یقینا تحریک انصاف کی حکومت کے اس فیصلے کو سراہا ہی جائے گا جس نے نہ صرف 68ملیٹنٹ تنظیموں کو کالعدم قرار دیا گیا ہے بلکہ بین الاقوامی شہرت یافتہ تنظیم جیش ِ محمد کے بانی مولانا مسعود اظہر کے صاحبزادے حماد اظہر ،بھائی مفتی عبد الرؤف سمیت 44افراد کو فوری طور پر حراست میں بھی لیا ہے۔مولانا مسعود اظہر کے بارے میں سرکاری ترجمان کے مطابق خاموش جواب دیا گیا۔کہ ادھر مہینوں سے اُن کی بیماری کی خبریں آرہی ہیں۔ کالعدم جہادی تنظیموں کے بارے میں کچھ لکھنا اور بولنا ہمیشہ سے ہی ایک حساس موضوع رہا ہے کہ سوویت ،افغان جنگ اور پھر 9/11کے بعد سے ہمارے مقتدر ریاستی حلقے ان کی سرگرمیوں اور مستقبل میں ان کے کردار کے بارے میں معروف اصطلاح میں ایک ’’پیج‘‘پر نہیں رہے۔ سوویت ،افغان جنگ اور پھر 9/11 تک القاعدہ کے بانی اسامہ بن لادن اور طالبان حکومت کے سربراہ ملا عمر ریاستی حکمت عملی اور پالیسی کا ایک لازمی جُز تھے۔ ان تنظیموں کے قائد ین کو ہیرو کا درجہ حاصل تھا اور جو ڈیورنڈ لائن کے اُس طرف آزادانہ مورچے لگائے ہوئے تھے۔ان میں سے ایک حلقہ کشمیریوں کی تحریک آزادی میں بھی اپنا حصہ ڈالے ہوئے تھا۔ ۔ ۔ خاص طور پر نوے کی دہائی میںہندوستان کے زیر انتظام مقبوضہ کشمیر میںجو آزادی کی لہر طوفان بن کر اٹھی ۔ ۔ ۔ اُس کا کریڈٹ ایک عرصے تک حزب اسلامی کو دیا جاتا رہا جسے۔ ۔ ۔ ہماری صف اول کی مذہبی تنظیم جماعت اسلامی کا ایک ونگ سمجھا جاتاتھا۔پاکستان basedملیٹنٹس تنظیموں نے جہاد کشمیر کو کتنا فائدہ یا نقصان پہنچایا ۔ ۔۔ یہ ایک الگ المناک موضوع ہے۔مگر اصل میں افغان جہاد سے براہ راست وابستہ یہ جہادی تنظیمیں ہی تھیں جنہیں ہمارے مرد ِ حق جنرل ضیاء الحق اور اُن کے دائیں بازو مرحوم جنرل حمید گل نے خوب خوب پھلنے پھولنے دیا۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہ اُس وقت یعنی افغان جہاد کے عروج کے دور میں ہماری ضرورت بھی تھیں اور مجبوری بھی، کہ جب اشتراکی روس نے کابل پر اسی کی دہائی میں چڑھائی کی تو اس کا ہدف معروف معنوں میں ’’گرم پانیوں‘‘ تک پہنچنا تھا۔یوں اُس وقت افغانستان اور پاکستان کی آزادی اور اُس کا مستقبل ایک دوسرے سے جڑے ہوئے تھے۔کابل ، اسلام آباد کی صورتِ حال گھر آنگن جیسی تھی۔یقینا یہ ایک خوفناک خونریز جنگ تھی جو دو دہائیوں تک جاری رہی اور جس میں اگر دس لاکھ سے اوپر ہلاکتیں ہوئیںتو پچاس لاکھ سے زیادہ افغان اور خود ہمارے سرحدی علاقوں کے قبائلیوں کو ہجرت کرنی پڑی۔ ۔ ۔ افغان جہاد کے مرکزی کردار امریکہ ،سعودی عرب ،القاعدہ ،اور پھر افغانی ،پاکستانی ،پنجابی طالبان اور ان کے بطن سے پھوٹنے والے لشکر ،سپاہ ،حزب اور حرکت ۔ ۔ ۔ ایک وسیع موضوع ہے۔جس پر سینکڑوں کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔کوشش کررہاہوں کہ مشہور ِ زمانہ 9/11محض ساری دنیا کے لئے تو ایک ٹرننگ پوائینٹ تھا ہی ۔ ۔ ۔ مگرالقاعدہ اور اُس کے قائد اسامہ بن لادن اور پھر اُن کے جہادی بچوں نے تو ڈیورنڈ لائن کے اُس طرف ایک ایسی تباہی پھیلائی جس کا ملبہ دو دہائیوں بعد بھی وطن عزیز پر گررہاہے۔