کراچی(سٹاف رپورٹر)جسٹس ہیلپ لائن کے تحت کراچی کے مقامی ہوٹل میں چوتھی نیشنل جوڈیشل کانفرنس کاانعقاد کیاگیا،جس میں مقررین کاکہنا تھا کہ ججزکی کمی اہم مسئلہ ہے ،ہم ججزپربوجھ بڑھارہے ہیں،ایک جج کے پاس روزانہ 50سے 60کیسز ہوتے ہیں،جنہیں سنناممکن نہیں ہوتا۔کانفرنس میں حاضرسروس ،ریٹائرڈجج صاحبان،جوڈیشل افسران،سینئرونوجوان وکلا نے شرکت کی۔ کانفرنس کے مہمان خصوصی سندھ ہائی کورٹ کے سینئرجج جسٹس عرفان سعادت خان تھے ،جبکہ صدارت اٹارنی جنرل پاکستان انورمنصورخان نے کی۔جسٹس عرفان سعادت خان نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ جوڈیشل کانفرنس کاانعقاد خوش آئند ہے ،کانفرنس سے قانون میں ضروری ترامیم کی اہمیت مزید اجاگرہوگی۔انہوں نے کہاکہ پہلے ججزکے لیے چند قوانین میں مہارت کافی سمجھی جاتی تھی،لیکن اب ایسانہیں ہے ۔ان کاکہناتھاکہ کہ ملک میں 300سے زائد قوانین موجود ہیں،ان کاعلم بہت ضروری ہے ،سندھ ہائی کورٹ میں سول کرمنل کیسزجلدی سے نمٹائے جا رہے ہیں۔جسٹس عرفان سعادت نے کہاکہ2017ء میں زیرالتواء کیسزکی تعداد 83ہزار884تھی، اب یہ تعداد کم ہوکر80ہزار335ہوگئی ہے ،اس سال لاڑکانہ اورکراچی میں زیرالتوا کیسزبڑھے ،جبکہ حیدرآباداورسکھرمیں اس سال زیرالتوا کیسزمیں کافی کمی آئی ہے ۔اٹارنی جنرل پاکستان انورمنصورخان نے کہا کہ ایسی کانفرنسوں سے قانون کی آگاہی پھیلانے میں بہت مدد ملتی ہے ،بینچ اوربارکے درمیان تعلق کو مزید مضبوط بنانے کی ضرورت ہے ،روزانہ ایک جج کے پاس 50سے 60کیسز ہوتے ہیں،جج کے لیے ان کو دیکھنا ممکن نہیں ہوتا،مسئلہ ججزکی کمی کاہے ،ہم ججزپربوجھ بڑھارہے ہیں۔انہوں نے کہاکہ پروسیجرل لازکو بدلنے کے لیے وکلا پرجرمانے ہوتے ہیں۔وفاقی سیکرٹری لا اینڈ جسٹس کمیشن سپریم کورٹ ڈاکٹررحیم اعوان نے اپنے خصوصی خطاب میں کہا کہ سپریم کورٹ اورماتحت عدلیہ کے لیے ٹیکنالوجی متعارف کرانے جارہے ہیں۔ٹیکنالوجی ساؤشن قانونی اداروں میں مسائل حل کرنے کے لیے بھی بہت اہم ہے ۔