سابق وزیر اعظم نواز شریف کی حالت بگڑ گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ بگڑ گئی ہے یا بگاڑی گئی ہے؟ معاملات اور واقعات سامنے ہیں۔ جیل میں برے حالات میں رکھا گیا۔ گھر کا کھانا بند کر دیا گیا اگرچہ مشیرہ اطلاعات قوم کو بتاتی رہیں کہ ان کے لئے گھر سے پائے‘ ہریسہ اور نہاری آتی ہے۔ مینوئل کے مطابق انہیں گھر سے کھانا منگوانے کا حق تھا لیکن یہ حق نہیں دیا گیا اور سرکاری کھانے پر اتنا اصرار کیا گیا کہ حیرت ہوئی۔ اب یہ حیرت دور ہو گئی ہے اور پتہ چل گیا ہے کہ اصرار کے پیچھے کیا تھا۔ ڈاکٹر کی رسائی روکی گئی۔ علاج اور دوائوں کی فراہمی میں رکاوٹ ڈالی گئی۔16اکتوبر کو ان کے ڈاکٹر عدنان نے نیب کو خط لکھا کہ نواز شریف کو حاصل طبی سہولتیں واپس نہ لی جائیں ورنہ ان کی حالت تشویش ناک ہو جائے گی۔ مگر ذاتی معالج کی درخواست مسترد کر دی گئی۔ نواز شریف کی صحت کو فیصلہ کن حد تک خطرناک مرحلے میں داخل کرنے کے لئے انہیں جیل سے نکال کر نیب کی حوالات میں ڈالا گیا۔ جیل کے عملے میں کوئی نہ کوئی ناقابل اعتماد آدمی ہونے کا خدشہ تھا۔ جبکہ نیب کی حوالات میں سر سے پائوں تک سارے کا سارا عملہ قابل اعتماد تھا۔ یہ صاف لگ رہا ہے کہ صحت کی حالت زیادہ تشویش ناک نیب کی حوالات میں آنے کے بعد ہوئی۔ دس گیارہ روز سے ان کے دانتوں سے خون آ رہا ہے جو خطرناک علامت ہے۔ پنجاب کی وزیرہ صحت ڈاکٹر یاسمین راشد نے کہا کہ خون ٹوتھ برش کی وجہ سے آیا۔ ٹوتھ برش کے استعمال سے خون مسلسل دس روز تک آتا رہتا ہے؟ یہ انوکھی دریافت بھی اب ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ پھر نواز شریف کو ’’ملک بدر ی‘‘ پر آمادہ ہونے کے لئے دبائو ڈالا گیا۔ ان کی اسیر صاحبزادی مریم کو جیل سے ہسپتال لایا گیا اور خبر ملی کہ انہیں 24گھنٹے کے پیرول پر لایا گیا ہے۔ اطلاع ہے کہ نواز شریف ملک بدری پر نہ مانے چنانچہ چند ہی گھنٹوںبعد مریم کو دوبارہ جیل بھیج دیا گیا۔ ٭٭٭٭٭ وزیر اعظم نے بااعتماد صحافیوں کو طلب کر کے یہ اطلاع دی کہ وہ استعفیٰ نہیں دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ فوج ان کے پیچھے کھڑی ہے۔ بلیک میلنگ میں نہیں آئوں گا۔ وزیر اعظم کی یہ اطلاع ’’وعدہ‘‘ سمجھا جائے یا دعویٰ ‘ بات ایک ہی ہے اور بالیقین وہ اسے پورا کریں گے یعنی استعفیٰ نہیں دیں گے۔ اس لئے کہ ان کا ٹریک ریکارڈ وعدے پورے کرنے کا ہے۔ انہوں نے وعدہ کیا قرض نہیں لوں گا۔ پورا کیا۔ وعدہ کیا عوام کو ریلیف دوں گا۔ پورا کیا۔ وعدہ کیا کہ پروٹوکول نہیں لوں گا۔ پہلے سے بڑھ کر پورا کیا۔ وعدہ کیا کہ ایک کروڑ نوکریاں دوں گا،دے دیں۔ وعدہ کیا پچاس لاکھ گھر بنائوں گا۔ وعدہ وزیر اعظم ہائوس کو عوام کے لئے کھولوں گا، کھول دیا۔ گزشتہ روز ایک ماڈل گرل حریم شاہ وزارت خارجہ جیسی حساس جگہ پر ٹک ٹاک کرتی۔ دندناتی پھرتی اور ویڈیو بناتی بلکہ وزارت خارجہ کی خالی کرسیوں کے اجلاس کی صدارت کرتی رہیں۔ کسی نے نہیں روکا۔ وعدہ کیا لوٹوں کو ساتھ نہیں بٹھائوں گا۔ بالکل پاس نہیں بٹھایا۔ فرمایا ایک کرپٹ کو وزارت نہیں دوں گا۔ ایک کرپٹ کو نہیں دی‘ باقی کو البتہ دے دی۔ وعدہ ایک کا تھا باقی کا نہیں اور پھر نہ جانے کتنے ہی اور وعدے ‘ جب پورے کئے اتنے وعدے نبھا دیے تو یہ تازہ ترین بھی کیوں نہیں نبھائیں گے۔ ٭٭٭٭٭ وزیر اعظم نے کہا‘ مولانا فضل الرحمن کو پتہ ہی نہیں ہے کہ میں کون ہوں۔ یہی تو جھگڑا ہے۔ مولانا کا دعویٰ ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ عمران خان کون ہیں۔ ٭٭٭٭٭ پیپلز پارٹی کے رہنما بلاول بھٹو زرداری نے تھرپارکر کے شہر اسلام کوٹ میں بہت بڑا جلسہ کیا۔ ہمیں پچیس ہزار آبادی کے اس ننھے منے شہر میں اتنا بڑا جلسہ دیکھ کر بہت سے لوگوں کو حیرت ہوئی ہو گی لیکن حیرت والی بات اس لئے نہیں ہے کہ تھر کے علاقے میں پیپلز پارٹی کی جڑیں ماضی کے مقابلے میں زیادہ جم گئی ہیں۔ پچھلے پانچ چھ برسوں میں پیپلز پارٹی نے اس علاقے میں متعدد نئی سڑکیں بنائی ہیں جس کی وجہ سے یہاں لوگوں کی زندگی میں بہتری آئی ہے۔ آب رسانی کا نظام بھی بہتر کیا گیا ہے اور اسے پھیلایا گیا ہے۔ کچھ ڈسپنسریاں بھی کھلی ہیں اور ایک معیاری ایئر پورٹ بھی کھلا ہے۔ تھر کو بالعموم تھر پارکر تک ہی محدود سمجھا جاتا ہے حالانکہ یہ علاقہ اس وسیع صحرا کا حصہ ہے جو یہاں سے شروع ہو کر سارے مشرقی سندھ کو محیط میں لیتا ہوا پنجاب کے علاقے بہاولنگر تک جاتا ہے، یہی تھر بھارت میں داخل ہوکر جنوب میں گجرات کی سرحد سے لے کر شمال میں ہریانہ مشرقی پنجاب اور دہلی کے جنوب تک پھیلا ہوا ہے۔ بھارت نے اپنے تھر کو بے پناہ ترقی دی ہے پاکستان میں تمام آمرانہ حکومتوں نے تھر کو پامال کیا۔ پرویز مشرف نے تو حد کر دی اس علاقے کی تمام برانچ ریلوے لائنیں بند کر دیں۔ حتیٰ کہ وہ ٹرین بھی جو صحرائی سٹیشنوں پر پانی بانٹا کرتی تھی۔ تھر میں غیر ملکی سیاحوں کے لئے بہت کشش ہے۔ذرائع مواصلات بحال کر کے یہاں سیاحت کو ترقی دی جا سکتی ہے۔ ٭٭٭٭٭ بلاول بھٹو اتنا بڑا مجمع دیکھ کر موج میں آ گئے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ وزیر اعظم کا تختہ الٹ کر دم لیں گے۔ یہی عزم مولانا فضل الرحمن کا بھی ہے۔ عزم سے کوئی سروکار نہیں لیکن یہ سوال ہے کہ جناب کامیاب ہو گئے تو پھر کریں گے کیا؟ معیشت میں شد بد رکھنے والے یکے از احباب کا کہنا تھا کہ معیشت کی شکل ایسی برباد ہوئی ہے کہ ایک کیا‘ دس معیشت دان بھی بلا لیں۔ ٹھیک نہیں ہو سکتی۔ کاروبار بند‘ بے روزگاری کا سدباب ‘ بھوک گھروں کو نگل رہی ہے لیکن ملک کی قسمت دیکھیے‘ آگے ہی بڑھتا چلا جا رہا ہے۔