آج سے سترہ سال قبل امریکہ افغانستان میں پورے جاہ و جلال کے ساتھ وارد ہوا۔تقریباً چالیس نیٹو ممالک کی افواج نے ایک ایسے ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جس کا ان میں سے کسی ملک سے کسی سطح پہ کوئی مقابلہ نہ تھا۔ افغانستان ایک جنگ زدہ،بے حال خانماں برباد ملک تھا جس کا سربراہ خشک روٹی کھاتااور موٹرسائیکل پہ سفر کرتا اورمجاہدین کے گروپوں کی باہمی چپقلش سے تنگ آئے افغانوں کو فوری انصاف فراہم کرتا تھا۔سوویت روس کے ملک سے خجالت آمیز انخلا اور انہدام کے بعد خانہ جنگی سے اکتائے ملک نے امن و امان کے کامل چھ سال دیکھے۔ امارات اسلامی افغانستان پہ الزام تھا کہ اس نے امریکہ کے سب سے بڑے دشمن کو پناہ دے رکھی ہے۔القاعدہ کا صفایا کرنے کی غرض سے مغرب کے جس لشکر جرار نے اس پسماندہ ملک پہ یلغار کی وہ اپنی جگہ اتنا شرمناک ہے کہ انسانیت کا سر شرم سے جھک جائے۔ سترہ سالوں میں کونسا ملک ہے جس نے اس کار خیر میں مقدور بھر حصہ نہیں ڈالا۔ یوں سمجھ لیجیے کہ دنیا کے نقشے پہ انگلی رکھیں تو کوئی ملک ایسا نہ ہوگا جو اس خطے میں امریکی کمان تلے طالبان کو سبق سکھانے افغانستان میں لائو لشکر سمیت موجود نہ ہو ۔ہمارے بہادرکمانڈو نے بھی ہمیں ڈرایا کہ ہمارا تورہ بورہ بن جائے گا۔ یہ وہی تورہ بورہ تھا جس پہ امریکہ نے آپریشن اینڈیورنگ فریڈم کے نام سے ویت نام کے بعد اپنی تاریخ کی طویل ترین جنگ کا آغاز کیا۔اگر یہ جنگ مزید ایک سال جاری رہی تو ویت نام کو پیچھے چھوڑ جائے گی۔ اس جنگ نے جہاں افغانستان کو مزید دہائیوں پیچھے دھکیل دیا، اس کا انفرا اسٹرکچر تباہ ہوا، بچوں اور عورتوں سمیت لاکھوں بے گناہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور اتنے ہی بے گھر ہوئے ، وہیں امریکی عوا م اس لایعنی جنگ سے تنگ آچکے ہیں جو ختم ہونے کا نام نہیں لیتی اور جس کا مقصد ہی واضح نہیں ہے۔افغانستان کی بھٹی میں جھونکے جانے والے امریکی فوجی نوجوانوں کے والدین صدر ٹرمپ سے پوچھتے ہیں کہ آخر کب تک ان کے بچے، جن کی ابھی پوری طرح مسیں بھی نہیں بھیگیں ، اس جنون کا شکار ہوتے رہیں گے؟یہ وہ نوجوان ہیں جنہوں نے نائن الیون کے وقت اسکول جانا شروع ہی کیا تھا۔ وہ بڑے ہوئے ، امریکی فوج میں بھرتی ہوئے اور انہیں افغانستان بھیج دیا گیا۔ آج ان کے والدین نیویارک، واشنگٹن یا امریکی ریاستوں کے کسی جدید ترین شہر میں اپنے بچوں کی لاشیں وصول کرتے ہوئے سوال کرتے ہیں کہ آخر وہ کون سا مقصد ہے جس کی خاطر انہوں نے اپنے بچوں کو اپنی چھاتیوں سے الگ کرکے افغانستان کے جہنم میں جھونک دیا۔جبرئیل کانڈے ایک ایسا ہی نوجوان امریکی فوجی تھا جو اپنے سولہ دوستوں کے ساتھ افغانستان بھیجا گیا۔ جب نائن الیون ہوا تو وہ کنڈرگارٹن میں پڑھتا تھا۔اس سال مئی میںاس کے والدین نے جب اس کی نعش وصول کی تو وہ افغانستان سے آنے والی دو ہزاردو سوچونسٹھویں اور ٹرمپ کے دور صدارت میں سولہویں لاش تھی جو امریکی پرچم میں لپٹی ہوئی آئی تھی۔ اس کا باپ اس دوران سی این این پہ افغانستان کی خبریں سنتا یہی سوچتا رہتا کہ آخر خود کش حملوں،شہری ہلاکتوں اور سیاسی عدم استحکام کے درمیان اس کا خوبرو بیٹا کیا کررہا تھا۔ اس کے وہاں ہونے کی کوئی تک نہیں تھی۔اس کے بیٹے نے افغانستان صرف اس لئے جانا چاہا تھا کہ اسے جنگ میں تھرل محسوس ہوتی تھی۔ اس کا کوئی اعلی مقصد نہیں تھا۔ اس کی موت کے بعد اس کے دوست محض اس کی موت کا بدلہ لینے کے لئے واپس جانا چاہتے تھے جو خود اس کے باپ کی نظر میں کوئی بھلی وجہ نہ تھی لیکن جان داو پہ لگانے کی کوئی نہ کوئی وجہ تو ہونی ہی چاہئے۔یہ نوجوان کوئی نہ کوئی وجہ ڈھونڈ لیتے ہیں۔مادر وطن کا تحفظ اور دہشت گردی کے خلاف اسے محفوظ بنانے کے لئے افغانستان میں دہشت گردوں کے خلاف جنگ۔ ان کے والدین جانتے ہیں یہ عذر لنگ ہے۔امریکہ کے لئے بھی اور اس کے لئے جان دائو پہ لگانے والے ان نوجوانوں کے لئے بھی۔جس صبح جبرئیل کے دلگیر والدین نے اس کی لاش وصول کی، اسی صبح واشنگٹن میں امریکی ، سینیٹ کی ایپروپریشنز اسٹینڈنگ کمیٹی کے برہم ارکان سیکریٹری دفاع جان میٹس سے اس سوال کا جواب مانگ رہے تھے کہ کیا یہ بے مقصد اور طویل جنگ کبھی ختم ہوگی؟ان کے پاس کوئی جواب نہ تھا ۔واشنگٹن ایکزامنر کے مدیر جو خود افغان جنگ میں حصہ لے چکے ہیں واضح طور پہ لکھتے ہیں کہ ٹرمپ کوامریکہ کو بتانا پڑے گا کہ یہ جنگ کہاں جارہی ہے۔مجھے اپنے فوجی کیریئر پہ قطعی ندامت نہیں لیکن ایک فوجی کو پتا ہوتا ہے کہ وہ کس لئے لڑرہا ہے۔حکومت ہمیں بتاتی کیوں نہیں کہ وہ کون سی کامیابیاں اور مقاصد ہیں جو ان سترہ سالوں میں ہم نے حاصل کئے اور جو اس قابل ہیں کہ اسکے لئے ہمارے نوجوان افغانستان جائیں اور لاشوں کی صورت میں واپس آئیں۔ہم نے اب تک افغانستان میں نہ کسی علاقے پہ قبضہ کیا نہ کسی اہم شخص کو گرفتار کیانہ کسی مرکزی شہر پہ بمباری کی۔ہم وہاں کرکیا رہے ہیں۔ہم سے یہ بھی چھپایا جارہا ہے کہ وہاں درحقیقت کتنی امریکی فوج تعینات ہے،اب تک عوام کا کتنا پیسہ ہم خرچ کر چکے ہیں اور اب تک کتنے نوجوان اس جنگ کی بھینٹ چڑھ چکے۔ اگر امریکہ وہاں سے مکمل طور پہ نکل آتا ہے تو افغان حکومت دھڑام سے گر پڑے گی تو کیا ہم وہاں سوسال تک لڑتے ہی رہیں گے؟بالفرض افغانستان پہ طالبان کا کنٹرول ہو بھی جاتا ہے تو کیا یہ امریکہ کا درد سر ہے؟طالبان اب تک ستر فیصد افغانستا ن پہ قابض ہوچکے ہیں جن میں سے اکثر سے میں گزر چکا ہوں۔میرے دوست اب بھی ان ہی پہاڑوں میں بندوق اٹھائے مورچہ بند ہیں جنہیں میں چھوڑ آیا تھا لیکن کیا مجھے کوئی بتائے گا کہ اگر ہلمند میں کوئی طالبان لیڈر مارا جاتا ہے تو ورجینیا میں میرے تحفظ سے اس کا کیا تعلق ہے؟ تلخ سوالات کا ایک انبار ہے جو امریکی والدین کی زبان پہ ہے۔ جو امریکی نوجوان افغانستان سے لاشوں کی صورت واپس آتے ہیں خوش قسمت ہیں کہ پورے پروٹوکول کے ساتھ امریکی پرچم میں لپیٹ کر فوجی قبرستان میں دفنا دیے جاتے ہیں۔ جو زندہ لوٹ آتے ہیں وہ راتوں کو چونک کر اٹھ بیٹھتے ہیں۔انہیں سمجھ ہی نہیں آتی وہ کیوں معصوم لوگوں پہ بم برسا رہے تھے۔ڈرون حملے کررہے تھے اور کس کے لئے کررہے تھے۔ ایک طالبان ہیں جو اس جنگ کے آغاز میں ہمارے بچے تھے۔سترہ سال میں وہ بچے سے جوان اور جوان سے بوڑھے ہوگئے لیکن کوئی سوال نہیں کرتا کہ ہم کس کی جنگ کررہے ہیں ۔انہیں اپنی جنگ کے مقصد کا علم بھی ہے اور وہ اس پہ مطمئن بھی ہیں۔