اگر تارڑ صاحب کو یہ تکلیف ہے کہ ان کے قلم کا کوئی خریدار نہیں تو یہ دکھ ہمیں بھی ہے۔ مگر تارڑ صاحب اور ہمیں ‘ دونوں کو قطعی اندازہ نہیں کہ جو قیمت لگے گی اور اس کے عوض یہ عین ممکن ہے کہ ہم بھی بڑے فارم ہائوس کے مالک بن جائیں جس میں خوش رنگ پرندے ہمہ وقت چہچہاتے ہوں اور رات گئے تک خوش باش دوستوں کی محفلیں جمتی رہیں جس میں قومی سیاست دانوں کی حماقتیں اور ان کے بھول چوک کے لطائف سنائے جائیں اور ان پر قہقہے پڑتے رہیں۔ لیکن قلم کو رہن رکھ کر ضمیر کی آواز کو بالجبر خموش کر کے ایک چیز ہے جس سے محرومی بے چین رکھے گی۔ وہ ہے سچائی۔ شیطان نے گوئٹے کے فائوسٹ سے یہی سودا کیا تھا کہ اپنی روح دے کر جو چاہے لے لو۔ مغرب کو سب کچھ مل گیا لیکن ستاروں کی گزر گاہوں سے سفر کرنے والوں کو روح کا قرار نہ مل سکا۔ یہ روح کا قرار کیا ہے؟ ایک سراب اور دھوکہ ہی تو ہے۔ اس کی طرف توجہ یہ کیوں کریں؟ ہاں وہ اس طرح بھی سوچتے ہیں۔ میں اپنا آپ دے دوں تو سب کچھ مل تو سکتا ہے مگر جو چیز پھر نہیں ملے گی وہ اپنا آپ ہی ہے۔ قلم کی تاثیر اسی سے جڑی ہے اپنا آپ زندگی کی آگ میں جل کر کندن بنتا ہے جیسے سونا اپنا میل کچیل آگ کے حوالے کر کے اپنے کھوٹ سے آزاد ہوتا ہے۔ مگر یہ بھی تو ہے کہ ہم انسان ہیں۔ ہر صبح نہا دھو کر تازہ دم ہوتے ہیں اور شام ہوتے ہوتے پھر گردو غبار میں اٹ جاتے اور اندر تھکن سے کچھ اور گھڑ جاتے ہیں۔ ہم اہل قلم بھی انسان ہیں۔ ہماری روح بھی خواہشوں کے غبار میں لپٹ کر مغموم ہو جاتی ہے۔ ہمیں بھی کشادہ‘ آرام دہ گھر‘ چمکتی دمکتی گاڑیاں‘ انہیں ڈرائیو کرنے والے شوفر، کچن میں رزق‘ رنگ برنگے خوش ذائقہ وافر کھانے اور بہت ماہرکک اور کتابوں سے بھرے کمرے کا ایک دریچہ بھی ایسا ہو جس سے نیلا شفاف آسمان جھانکتا ہو اور یوگن ویلیا کے سرخ و عنابی پھول بھی چپکے چپکے سرگوشی کے لیے کھڑی کی پٹ کے ساتھ موجود ہوں زندگی ایسی خوشگوار کسے نہیں چاہیے۔ کیا سچ بول کر دکھ اور کشٹ اٹھانے کے لیے فقط قلم کار رہ گئے ہیں تو ہمیں خوشی ہوتی ہے جب پتا لگتا ہے کہ کسی کالم نگار اور اینکر کا ایک گھر وادی مری میں بھی ہے اور فرانس کے کسی کاروبار میں ساجھے داری بھی ہے۔ ہمیں ایک دوست کا یہ پرجوش انکشاف اچھا نہ لگا جب اسے ایک معروف اور اسمارٹ اینکر پیرس میں ایک دوشیزہ کے ہمراہ چہلیں کرتے ہوئے ملے ہم نے اسے مزید کچھ اضافہ کرنے سے روک دیا۔ دوست نے ہمدردی سے پوچھا کیا کسی احساس محرومی کا مسئلہ ہے؟ ہم نے کہا ہرگز نہیں اپنی باری کا انتظار ہے۔ تارڑ صاحب دنیا گھوم کر گھاٹ گھاٹ کا پانی پی کر اسی کے پیٹے میں ہیں۔ ہم اسی کی دہائی سے کالم نگاری کرتے کرتے اب ساٹھویں دہائی میں عمر کے قدم رکھ چکے ہیں۔ جب اس پیشے میں آئے تھے تو اسی عہد کے ساتھ کہ جب لکھیں گے سچ لکھیں گے اور سچ کے سوا کچھ نہ لکھیں گے لیکن برسہا برس کے تجربے نے بتایا کہ سچائی بھی سراب ہے۔ حقیقت وہ نہیں ہوتی جو سطح پر نظر آتی ہے ہم جسے سچ سمجھتے ہیں وہ آخر میں جھوٹ ہی نکلتا ہے۔ ہم نے سیاست اور صحافت میں بھی جس کی پارسائی پر یقین کیا جس کے تقدس کی قسم کھائی۔ کھلا بعد میں اور آخری تجزیے میں کہ ایمان صرف فرشتوں کی بے گناہی پر رکھنا چاہیے۔ وہ بھی اس لیے کہ ان میں نہ جرأت گناہ ہے اور نہ لذت گناہ۔ یہ انسان ہی ہے جو گناہ کرنے اور پھر اس سے رجوع کرنے کے لیے خلق کیا گیا ہے۔ تقویٰ اور پارسائی گناہوں سے بچنے کی محض کوشش اور ارادے کا نام ہے باجود اس کے کہ حقیقتاً یہ ممکن ہی نہیں۔ چھوٹے بڑے گناہ کا مرتکب کون نہیں ہوتا اور کس میں یہ ہمت ہے کہ اپنی زندگی کو ہر داغ دھبے سے آزاد‘ پاک اور پوتر بتائے۔ ہم گناہ اور گناہ آلود زندگی کے طرفدار نہیں۔ محض انسان کے عجز اور مجبوری کی نشان دہی مقصود ہے۔ ہم انسان اندر سے کمزور بے بظاعت اور محروم ہیں۔ ہم جو کچھ ہیں اس میں ہمارے ارادے کا دخل کتنا ہے اور ماحول وہ معاشرے کا ہاتھ کس قدر ہے۔ اس پہلو کو کبھی نظر انداز نہ کرنا چاہیے۔ جب تک اس مجبوری یا حقیقت کا احساس نہ ہو دوسروں کو خصوصاً انہیں جن سے ہم شکوہ سنج رہتے ہیں’ رعاتیں کسے دی جا سکتی ہیں۔ یہ پکڑ دھکڑ‘ یہ احتساب اور روک ٹوک محض معاشرتی ڈسپلن اور نظم و ضبط ہی کے لیے تو ہے ڈسپلن نہ ہو تو معاشرہ بکھر جاتا ہے۔ وہ عذر مچتا ہے کہ الامان‘ یہی کچھ ہے جسے ہم ساٹھ ستر برسوں سے بھگتتے آ رہے ہیں۔ لیکن دوسروں کی طرف اک ذرا تھانیداری کے اندرونی احساس کے ساتھ ہم جب انگلی اٹھاتے ہیں تو بقیہ انگلیوں کے اشارے کو بھی نظر انداز نہ کرنا چاہیے کہ ان کا رخ کس طرف ہے؟ ہم لکھنے والے کبھی کبھی ایسا ہی لگتا ہے کہ تھانیداری کے فریضے پر ضرور مامور ہیں۔ اب تو ملک مقدسہ میں بھی چھڑی بردار شرطوں نے بھی پیٹھ میں چھڑی کی نوک چبھو کر مسجد کی طرف دھکیلنے سے توبہ کر لی ہے۔ وہ جو اپنے اونچے محلات میں حرم سرائیں سجانے اور پیٹر وڈالر کو یورپ کے قمار خانوں میں لٹانے میں آزاد تھے۔ اب انہوں نے بھی اپنی عورتوں کو یہ حق عطا کر دیا ہے کہ وہ آزادانہ سڑکوں پہ گاڑی ڈرائیو کر سکتی ہیں اور جب جی گھبرا جائے’ کرنے کو کچھ سوجھ نہ رہا ہو تو سینما گھر جا کر راحت و مسرت کشید کرنے میں ایسا کچھ مضائقہ بھی نہیں۔ وہ مصلحین اخلاق جنہیں شہزادوں کی آوارہ خرامی اور عیش پرستی کی بابت کبھی لب کشائی کی توفیق نہ ہوئی آج کیسی برہمی ظاہر کر رہے ہیں۔ بھلا یہ کیا بات ہوئی؟ موبائل ‘کمپیوٹر اور دوسری ٹیکنالوجی کے ذریعے گھروں کے اندر اور باہر جو کچھ بھی ہو‘ ہم کریں یا دوسرے ۔ جملہ مسلم ملکوں میں سینما گھر بھی ہوں رقاصائیں شہوت بھرا رقص بھی پیش کریں تو ابروئے مبارک پر جنبش بھی نہ ہو لیکن۔چھوڑیے جانے دیجیے۔ جنہیں یہ احساس ہی نہیں کہ وقت نے صدیوں کا فاصلہ طے کر کے سارے انسانی منظر نامے ہی کو بدل دیا۔ خود انسان جو سادہ سی مخلوق تھا اب اندر سے کتنا پیچیدہ‘ کتنا گھمبیر اور کس قدر ٹوٹ پھوٹ گیا۔ دنیا ویسی دنیا نہ رہی۔ عمرانی علوم کی تحقیق اور سائنسی ایجادات نے دنیا ہی کو نہیں خود انسان کو تبدیل ہی نہیں کیا وہ کچھ بتا دیا جس کا تصور کرنا بھی محال ہی تھا۔ اس تیزی اور تیز رفتاری سے بدلتی ہوئی زندگی اور اس میں انسان کا مشین بن جانا‘ اندر اور باہر سے‘ انسان جو اپنی جینیات کا قیدی‘ وراثت اور ماحول کا غلام اور خواہشات کے منہ زور ریلے میں وقت کے سمندر پہ تنکے کی طرح بے بسی سے بہا جاتا ہے۔ کچھ تو ہمدردی کا مستحق ہے ہی کہ اس سے پوچھا جائے کہ اے جملہ مخلوقات سے اپنے علم اور عقل کے سبب اپنی گویائی اورقوت ارادی و اختیار کے باوصف برتری کے دعوے دار انسان ! بتا تو ایسا کیوں ہو گیا؟ کائنات کو مسخر کر کے‘ فطرت کی بے پناہ قوتوں اور قوانین کے باوجود اسے اپنے تابع کر لینے والے چند فٹ کے بظاہر کمزور و بے بظاعت مٹی کے مادھو‘ تو اپنے آپ کو قابو میں کیوں نہ کر سکا؟ یہ مقدمہ بنی آدم کے خلاف کوئی دائر کرنا چاہے تو اپنے ضمیر میں‘ اپنی روح میں خود اپنے آپ ہی کرے اور فرداً فرداً خود ہی مدعی اور خود ہی وکیل بن کر خود کو منصب انصاف پہ بٹھا کر فیصلہ دے تو کیا دے گا اس کے سوا کہ ہاں بھول ہو گئی اور معافی اور رجوع کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ کہنے سننے کو۔ ہمیں اچھے نہیں لگتے وہ لوگ جو دوسروں کے گریبان پہ ہاتھ ڈال تو دیتے ہیں مگر کیا مضائقہ ہے جو اپنی آنکھ کی شہتیر پر بھی نظر رکھیں۔ جو کچھ گردو پیش ہے اپنے وطن میں اور دور پرے اغیار وطن میں۔ کچھ بھی تو اچھا نہیں ہے سب کچھ پا کر سمیٹ کر جمع کرکے‘ انبار لگا کے‘ اگر احساس مردہ نہ ہو گیاہو تو اک پیاس‘ اک تشنگی سی اندر رہ ہی جاتی ہے آدمی کیا ہے؟ خواہشوں اور حسرتوں کا چلتا پھرتا مقبرہ۔ جمع کرنے اور سپنے سمیٹنے کیل یے سونے کا پہاڑ اور ہیرے جواہرات کے دمکتے کان بھی تھوڑے بہت ہی کم ہیں۔ جیسے کسی فور اور فائیو اسٹار ہوٹل کے بوفے ڈنر اور لنچ میں انواع و اقسام کی غذائوں سے پیٹ بھر کے آدمی نکلتا ہے تو خود کو بھوکا ہی پاتا ہے۔ پیٹ اور اس کی احتیاج تو ڈیڑھ دو روٹیوں اور ایک سالن سے بھی پوری ہو جاتی ہے مگر نیت کا کیا کریں جو بھرتی ہی نہیں۔ کام و دہن کو کیسے سمجھائیں کہ لذت وہ ذائقے کی طلب میں ہل من مزید‘ ہل من مزید کی پکار سے بے کل کیے رکھتا ہے۔ وہ خزانے جو جمع ہو چکے غیر ملکی اکائونٹوں میں‘ وہ لامتناہی جائیدادوں کی تفصیل کہ وصیت نامہ لکھنے بیٹھو تو حافظہ ساتھ دینے سے معذرت طلب ہو جائے کہ یاد ہی نہیں کہ کتنا کچھ اپنے نام یا بیوی بچوں کے نام کیا جا چکا ہے۔ مگر پھر بھی ہر شے میں کسی شے کی کمی کا قلق۔ بس جس دن ہم انسان اس قلق اس کمی کی حقیقت کو جان پائیں گے راج پاٹ کو لات مار کر بن باس لینے کی شدید طلب اندر پیدا ہو جائے گی۔!