یہ پچاس کی دہائی کے آخری دو تین سالوں کی بات ہے، میں پانچ سال کا اور میرا بھائی تین سال کا تھا، صبح ناشتہ کے بعد ہماری ماں ہم دونوں بھائیوں کو نہلانا دھلانا شروع کر دیتی تھیں، سردیوں کی دوپہروں میں وہ ہمیں گھر کی چھت پر لے جاتیں، چارپائی پر بٹھا کر روزانہ نیا لباس پہناتیں اور ہمارے بال سنوارتیں، مجھے کہتیں، تمہارے بال لمبے ہیں اس لئے ان پر چڑیا بنا رہی ہوں، اسی دوران بارہ، تیرہ سال کا ایک گورا چٹا پٹھان لڑکا ہمارے گھر میں داخل ہوتا اور ہم دونوں بھائیوں کو چھت سے اتار کر گلی میں لے آتا جہاں اس کی بائیسکل کھڑی ہوتی ، وہ ہمیں سائیکل پر بٹھاتا اور لکشمی چوک میں واقع ہمارے والد کے پروڈکشن آفس لے جاتا جہاں ہم والد اور ان کے دوستوں کے ساتھ لنچ کرتے، یہ روزانہ کا معمول تھا، ہم ان دنوں چوک مزنگ بازار کے سامنے سعدی پارک کی رشید اسٹریٹ سے ملحقہ نظام دین اسٹریٹ میں رہا کرتے تھے۔ ٭٭٭٭٭ اس کانام تھا جلال، تعلق علاقہ غیر سے، باپ نے جس کا نام سمندر خان تھا دوسری شادی کرلی تو سوتیلی ماں نے تنگ کرنا شروع کر دیا، اس کا ایک بڑا بھائی بھی تھا، وزیر، جب سوتیلی کے مظالم حد سے بڑھ گئے تو دونوں بھائیوں نے گھر سے بھاگ جانے کا پروگرام بنا لیا، اس وقت دونوں کی عمریں دس سال سے بھی کم تھیں، وہ دونوں خالی جیب گھر سے فرار ہوئے ، اس زمانے میں علاقہ غیر میں کسی بھی سواری کا کوئی تصور تک نہیں ہوتا تھا، دونوں بھائی نہ جانے کتنے دن بھوکے پیاسے نامعلوم منزل کی جانب پیدل چلتے رہے، بالآخر قدرت انہیں لاہور لے آئی، دونوں کمسن بھائیوں کو لکشمی چوک کی گیتا بھون بلڈنگ کے ایک ہوٹل میں مزدوری مل گئی، یہ صوفی کے ہوٹل کے نام سے ایک معروف ریستوران تھا، دیال سنگھ کالج کے بالکل سامنے، اس ریسٹورنٹ میں ادب، صحافت اور فلم لائن سے وابستہ لوگ بھی بیٹھا کرتے تھے، چائے کے ساتھ اچھا کھانا بھی مل جاتا تھا، لکشمی چوک اور رائل پارک کے کئی فلمی دفاتر میں بھی صوفی کے ہوٹل سے چائے اور کھانا منگوایا جاتا تھا،مجھے ایک بار نثار عثمانی مرحوم نے بتایا تھا کہ زمانہ طالبعلمی میں وہ صوفی کے ہوٹل سے ہی کھانا کھایا کرتے تھے، گیتا بھون بلڈنگ میں بھی کئی فلمی دفاتر تھے، عیسیٰ غزنوی اسی بلڈنگ سے ایک فلمی جریدہ بھی نکالتے تھے، سردیوں کے موسم میں اتوار کے اتوار دوپہر کو اس عمارت کی چھت پر کئی فلمی ستارے اکٹھے ہو جاتے جن میں لیلیٰ اور صبیحہ سمیت کئی خواتین ہوتیں، نعیم ہاشمی صاحب کو فرصت ہوتی تو وہ بھی وہاں چلے جاتے، ایک اتوار کی دوپہر ہاشمی صاحب اس چھت پر