کبھی کبھی زمستان کے انداز بھی دیکھنے والے ہوتے ہیں۔ کہاں سموگ کا مسئلہ تھا کہ اینٹوں کے بھٹے تک بند کردیئے گئے اور پھر دھند نے آن راج کیا۔ دھند میں بھی ایک طرح کی خوبصورتی اور دلکشی ہے کہ سب کچھ پراسرار سا بن جاتا ہے کہ آپ کے اردگرد سب کچھ ہے اور نہیں کے درمیان ہوتا ہے۔ آپ کے منہ سے نکلنے والی بھاپ منظر کو اور بھی دھندلا دیتی ہے جیسے آئینے پر نمی آ جائے۔ میں تو اس صبح کی بات کرنے جارہا ہوں کہ آپ گھر سے باہر نکلتے ہیں کہ نماز ادا کر آئیں۔ باہر تو سب کچھ دھلا پڑا ہے، پیڑ اور پودے نہال ہوئے کھڑے ہیں۔ پرندوں کی چوں چہکار سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے گھونسلے اور پر بھی گیلے ہوئے ہوں گے۔ ایک شاعر شبنم سے بھی تو تر ہو جاتا ہے۔ خوبصورتی تو ابھی کھل رہی ہے کہ جب گیلے گیلے موسم میں سورج کی کرنیں اترنا شروع ہوتی ہیں اور اوس کی بوندیں رنگوں میں ڈھلتی ہیںاور سبزے پر تمازت کا لمس۔ شاید یہ فطرت کی شاعری ہے۔ وہی فطرت جو شاعر پر کیفیت اتارتی ہے۔ ذرا دیکھیں تو سہی ثمینہ راجہ کیا کہتی ہیں: رات کی طشتری میں رکھی ہیں میری آنکھیں کسی کے خواب کے ساتھ یہ قدرت کی بو قلمونی ہے کہ رنگارنگ مناظر آنکھ کو یکسانیت سے دور رکھتے ہیں۔ یہی تنوع اور تبدیلی ہی زندگی ہے، وگرنہ سب کچھ جامد اور بے رونق ہو جاتا۔ ٹھہرائو تو موت کی طرح ہوتا ہے۔ جیسے کہ ٹھہرا ہوا کائی زدہ پانی۔ تحرک ہی اصل میں حیات ہے۔ وہی کہ ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں، کوئی نئی بات تازہ کونپل کی طرح کھلتی ہوئی، کوئی نیا خواب، کوئی نئی تعبیر اور کوئی اچھوتی تصویر یا پھر تحریر۔ چشمہ، جھرنا یا بارش اور یا پھر ندیا کے سینے سے ابھرتا ہوا میوزک، جو دراصل اس کے اندر پڑے کنکروں کے باعث ہوتا ہے۔ ویسے تو خاموشی کی بھی ایک آواز ہے۔ کبھی کبھی شاعری بھی تو من و سلوا کی طرح درختوں پر آتی ہے۔ شجرپر بوریا پھر پھول اور پھل۔ خاموشی کو زباں ملتی ہے تو وہ رنگ اور خوشبو کی طرح ہوتی ہے: جب پھول چپ ہوئے تو ثمر بولنے لگے پھر اس کے بعد سارے شجر بولنے لگے میرا بڑا مسئلہ یہی ہے کہ جہاں بھی فطرت کا حسن نظر آتا ہے۔ میرے پائوں پکڑ لیتا ہے، آنکھیں روشن کردیتا ہے، دل کو چھونے لگتا ہے اور میں بے کل ہو جاتا ہے۔ مجھے یہ سب کچھ عبادت لگنے لگتا ہے۔ اس میں صناعی، ہنر اور فنکاری ہی تو جھلکتی ہے اور یہ عطا کے بغیر نہیں۔ چلیے شہناز پروین سحر کے دو شعر دیکھیے: ایک بلور سی مورت تھی سرائے میں سحر چھن سے ٹوٹی ہے مگر ایک چھناکے میں سحر یونہی معمول کی اک بات پہ دل ٹوٹ گیا گھر تو ٹوٹا تھا کسی اور دھماکے میں سحر اس میں سحر نے سحر آفرینی پیدا کی ہے۔ کم ہی ہوتا ہے کہ شاعر اپنا تخلص ردیف کے طور پر استعمال کرے۔ یہ تجرباتی طور پر بھی کیا گیا ہے او رفنکارانہ انداز بھی ہے۔ کبھی کبھی ایسا موقع پیدا ہو جاتا ہے کہ آپ پورا نام بھی ردیف کے طور پر استعمال کرسکتے ہیں۔ مجھے یاد ہے دو غزلیں میں نے بھی ایسی کہی تھیں جن میں سے ایک کے مصرع سے ڈاکٹر صغیر صفی نے انتخاب کا نام نکالا تھا ’’دل کے تار ہلا دیتا ہے۔‘‘: دل کے تار ہلا دیتا ہے کون ہے یہ سعداللہ شاہ اندر آگ لگا دیتا ہے کون ہے یہ سعداللہ شاہ ردیف کچھ زیادہ ہی لمبی ہو گئی ہے مگر یہ سب کچھ اپنے بس میں تھوڑی ہوتا ہے۔ شاعر کو بڑی ریاضت سے گزرنا پڑتا ہے، تب کہیں جا کر اسلوب کی صورت گری ہوتی ہے۔ پہلے تو آپ شاعری کرتے ہیں، اس کے ناز اٹھاتے ہیں، محنت کرتے ہیں، اسے اپنے ساتھ جگاتے ہیں، اس کے ملبوس میں ستارے ٹانکتے ہیں۔ پھر یوں ہوتا ہے کہ شاعری آپ کو لیے پھرتی ہے وہی کہ ایک چکر ہے مرے پائوں میں زنجیر نہیں‘‘ وہ خاموشی تھی پیڑوں کی، وہ تنہائی تھی سڑکوں کی ردائے شب سے اکثر میں ستارے چنتا رہتا تھا جنوں کی تیز بارش میں اسے پانے کی خواہش میں میں دل کی سطح پر اکثر کھلی آنکھوں کو رکھتا تھا حضورمن! میں کوئی طے شدہ منصوبے کے تحت لکھنے نہیں بیٹھا۔ بس یونہی لکھنا شروع کردیا۔ یہ تخلیق بھی عجیب چیز ہے۔ کبھی کبھی تو یہ ٹپ آف دی آئس برگ کی طرح ہوتی ہے۔ کبھی اچانک یہ سمندر میں نمودار ہونیوالے خوشنما جزیرے کی طرح ہوتی ہے جسے ابھی کسی نے چھوأ نہیں ہوتا۔ یہی خوابناک جزیرے زمین کو آسمان کے ساتھ جوڑتے ہیں۔ غور کریں تو آسمان نے تو ہر اطراف سے زمین کو حصار میں لے رکھا ہے۔ یہی تو انسان پر حد کھینچتا ہے اور انسان خود کو ان حدود سے باہر مگر بے سود، اس کی خواہش کے پر ہوا خود کاٹتی ہے۔ یہ اپنی حد سے نکل کر حدود ڈھونڈتی ہے کہ خاک بار دگر بھی قیود ڈھونڈتی ہے ابھی ستارہ سا چمکا تھا میری پلکوں پر کوئی تو شے ہے جو بود و نبود ڈھونڈتی ہے میرے معزز قارئین! مجھے امید ہے آپ خوش ہوئے ہوں گے کہ میں نے اس کالم کو سیاست سے آلودہ نہیں کیا۔ مجھے معلوم ہے کہ سیاست صاف ستھری بھی ہوتی ہے۔ ہاں تب اس پر لکھنے کا مزہ آئے گا جب قانون اور عدل کی بالادستی ہوگی۔ چیئرمین نیب جسٹس(ر)جاوید اقبال نے کہا تو درست ہے کہ اگر اپوزیشن لیڈر نیب کے سامنے پیش ہو سکتا ہے تو وزیراعظم عمران خان کیوں نہیں۔ اے کاش وہ آئیڈیل دور آ جائے کہ شیر اور بکری ایک گھاٹ پانی پئیں۔ فی الحال تو آس اور امید پر دنیا قائم ہے۔ چلیے اپنے دوست جمشید مسرور کے ایک شعر سے بات ختم کرتے ہیں کہ یہ شعر انہوں نے ناروے کے سمندری ساحل پر ایک خوابی سے منظر میں سنایا تھا: ایک تتلی ابھی اڑان میں ہے ایک شاعر ابھی جہان میں ہے