( پچھلے ہفتے اخبارات میں دو دلچسپ خبریں نظر سے گزریں جو جانوروں کے بارے میں تھیں۔ آج کا کالم میں نے انہی خبروں کو بنیاد بنا کر لکھا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں: ) چشتیاں کے قریب ایک گائوں میں بشیر احمد نامی ایک شخص رہتا ہے جس نے ایک بھینس پال رکھی تھی۔ یہ بھینس روزانہ چھ کلو دودھ دیتی تھی جس سے بشیر احمد کے گھر کی دال روٹی چلتی تھی۔ پھر یوں ہُوا کہ اس بھینس نے چھ کلو کی بجائے ڈیڑھ کلو دُودھ دینا شروع کر دیا۔ بشیر احمد سمجھا کہ مسلسل خشک سردی پڑنے اور بارش نہ ہونے کی وجہ سے بھینس کا موڈ آف ہوگیا ہے اور اس نے دُودھ کی سپلائی کم کر دی ہے چنانچہ اس نے بھینس کا موڈ درست کرنے کے لئے ایک نئی بِین خریدی اور بھینس کے آگے بجانا شروع کر دی۔ وہ کئی دِن تک بھینس کے آگے بِین بجاتا رہا لیکن دودھ کی مقدار ڈیڑھ کِلو سے نہ بڑھ سکی حالانکہ بھینس بظاہر تندرست تھی اور اس کی خوراک میں بھی کوئی کمی واقع نہ ہوئی تھی۔ بشیر احمد نے پریشان ہو کر ایک " ماہر بھینسیات " سے مشورہ کِیا جس نے کہا کہ اپنی بھینس کا تمام دودھ روزانہ میرے پاس لے آیا کرو تاکہ میں لیبارٹری میں دودھ کو مختلف طریقوں سے ٹیسٹ کر کے پتہ چلا سکوں کہ وہ کون سے جراثیم یا وائرس ہیں جو دُودھ میں شدید کمی کا باعث بن رہے ہیں۔ ماہر بھینسیات سے مشورے کا نتیجہ یہ نِکلا کہ بشیر احمد کو ڈیڑھ کِلو دُودھ سے بھی ہاتھ دھونے پڑ گئے۔ تنگ آکر اُس نے پنے گائوں کے ایک سیانے چوہدری ولی داد کو ساری رُوداد سُنائی۔ چوہدری ولی داد نے ساری بات غور سے سُننے کے بعد کہا کہ بھینس کے تھنوں میں ڈیڑھ کلو دودھ کا بچ رہنا اس بات کی دلیل ہے کہ اس واردات میں بنی نوعِ انسان کا کوئی فرد ملوّث نہیں ہے۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ یہ حرکت کِسی سانپ کی ہو کیونکہ بعض بھینسیں اِنسان سے مایوس ہو کر سانپوں سے یارانہ گانٹھ لیتی ہیں اور بڑی فراخدلی سے انہیں دُودھ بخش دیتی ہیں۔چوہدری ولی داد کی یہ بات بشیر احمد کے دِل میں اُتر گئی چنانچہ اگلے روز وہ اور اس کے بیٹے ڈنڈوں سے مسلح ہو کر بھینس کے چاروں طرف بیٹھ گئے۔ ساری رات گزر گئی لیکن سانپ کو نہ آنا تھانہ آیا۔ بشیر احمد کو یقین ہوگیا کہ اس واردات میں کوئی سانپ ملوّث نہیں۔ اگلے روز اس نے حیوانات کے ایک ڈاکٹر سے مشورہ کیا۔ ڈاکٹر نے کہا کہ بھینس کِسی وجہ سے بد دِل ہو گئی ہے ۔ لہٰذا بھینس کی ای۔سی۔جی کروائی جائے۔ نیز اس کے تھنوں کا ایکس رے کروایا جائے۔ بشیر احمد یہ سب سُن کر خود بد دِل ہو گیا اور وہاں سے چلا آیا۔ اگلے روز کسی کے کہنے پر وہ ایک عامل کے پاس جا پہنچا ۔ عامل نے اس سے پانچ کلو گُڑ، ایک کلو ٹماٹر، دس کلو آٹا اور تین تولے ہیروئن طلب کی تاکہ وہ ان چیزوں کی مدد سے ایک مئوثر تعویذ تیار کرسکے ۔ گُڑ اور آٹا تو بشیر احمد کے گھر سے نکل آیا۔ ہیروئن ایک کانسٹیبل سے مِل گئی۔ ٹماٹر کے لئے البتہ اُسے سخت دوڑ دُھوپ کرنی پڑی۔آخر سبزی منڈی کے ایک نیک دل تاجر نے ٹماٹر کا مسئلہ بھی حل کردیا۔ نسخے کے اجزاء دستیاب ہونے پر ایک نہایت پُر تاثیر تعویذ تیار کیا گیا جِسے جان کی طرح ہتھیلی پر رکھ کر عامل صاحب بشیر احمد کے گھر میں داخل ہوگئے اور بھینس کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر جنتر منتر پڑھنے لگے۔ اچانک کمرے میں زبردست قہقہے گونجنے لگے۔ بشیر احمد کا چہرہ زرد پڑ گیااور عامل کی ٹانگیں اور بازو کانپنے لگے۔قہقہوں کا شور تھما توالہٰ دین کے جن سے ملتی جُلتی آواز آئی: " اے راہِ فنا کے مسافرو ! سُن لو ، سمجھ لو اور ذہن نشین کر لو کہ ہم جنّات کے قبیلے سے ہیں۔ ہمیں حکیم اطلیمو بو شو نے بتایا تھا کہ غذائیت کے اعتبار سے بھینس کا دُودھ اور مکھّن بہترین چیزیں ہیں۔ لہٰذا ہم روزانہ تمہاری بھینس کا ساڑھے چار کلو دودھ پی جاتے ہیں اور باقی تمہارے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔ اگر تم نے پولیس کو اطلاع کرنے کی غلطی کی تو نہ صِرف باقی ماندہ دودھ بلکہ اپنی بھینس سے بھی محروم ہوجائو گے ہاہاہاہاہاہا۔" یہ سُن کر عامل بھاگ گیا اور بشیر احمد آئندہ کے لائحہ عمل پر غور کرنے لگا۔ اگلی صبح وہ گائوں کا مکان چھوڑ کر اپنے اہلِ خانہ اور بھینس کے ہمراہ شہر چلا آیا ۔ ۔ جِنّ حضرات غالباً ٹرانسپورٹ کی دِقّت کے سبب شہر نہ آسکے یا شاید گائوں ہی میں انہیں کوئی اور بھینس مل گئی۔ بہر حال اب بشیر احمد خوش ہے کہ اس کی بھینس پھر چھ کلو دودھ دینے لگ گئی ہے اور وہ بارہ کلو دُودھ فروخت کرنے لگا ہے۔ ٭٭٭٭٭ صاحب ! قُربِ قیامت کے آثار ظاہر ہو رہے ہیں۔ معصوم اور بھولے بھالے جانوروں نے اِنسانی صِفات اپنانا شروع کر دی ہیں۔ چند ایک جانوروں میں تو انسانی صِفات بہت پہلے سے موجود تھیں۔ جو اگر ان کی فِطرت کا حصّہ نہیں تو انہوں نے یقینا اِنسان سے مُستعار لی ہوں گی۔مثال کے طور پر سانپ اور بِچھّو عادات کے اعتبار سے حیران کُن حد تک اِنسان سے مماثلت رکھتے ہیں۔ اِسی طرح لومڑی نے بھی بقدرِ ظرف انسان سے اکتسابِ فیض کِیا ہے۔ کوئٹہ سے موصول ہونے والی خبر سے پتہ چلا ہے کہ کِس طرح وہاں ایک بکری نے اپنے مالک کا دھڑن تختہ کردیا۔ ہُوا یُوں کہ کوئٹے کے ایک شہری کے پاس ایک بکری تھی۔ مالک اور بکری کے تعلقات مثالی تھے۔ اُن میں کبھی اختلاف رائے نہیں ہُوا تھا۔ دِن ہنسی خوشی گزر رہے تھے۔ بکری کو ضرورت کے مطابق گھاس مل جاتی اور اِس کے عوض وہ مالک کو بالٹیوں دودھ دیتی لیکن چند ہفتے پیشتر بکری کو احساس ہوا کہ اس کا مالک اُسے ایکسپلائٹ کر رہا ہے۔ اس خیال کا آنا تھا کہ بکری کے دل و دماغ انتقام کی آگ میں سلگنے لگے۔ وہ راتوں کو جاگ جاگ کر منصُوبہ بندی کرنے لگی۔ آخر ایک ترکیب اس کے زرخیز ذہن میں آگئی۔اس کے گھر کے پاس ہی ایک کنواں تھا۔ ایک روز مالک اسے " ٹہلوانے " کے لئے لے جا رہا تھا ۔ دفعتاً بکری نے رسّی چھڑائی اور کنوئیں میں چھلانگ لگادی۔ اُسے علم تھا کہ مالک اُسے نکالنے کے لئے کنویں میں چھلانگ لگائے گا اور پھر وہ مالک کے کندھوں پر کھڑی ہو کر باہر نکل آئے گی جب کہ مالک کنوئیں میں ہی ڈوب مرے گا۔ چنانچہ یہی ہُوا۔ بکری کے مالک نے بکری کے پیچھے کنوئیں میں چھلانگ لگا دی۔کنوئیں میں زہریلی گیس تھی۔ بکری خود تو گردن اُوپر کر کے گیس کے اثر سے بچی رہی لیکن مالک کو اُس نے سنبھلنے کا موقع نہ دیا۔ جب اُسے اطمینان ہوگیا کہ مالک آخری سانس لے کر فارغ ہو چکا ہے، اس نے مالک کے تنِ مُردہ پر قدم جمائے اور ہائی جمپ کا مظاہرہ کرتے ہوئے باہِر نکل آئی۔ اِتنے میں پولیس کو بھی خبر ہو چکی تھی۔ چنانچہ عین اُس وقت جب بکری علاقہ غیر کی طرف مفرور ہو رہی تھی،پولیس کے فرض شناس عملے نے چھاپہ مار کر اُسے گرفتار کر لیااور اس کے پائوں میں ہتھکڑی ڈال دی۔ پولیس بکری کو حفاظتی حراست میں لے کر تھانے پہنچی اور تھانیدار نے اُسے حوالات میں بند کرنے کی بجائے اپنے کوارٹر میں بھیج دیا۔ پتہ چلا ہے کہ ہے کہ بکری کے خلاف دفعہ 302 (ت پ) کے تحت مقدمہ درج کر کے تفتیش شروع کر دی گئی ہے۔ کل اُسے علاقہ مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کر کے پانچ روز کا جسمانی ریمانڈ لیا جائے گا۔ کوئٹہ کے شہریوں نے حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ اِس قاتل بکری پر فوجی عدالت میں مقدّمہ چلایا جائے تاکہ آئندہ کِسی بکری کو اس قِسم کی جسارت کا حوصلہ نہ ہو۔