ایک اندازے کے مطابق گذشتہ 16برسوں میں پاکستانی معیشت کو براہ رست پہنچنے والا نقصان 80ارب ڈالر کا ہے۔8ہزار کے قریب ہمارے فوجی جوان شہید ہوئے ۔ ۔ ۔ 60ہزار کے قریب شہریوں نے خود کش حملوں اور خوں ریز دھماکوں میں جام ِ شہادت نوش کیا۔ ۔ ۔ اٹھارہ برس ہونے کو آرہے ہیں مگر آج بھی طالبان اپالوجسٹ اور ایک بڑا جہادی حلقہ اس بات پر بضد ہے کہ 9/11کے بعد سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے ایک ٹیلی فون پر جو یوٹرن لیا وہ ایک بھیانک غلطی تھی۔ سابق صدر جنرل پرویز مشرف اور اُن کے موقف کے حامی جب یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا اس کا کوئی دوسرا متبادل تھا ۔ ۔ ۔ اس پر آگ اگلتی زبانیں بہت کچھ کہتی ہیں۔ ۔ ۔ مگر اپنوں اور غیروں کے ہاتھوں 18برس تک وطن عزیز کی اینٹ سے اینٹ بج جانے کے بعد کچھ بھی ۔۔ ۔ ایک بڑاحلقہ ایسا ہے جو ’’القاعدہ‘‘ کے چھتر سایہ سے نکلتی اور اس سے پلنے والی جہادی تنظیموں کے بارے میں عاجزانہ موقف رکھتا ہے۔اوریقینا اس کے ذمہ دار ہمارے ریاستی اداروں اور ایجنسیوں کے وہ مہم جو افسران بھی تھے ۔ ۔ ۔ جنہوں نے اپنے ذاتی ایجنڈے اور مفادات کی خاطر ساری قوم کو اس میں جھونک دیا۔ ۔ ۔ یقینا سابق صدر جنرل پرویز مشرف اور اُن کے بعد آنے والے آرمی سربراہوں کے دور میں ایک پالیسی اور حکمت عملی کے تحت ۔ ۔ ۔ ’’جی ایچ کیو‘‘ اور ’’آب پارہ‘‘ کا قبلہ درست کرنے کے لئے انتہائی نیک نیتی اور کمٹمنٹ کے ساتھ کوششیں کی گئیں ۔ ۔ ۔ جن کے نتائج بھی سامنے آئے مگر ایک اعلامیہ ،نوٹیفکیشن یا زبانی کلامی دعوؤں سے تو خاتمہ نہیں ہوسکتا۔ ۔ ۔ یوں بھی انتہا پسندی ،شدت پسندی جو دائیں کی ہو یا بائیں بازو کی۔ ۔ ۔جنون کی حد تک جڑپکڑ لے تو اُس کے خاتمے کے لئے بھی ایک آگ کے دریا سے گزرنا پڑتا ہے۔ ۔ ۔ میرے ہاتھ میں وزارت داخلہ کی نیشنل کاؤنٹر ٹیررزم اتھارٹی کا ایک نوٹیفکیشن ہے ۔ ۔ ۔ جس میں70ملیٹنٹ تنظیموں کو کالعدم قرار دینے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ ۔ ۔ نوٹیفکیشن کے مطابق اگست 2001سے مارچ 2019تک جن جہادی تنظیموں پر پابندی لگائی گئی ۔ ۔ ۔ اُن میں لشکر جھنگوی ،سپاہ محمد ،جیش محمد، لشکر طیبہ ،سپاہ صحابہ پاکستان ،جمعیت انصار،حزب التحریر ،لشکر جھنگویٔ العالمی ،داعش، جند اللہ ،بہاولپور نیشنل فرنٹ ،جماعت الدعوۃ کے نام نمایاں ہیں ۔ ۔ ۔ نوٹیفکیشن میں دئیے گئے 70ناموں پر ایک سرسری سی نظر ڈالنے سے ہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اگست 2001سے مارچ2019تک جن تنظیموں پر سرکاری طور پر پابندی لگائی ۔ ۔۔ ان کی صورت حال کچھ اس شعر کی مانند رہی کہ : جہاں میں اہل ایماں صورت ِ خورشید جیتے ہیں ادھر ڈوبے،ادھر نکلے ،ادھر نکلے،ادھر ڈوبے اور اس کی سب سے بڑی مثال ’’جیش ِ محمد‘‘ کی ہے ۔ ۔ ۔ جن کے بانی ہمارے مولانا مسعود اظہر ہیں۔ جیش محمد اور اس کے بانی کا ذکر ایک ایسے وقت میں آیا جب کالم آخری دموں پر ہے ۔ ۔ ۔ (جاری ہے)