ادب سے دلچسپی رکھنے والا کون ایسا ہو گا جس نے ’’کلیلہ و دمنہ‘‘ کا نام نہ سنا ہو گا۔ اس میں ایسی کہانیاں ہیں جو آج بھی انسانوں کو عقل و تدبر کی تعلیم دیتی ہیں۔عام زندگی کے معاملات کے بارے ہی میں نہیں‘ حکومت و سیاست کے بھی ہزار پہلو ہیں جو ان کہانیوں سے نکلتے ہیں۔ اگر ہمارے حکمراں ادبی ذوق رکھتے اور ان کہانیوں کو پڑھ لیتے تو شاید اپنے جلد زوال و انحطاط سے خود کو محفوظ رکھ سکتے تھے۔ ’’کلیلہ و دمنہ‘‘ کی ایک کہانی میں اس کی نہایت عمدہ تصویر ایک راجہ کے حوالے سے ملتی ہے۔ یہ راجہ دابشلیم ہے جسے ایک فقیر نے اس کی خوش خلقی اور رعایا پروری سے متاثر ہو کر ایک خزانے کا سراغ بتایا اور راجہ کے ملازموں نے زمین کھود کر وہ وہ خزانہ برآمد کیا تو اس میں خزانے کے ساتھ ایک جڑائو صندوقچہ بھی نکلا جس پہ فولادی تالا لگا ہوا تھا۔ جب یہ تالا توڑا گیا تو اندر سے ایک ڈبیہ نکلی‘ ڈبیہ میں ایک ریشمی رومال تھا جس پہ ایک تحریر درج تھی۔ بڑی مشکل سے یہ تحریر پڑھنے والا دستیاب ہوا تو اس نے پڑھ کر جو کچھ سنایا وہ یہ تھا! ’’میں ہوشنگ بادشاہ ہوں‘ اس خزاے کو امانت رکھتا ہوں‘ ایک بڑے بادشاہ کے لئے جس کا نام دابشلیم ہے اور ایک وصیت نامہ زرو جواہر کے درمیان رکھا ہوا ہے کہ جب وہ خزانہ اٹھائے تو اس وصیت نامے کو دیکھے اور سوچے کہ زرو جواہر پر فخر کرنا دانائوں کا کام نہیں ہے کیوں کہ یہ آنی جانی چیز ہے۔ ہر روز ایک کے ہاتھ لگتی ہے ہر کسی سے وفا نہیں کرتی لیکن یہ وصیت نامہ ایک دستور العمل ہے ۔ اگر بادشاہ اس نے ان چودہ اصولوں پر عمل کیا تو اس کی حکومت اور سلطنت کی بنیاد ہمیشہ مضبوط اور پائیدار رہے گی۔ پہلا اصول:یہ ہے کہ جس ملازم کو اپنے ملازموں میں سے اونچا عہدہ اور ترقی دے کسی کی چغلی اسے نیچے نہ گرائے کیوں کہ جو شخص بادشاہ کا مقرب ہوتا ہے اس کے بہت سے حاسد پیدا ہو جاتے ہیں۔ دوسرا اصول: یہ ہے کہ چغل خوروں اور سخن سازوں کو اپنی مجلس میں جگہ نہ دے کیوں کہ یہ لوگ فتنہ اور جنگ کا سبب بنتے ہیں بلکہ جس میں سے بد صفت ہو تو اس کا قلع قمع کر دے تاکہ دنیا اس کی شر سے محفوظ رہے۔ تیسرا اصول: یہ کہ وزراء اور اراکین سلطنت میں اتفاق و یکجہتی پیدا کرے تاکہ ہر مشکل کا مقابلہ آسانی سے ہو جائے۔ چوتھا اصول: یہ کہ دشمن کی چاپلوسی اور نرمی سے مغرور نہ ہو۔ ہر چند خوشامد کرے‘ دور اندیشی سے اس پر اعتماد نہ کرلے۔ پانچواں اصول: جب مطلب حاصل ہو جائے اس کی حفاظت میں غفلت نہ کرے۔ چھٹا اصول: یہ کہ کاموں میں جلدی نہ کرے بلکہ ہر کام میں آہستگی اور تامل کرے‘ جلدی کا نقصان اور آہستگی کا فائدہ بے حساب ہے۔ ساتواں اصول: ہرگرہ کو تدبیر سے کھولے۔ جب بہت سے دشمن جان کے درپے ہو جائیں تو انہیں الگ الگ کر کے ان سے نبٹے۔ آٹھواں اصول:کینہ پرور آدمی سے احتراز کرے اور اس کی خوشامد پر نہ پھولے۔ نواں اصول:عفو و بخشش کو عادت بنا لے اور تھوڑی سی غلطی پر ملازمین کو سخت سزا نہ دے اور اگر بعض مقربان دربان سے کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو اسے معاف کر دے تاکہ اسے تقویت حاصل ہو۔ دسواں اصول: کسی کی اذیت کے درپے نہ رہے کیوں کہ یہ دنیا دارالمکافات ہے۔ نیکی کے بدلے نیکی اور بدی کے بدلے بدی ملتی ہے۔ گیارہواں اصول:لوگوں کو وہ کام نہ بتائے جس کا بوجھ وہ نہ اٹھا سکتے ہوں۔ بارہواں اصول:اپنے آپ کو وہ حلم و بردباری سے آراستہ کرے۔ تیرہواں اصول:اپنے اردگرد امانت دار اور صاحب کردار لوگوں کو جمع کرے اور اہل خیانت سے کنارہ کش رہے۔ چودھواں اصول:ضروری ہے کہ زمانے کی سختیاں اور دنیاوی تکلیفات میں رنجیدہ خاطر نہ ہو۔ راجہ دابشلیم نے ان نصیحتوں پر عمل کیا یا نہیں کیا۔ یہ الگ کہانی ہے ’’کلیلہ و دمنہ‘‘میں ہر اصول کے ساتھ ایک نصیحت آمیز کہانی درج ہے جو ہر نصیحت کی روح اور اس کی تفصیل بیان کرتی ہے۔حکمرانوں اور بادشاہوں کو سکھانے پڑھانے اور فن حکمرانی کا گر بتانے کے لئے دو اور کتابیں شہرہ آفاق حیثیت رکھتی ہیں۔ ان میں ایک تو میکاویلی کی ’’پرنس‘‘ ہے جسے اپنے زمانے کے ہر آمر وقت نے اپنے سرہانے رکھا اور اس میں دجل و فریب سے حکمرانی کے جو طریقے بتائے گئے ہیں‘ ان پر پوری طرح عمل بھی کیا ہے۔ سنا ہے ہمارے بھٹو صاحب بھی اس کتاب کے عاشق تھے اور اسے بہت غور سے پڑھ رکھا تھا۔ دوسری کتاب چندرگپت موریہ کے وزیر اعظم چانکیہ کی’’ارتھ شاستر‘‘ ہے اس میں بھی حکمرانی کے اصول بتائے گئے ہیں۔ جواہر لعل نہرو اس کتاب کے حافظ تھے۔ جمہوری حکومت اور بادشاہت میں فرق اقتدار و اختیارات کو کام میں لانے کا ہے۔ بادشاہ مختار کل ہوتا ہے۔کسی کو جواب دہ نہیں ہوتا۔ جمہوری حکومت میں اسمبلی ہوتی ہے۔ میڈیا ہوتا ہے۔ نادیدہ طاقتیں ہوتی ہیں۔ حکمران ان سب کو جواب دہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان ساری رکاوٹوں کو دور کرنے کے لئے ہمارے حکمران کبھی امیر المومنین بننے کا خواب دیکھتے ہیں اور کبھی پارلیمانی نظام کی جگہ صدارتی نظام لانے کی بحث چھیڑ دیتے ہیں۔ وہ یہ نہیں سوچتے کہ تدبر حکومت و سیاست کا تعلق کسی نظام میں نہیں‘ فرد کے دماغ میں ہوتا ہے۔ دماغ مضبوط نہ ہو‘اونچ نیچ کو سمجھنے سے عاری ہو تو بادشاہت بھی مل جائے تو ناکامی مقدر ہی رہتی ہے۔ کپتان وزیر اعظم مطالعے کے شوقین ہیں کبھی ’’کلیلہ و دمنہ‘‘پڑھ کر تو دیکھیں۔ شاید انہیں سیاست آ جائے۔