فاروق آباد جاتری روڈ پر واقع بغیر پھاٹک ریلوے کراسنگ پر کوسٹر ٹرین کی زد میں آ گئی۔ جس میں سکھ خاندان کے 22مسافر ہلاک اور 5زخمی ہو گئے۔ ریلوے حادثات کثرت کے ساتھ رونما ہو رہے ہیں لیکن ہر حادثے کے بعد چند افراد کو او ایس ڈی اور چند کو ملازمت سے برطرف کر کے وزارت ریلوے ذمہ داری سے عہدہ برآ ہو جاتی ہے۔ حالانکہ ایسے حادثات کے محرکات کی تہہ تک جا کر اس کا مستقل حل تلاش کرنا چاہیے۔ حالیہ حادثے میں کوسٹر وین ڈرائیور کی غلطی ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ریلوے کراسنگ پر جب پھاٹک ہی موجود نہیں تو پھر ڈرائیور کو ٹرین آنے کا پتہ کیسے چلے گا ملک بھر میں تین ہزار سے زائد ریلوے کراسنگ ہیں جن میں سے دو ہزار تین سو بیاسی ریلوے کراسنگ پر کوئی اہلکار موجود نہیں اگر ریلوے ایسی کراسنگ پر پھاٹک یا جنگلے لگاتا ہے جہاں پر ریلوے کا کوئی ملازم موجود نہیں تو لوگ اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق اگر محکمہ ریلوے دو ہزار تین سو بیاسی ریلوے کراسنگ پر جنگلے یا پھاٹک لگاتا ہے تو اس پر 38سے 42ارب روپے کی لاگت آئے گی جبکہ ریلوے پہلے ہی خسارے میں چل رہی ہے۔ اس لئے صوبائی حکومتیں اپنی اپنی حدود میں ریلوے پھاٹک نصب کریں۔ ہر ضلع کی حکومت اپنی حدود میں عوام کے جان و مال کی حفاظت یقینی بنانے کی آئینی طور پر پابند ہے اس لئے اگر ضلعی سطح پر پھاٹک نصب کرنے کا کام کیا جائے تو اس سے ریلوے پر بھی بوجھ نہیں آئے گا اور آئے روز کے حادثات سے بھی بچا جا سکتا ہے۔ وزیر ریلوے صوبائی حکومت سے تعاون لے کر یہ کام شروع کریں ایم ایل ون کی طرح ریلوے کا یہ کارنامہ بھی ملکی تاریخ بدل دے گا۔