانے چوڑے ،پیشانی کشادہ ، آنکھیں خوب صورت اور ریش مبارک قدرے گھنی تھی ۔ 552ء میں قصہ ہارون میں شیخ خواجہ عثمان ہارونی علیہ الرحمہ سے شرف بیعت حاصل کیا ۔ آپ کے خلفائے کرام میں قطب الدین بختیار کاکی ، خواجہ حمید الدین ناگوری ، حکیم ضیاء الدین بلخی ، سید حسین مشہدی ، شیخ نظام الدین ناگوری رحہم اللہ علیہم زیادہ مشہور ہیں ۔ آپ نے دو شادیاں کیں ، پہلی زوجہ محترمہ عصمت اللہ بی بی تھیں جو کہ حاکم اجمیر کی صاحبزادی تھیں ، جبکہ دوسری زوجہ کا نام امۃ اللہ بی بی تھا ، تین صاحبزادے اور ایک صاحبزادی تھی ۔ جن میں خواجہ فخر الدین ، خواجہ حسام الدین ، خواجہ ضیاء الدین جبکہ دختر نیک اختر کا نام حافظہ جمال بی بی تھا جو خواتین کی تبلیغ پر مامور ہوئیں ۔ آپ کے فیوض و برکات سے روایت کے مطابق 90 لاکھ غیر مسلم حلقہ بگوش اسلام ہوئے ۔ آپ کی تصانیف میں انیس الارواح ، کشف الاسرار ، گنج الاسرار ، رسالہ تصوف ، رسالہ آفاق و انفس ، حدیث المعارف ، رسالہ موجود یہ شامل ہیں جبکہ آپ کا شعری مجموعہ دیوان معین کے نام سے آپ کے علمی ذوق کا پتہ دیتا ہے۔ آپ کے ملفوظات کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ خواجہ صاحب کے نزدیک اہل سلوک کا ہر قسم کے صدرو معنوی اخلاق کا حامل ہونا ضروری ہے کونکہ آپ کے نزدیک تصوف نہ علم ہے ، نہ رسم بلکہ مشائخ کا ایک اخلاق ہے جو ہر لحاظ سے مکمل ہونا چاہئے ۔ آپ کے نزدیک اولین ضرورت شریعت کی ہے یعنی صدری حیثیت سے اس اخلاق کی تکمیل یہ ہے کہ سالک اپنے ہر کردار میں شریعت کا پابند ہو، جب اس سے کوئی بات خلاف شریعت سر زد نہ ہوگی تو وہ دوسرے مقام پر پہنچے گا جس کا نام طریقت ہے اور جب اس میں ثابت قدم رہے گا تو معرفت کا درجہ حاصل کرے گا اور جب اس میں بھی پورا اترے گا تو حقیقت کا درجہ پائے گا جس کے بعد اللہ تعالیٰ سے جو مانگے گا اسے ملے گا ۔ سید محمد بن مبارک کرمانی سیرت الاولیاء میں لکھتے ہیں کہ بیس سال تک آپ حضرت عثمان ہارونی کی خدمت میں سلوک و طریقت کی منازل طے کرتے رہے اور ہر طرح کی خدمت بجا لاتے رہے ۔ بیس سال بعد حضرت خواجہ ہارونیؒ نے مکہ مکرمہ میں آپ کو خرقہ خلافت عطا فرمایا اور آپ کی مقبولیت اور آپ کے حق میں خدا اور اس کے رسولؐ کی بارگاہ میں دعا فرمائی ۔ مدینۃ النبیؐ کی حاضری میں حضور اقدس ؐ نے آپ کو ہندوستان جانے کا حکم دیا اور بشارات سے نوازا ۔ اس کے بعد آپ نے کسب روحانی کیلئے مختلف مقامات کا سفر کیا اور متعدد بزرگوں سے ملاقاتیں کیں ۔ شہنشاہ ِ بغداد شیخ عبدالقادر جیلانیؒ نے جب اپنے عہد مبارک میں یہ اعلان فرمایا کہ’’ میرا قد تمام ولیوں کی گردن پر ہے ‘‘ ۔تو اس وقت حضرت خواجہ غریب نوازؒ خراسان میں عبادت و ریاضت اور مجادہ میں مصروف تھے سرکار غوثِ اعظمؒ کا یہ فرمان خواجہ غریب نوازؒ کی سماعتوں سے ٹکرایا ۔ حضرت معین الدین اجمیری ؒآخری وقت تک اجمیر ہی میں قیام فرمایا اور یوں تقریباً نصف صدی تک ارشاد و تلقین ، اشاعت اسلام اور ہزاروں مریدین کی تعلیم و تربیت میں مشغول رہنے کے بعد وصال فرمایا ۔تاریخ بتاتی ہے کہ آپ نے سلطان التمش کے دور میں وصال فرمایا ۔سیر العارفین کے مصنف کا بیان ہے کہ وفات کے وقت سن شریف 97 سال تھا ۔ 6 رجب 627ھ 1229ء میں جب سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ؒ کا انتقال ہوا۔ جنازے میں لوگوں کا اژدھام تھا ، ہر آنکھ اشکبار تھی ، بڑے صاحبزادے خواجہ فخر الدین نے نماز جنازہ ادا کی۔ آپ کا مزار مبارک صدیوں سے زیارہ گاہ خلائق اور مرجع خاص و عام ہے۔