وزیر اعظم نے ایک اور تاریخی خطاب فرما دیا۔ اس بار اعزاز چین کے حصے میں آیا کہ خطاب سازی کی تاریخ کا ایک سنہرا باب اس کی سرزمین پر لکھا گیا۔ وہی چین جس کے سربراہ کو 2014ء میں کسی نے پاکستان کا دورہ کرنے سے روک دیا تھا۔ تاریخی خطاب کی تاریخی بات یہ تاریخی خواہش تھی کہ کاش میں پانچ سو کرپٹ لوگوں کو گرفتار کر سکتا۔ خواہش بہت ہی مبارک اور نیک مطلوب ہے۔ افسوس کہ یہ گنتی پوری نہیں ہو سکتی ۔ اس لئے کہ لے دے کے شریف خاندان کے قابل گرفتار افراد پندرہ بیس سے زیادہ نہیں ہیں بلکہ زیادہ صحیح یہ کہ اس سے بھی کم ہیں۔ مزید افراد موجود ہیں لیکن کچھ تو ان میں شیر خوار‘کچھ بلوغت کی عمر سے پیچھے ہیں۔ ان کی گرفتاری کے لئے کچھ برس انتظار کرنا ہو گا۔ اس فہرست میں شاہد خاقان عباسی‘ مفتاح اسماعیل ‘ رانا ثناء اللہ کے علاوہ ان جیسے بیس پچیس افراد کو مزید شامل کر لیا جائے جو ابھی گرفتار نہیں ہوئے تو بھی تعداد پچاس نہیں بنتی۔ یعنی مطلوبہ افراد سے ساڑھے چار سو فیصد کم۔ ہدف بہت بڑا ہے حیرت کی بات ہے خان صاحب کے حصے میں جتنے بھی ہدف آئے ہیں۔ ان سب کا یہی حال ہے ‘ اکثر کا شارٹ فال تو ان سے بھی زیادہ ہے۔ ہدف پورا کرنے کا ایک طریقہ البتہ ہے۔ خاں صاحب اپنی اسلام آباد کابینہ‘ پشاور کابینہ اور لاہور کابینہ کے وزیروں‘ مشیروں ‘ معاونوں ‘ ٹاسک فورسز کے چیئرمینوں‘ ترجمانوں‘ غیر منتخب ذمہ داروں کی فہرست پر نظر ڈالیں۔ قابل گرفتاری افراد کی اتنی تعداد انہیں مل جائے گی کہ نہ صرف یہ کہ پانچ سو افراد کا ہدف پورا ہو جائے گا بلکہ اتنے ہی ’’سرپلس‘‘ یعنی فاضل بھی مل جائیں گے۔ یوں پانچ سو کی جگہ ایک ہزار ہو جائیں گے۔ تو پھر حضور کیا خیال ہے؟ ٭٭٭٭٭ خطاب میں اطلاع دی کہ ہماری حکومت نے آتے ہی کاروبار کرنے کے لئے آسانیاں فراہم کیں۔ خطاب مختصر تھا اس لئے فراہم کی جانے والی آسانیوں کی تفصیل انہوں نے نہیں بتائی۔ بہرحال‘ سب کو ان آسانیوں کا علم ہے۔ پھر بھی ریکارڈ کے طورپر چند ایک کا ذکر مناسب رہے گا۔ سرفہرست آسانی یہ کی کہ سود کی شرح میں تاریخ ساز اضافہ کر کے اسے ساڑھے تیرہ فیصد کی بلندی پر پہنچا دیا۔ اس کے بعد سے کاروبار کے لئے آسانیوں کا فلڈ گیٹ کھل گیا۔ کاروبار اتنے آسان ہو گئے کہ کاروباری حضرات گھر بیٹھ گئے کہ اتنے آسان کاروبار کے لئے مارکیٹ آنے جانے کی کیا ضرورت۔مزید سہولت کا باب یہ کھولا کہ بجلی اور گیس کے نرخ بڑھانے کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کیا۔ اسے کہتے ہیں فیض مسلسل ۔ پھر ٹیکسوں کی ایسی موسلا دھار بارش برسانا شروع کی کہ سوکھے جنگل دم کے دم ہرے ہو گئے اور ہرے ہوتے ہی چلے جا رہے ہیں۔ ’’ترقی ‘‘ کی نمی اتنی بڑھی کہ دیواوں پر بھی کائی اگ آئی۔ اگ رہا ہے دورو دیوار پہ سبزہ غالب۔ ٭٭٭٭٭ فرمایا‘ ہم نے امن و امان کی حالت ٹھیک کر دی۔ ٹھیک کہہ کر کسر نفسی کا مظاہرہ کیا۔ کہنا چاہیے تھا کہ ٹھیک ترین کر دی۔ اس دوران اگرچہ ڈکیتی کی وارداتوں کا ’’ہڑ‘‘ آ گیا(سونامی کو پنجابی میں ھڑ کہتے ہیں۔ اس کا اس ھڑ سے کوئی تعلق نہیں جس کا مربہ بنتا ہے اور جسے ھلیلہ بھی کہتے ہیں) تحریک انصاف کے ایک سخت گیر حامی افسوس کے ساتھ بیٹھے روز انکشاف فرما رہے تھے کہ خطرناک جرائم میں کئی گنااضافہ ہو گیا ہے۔ حالانکہ افسوس کا یہ مقام تھا ہی نہیں۔ انہیں تو فخر سے کہنا چاہیے تھا کہ اس شعبے میں ترقی کی شرح تین گنا ہو گئی۔ایسی ہی کئی گنا ترقی ڈکیتی کے دوران قتل‘ اغوا برائے تاوان‘ اغوا برائے زیادتی‘ قتل بعداز اغوا برائے تاوان قتل بعداز زیادتی کے واقعات میں ہوئی ہے۔ دو روز پہلے ایک گھر میں ڈاکو گھسے ‘ ایک بچی کا ریپ کیا پھر اس کی ماں کو قتل کر دیا۔ اور ساڑھے تین گھنٹے تک گھر میں طعام و قیام کے بعد ٹہلتے ٹہلتے اپنے ٹھکانے کو سدھارے ۔ ایسی بے فکری بے خوفی اور باطمینان کی فضا پہلے کبھی میسر تھی۔ القصہ امن و امان کی حالت ایسی بہترین ہے کہ بس الامان و الامان ٭٭٭٭٭ فرمایا‘ عوام کو ریلیف دینے کے لئے ہمیں چین سے کچھ سیکھنا ہے۔ یہ بھی کسر نفسی اور انکسار کی حد ہے ۔ ورنہ سیکھنا تو چین کو ہم سے ہے۔ مثلاً یہ کہ ترقی انفراسٹرکچر‘ سڑکوں ‘عمارتوں سے نہیں ہوتی۔ ترقی لنگر کھولنے سے آتی ہے۔ ملین در ملین لوگوں کو روزگار سے محروم کرنے سے آتی ہے۔ مفت علاج یا سستا علاج بند کرنے سے آتی ہے۔ تعلیمی بجٹ گھٹانے سے آتی ہے۔ اس سنہری فارمولے پرجرمنی جاپان (جن کی سرحدیں آپس میں ملتی ہیں) سے لے کر امریکہ انگلینڈ تک اور بھارت بنگلہ دیش سے لے کر ملایا تائیوان تک کسی نے عمل نہیں کیا اوردیکھ لو سب کے سب کتنے پسماندہ رہ گئے۔ اور ہاں ترقی ’’ڈینگی بحالی پروگرام‘‘ سے بھی آتی ہے ثبوت بزدار سے لے لو۔ ٭٭٭٭٭ پر مغز خطاب پر قصیدہ گوئی کی ابھی بہت گنجائش ہے۔ لیکن دھرنے کا ذکر رہ جاتا ہے۔ مختصر عرض ہے کہ دھرنے پر چار مکاتب فکر قائم ہو گئے ہیں۔ اول کا خیال ہے۔ دھرنا ہو گا ہی نہیں۔ گرفتاریوں اور مارکٹائی سے روک دیا جائے گا۔ دوئم کا کہنا ہے ہو گا لیکن مقصد پورا نہیں ہو گا بس انتشار برپا ہو گا۔ سوئم کا کہنا ہے کہ نتیجے میں مارشل لاء لگ جائے گا۔ چہارم کا دعویٰ ہے کہ کامیاب ہو گا۔ نتیجہ بھی آئے گا۔ عرض ہے کہ دھرنا ہوتا ہے یا نہیں ہو تا ہے یا مذاکرات کے نتیجے میں پروگرام کچھ تبدیل ہوتا ہے یا نہیں ہوتا ہے اس سب سے کچھ غرض نہیں۔ جو بھی ہو تبدیلی کا تبادلہ طے ہے۔ عرض یہ ہے کہ بس اتنی ہی عرض ہے معنی مطلب آپ خود سمجھتے رہیے۔ ٭٭٭٭٭ پی ٹی آئی کے ایک انتہائی سخت گیر غلام’معاف کیجیے گا‘ غلام ان کا نام ہے۔ حامی تجزیہ کار فرما رہے تھے‘ رشوت کاریٹ ایک لاکھ سے پانچ لاکھ اور دس لاکھ ہو گیا ہے۔ ہر طرف کرپشن کا بازار گزر ہے کرپشن بہت بڑھ گئی ہے۔ الفاظ کا درست استعمال نہیں کیا گیا۔ یوں کہیے ہر طرف ایمانداری کی گرم بازاری ہے۔ صداقت و امانت کے نرخ بڑھ گئے ہیں‘ وغیرہ۔