دوستوں کے ساتھ براجمان تھے، انہوں نے صوفی کے ہوٹل سے چائے منگوائی، چائے لے کر آیا بارہ سالہ ملازم جلال، جو ہمارے آج کے کالم کا مرکزی کردار ہے، وہ چائے چینک سے نکال کر کپوں میں ڈال کر ،، سرو ،، کر رہا تھا، جب وہ چائے کا کپ ہاشمی صاحب کو دینے لگا تو چائے کپ سے اچھل کر ہاشمی صاحب کے کپڑوں پر گر گئی، وہ تھوڑی دیر بعد سیف الدین سیف صاحب کی فلم ،، دروازہ،، کی شوٹنگ پر جانے والے تھے اور انہوں نے سین کی ،، کانٹی نیوٹی،، والا لباس پہن رکھا تھا ، انہیں لباس کے خراب ہوجانے پر غصہ آ گیا اور انہوں نے اس بارہ سالہ قبائلی بچے جلال کو بری طرح جھڑک دیا، یہی بچہ روزانہ رات ایک یا دو بجے انہیں ہوٹل سے کھانا بھی لا کر دیا کرتا تھا، کپڑوں پر چائے گر جانے کے واقعہ والے دن ہی جب رات دیر گئے ہاشمی صاحب شوٹنگ پیک اپ کرکے واپس آفس لوٹے تو بند دفتر کے باہر وہی بچہ اس انتظار میں سیڑھیوں پر سویا ہوا تھا کہ جب وہ لوٹیں گے تو ہوٹل سے کھانا گرم کرکے انہیں دینا ہے، ہاشمی صاحب کو اس وقت اس بچے پر بہت پیار آیا، اگلے ہی روز انہوں نے ہوٹل کے مالک صوفی صاحب کو بلوا کر انہیں کہا کہ ،، یہ بچہ مجھے دے دو،، صوفی صاحب مان گئے اور جلال ہمیشہ کے لئے ،، ہمارا،، ہو گیا، اسی طرح جلال کے بڑے بھائی وزیر کو صوفی صاحب سے پٹیالہ گراؤنڈ میں رہائش پذیر ایک ڈاکٹر صاحب اپنے گھر لے گئے، وزیر بھی جلال کی طرح اس ڈاکٹر کے گھر میں ہی جوان ہوا، انہوں نے ہی اس کی شادی کرائی، اس کو رہائش کے لئے گھر دیا، وزیر کو سائیکل چلاتے ہوئے ایک کار سوار نے ٹکر مار دی تھی وہ موقع پر ہی جاں بحق ہوگیا، اس کے بچے اب بھی ڈاکٹر صاحب کے دیے ہوئے گھر میں رہ رہے ہیں اور آزادی سے کام کاج کر رہے ہیں۔ ٭٭٭٭٭ جلال ہاشمی صاحب کے پروڈکشن آفس کو جوائن کر چکا تھا، اس کی بڑی ذمہ داری بچوں کو گھر سے آفس لانا اور ان کے لئے لکشمی چوک کی مشتاق پان شاپ سے پان ،اسگریٹ لانے کے سوا کچھ نہ تھا، فلم ،، چشم بددور،، کے نا مکمل رہ جانے کے باعث ہمارا یہ آفس بند ہو گیا اور فرنیچر اور سائن بورڈ سمیت سارا سامان گھر پہنچ گیا، جلال بھی اب ہمارے گھر میں ہی آ گیا تھا، اس وقت تک ہم سعدی پارک مزنگ سے پیر غازی روڈ اچھرہ بھی منتقل ہو چکے تھے، جلال کو گھر کے ایک فرد کی حیثیت حاصل تھی، وہ نیا نیا جوان ہوا تو اس نے سوٹ پہننا اور ٹائی لگانا بھی شروع کر دیا تھا۔ پوری ایمانداری سے بتا رہا ہوں کہ میں نے اپنی پوری زندگی میں جلال سے اچھا، نیک پاک، مخلص اور ایماندار کوئی اور شخص نہیں دیکھا، وہ عمر بھر ہر دنیاوی عیب سے پاک رہا، وہ ہم سے بھی زیادہ ہمارے والد کا عاشق تھا، پھر ہاشمی صاحب نے اسے گیتا بھون بلڈنگ میں ہی چائے کا ایک کھوکھا لے دیا، اس کا ٹی اسٹال بہت جلد لکشمی چوک کا مقبول ترین چائے خانہ بن گیا، ایور ریڈی پکچرز جیسے بڑے ادارے اس کے مستقل گاہک بن گئے، وہ روزانہ دو من دودھ خریدنے لگا، اب اس کی شادی بھی کر دی گئی، اس کو اجازت دیدی گئی کہ وہ علیحدہ مکان لے کر اپنی فیملی کے ساتھ رہ سکتا ہے، اس نے نیم دلی سے یہ بات مان تو لی لیکن وہ ٹی اسٹال بند کرکے پہلے ہم لوگوں سے ملنے آتا اور پھر اپنے گھر جاتا، اللہ نے اسے پہلے دو بیٹیوں سے اور پھر ایک بیٹے سے نوازا، بچوں کو مہنگے اسکولوں میں داخل کرایا وہ اپنے تینوں بچوں کے کپڑے ایکسپریس ڈرائی کلینرز سے ہی دھلوایا کرتا تھا، اس کی خوش و خرم زندگی اس وقت اتھل پتھل ہوئی جب اس کی بڑی بیٹی نے میٹرک کے بعد فرسٹ ائیر میں داخلہ لیا، ڈاکٹروں نے یہ اسے یہ روح فرسا اطلاع دی اس کی بیٹی کے دماغ میں کینسر ہے، اس وقت شوکت خانم اسپتال قائم نہیں ہوا تھا، ڈاکٹر خالدہ عثمانی کو کینسر کی سب سے بڑی اسپیشلسٹ تصور کیا جاتا تھا، میں اس کی میڈیکل رپورٹس لئے ہر اسپتال گیا، ہر متعلقہ ڈاکٹر سے ملا، سب نے مایوسی کا اظہار کیا، اسی دوران میری اس وقت امریکہ میں مقیم اپنے بھائی ڈاکٹر اختر نعیم سے بات ہوئی تو انہوں نے مجھے جنرل اسپتال میں سینئر ڈاکٹر جاوید صاحب سے ملنے کا مشورہ دیا، سازشیوں نے خواجہ ریاض محمود کی وساطت سے جلال کو پینتیس ہزار روپوں کے عوض کھوکھا خالی کرنے پر آمادہ کر لیا، جلال نے مجھے اس ساری صورتحال سے اس وقت آگاہ کیا جب وہ اپنا ٹی اسٹال ان لوگوں کے حوالے کر آیا تھا، پینتیس ہزار روپوں کا وہ کیا کرتا؟ یہ پیسے دو چار ماہ میں گھر میں ہی خرچ ہو گئے، جلال کو کئی بیماریوں نے جکڑ لیا، وہ اچانک نحیف نظر آنے لگا، اس نے جنرل اسپتال کے سامنے سڑک کنارے چائے فروخت کرنا شروع کی، وہ روزانہ گیس سلنڈر اور دوسرا سامان اٹھائے ایک میل پیدل چل کر بس اسٹاپ پر پہنچتا اور پھر جنرل اسپتال کے سامنے اپنا عارضی سٹال سجا لیتا، اس کے گھر کا نظام درہم برہم ہو چکا تھا، اسے دل کا عارضہ بھی لاحق ہو چکا تھا لیکن اس نے اپنی بیماری اور جسمانی حالت سے بیوی بچوں کو بھی آگاہ نہ کیا، مجھے ایک دن اطلاع ملی کہ وہ کئی دن سے اسپتال میں داخل ہے، میں اسے ملنے گیا تو وہ بہت،، خوش ،، دکھائی دینے کی ،، اداکاری،، کر رہا تھا، وہ خوشحال جلال بننے کی کوشش کر رہا تھا، اس ملاقات کے تین دن بعد اس کا انتقال ہو گیا۔