آج تو میں آپ کو چوروں کے راج کی کہانی سنا کر رہوںگا۔ جب سندھ میں بلدیاتی انتخابات کا پہلا مرحلہ ہو رہا تھا تو اس دن بہت سی خبریں آئیں مگر ایک خبر ایسی تھی جو مجھے حیران کر گئی۔ میڈیا پر یہ سرسری سی پیش کی گئی‘ پھر غائب ہو گئی، الیکشن کو شفاف اور منصفانہ کرانے کے لئے منتظمین کو بہت سے اقدام کرنا پڑتے تھے۔امیدوار ہنگامہ بھی کرتے ہیں‘ ٹھپے بھی لگائے جاتے ہیں، رات کی دھند میں الیکشن کمشن کا عملہ غائب بھی ہوتا ہے مگر یہ کبھی نہیں سنا تھا کہ انتخابات کو ڈاکوئوں سے بچانا ہے۔خبر آئی ہے کہ کہیں ڈاکو عملے کو یاامیدواروں کو اغوا کر کے لے گئے ہیں،جنہیں بعد میں ریاستی مشینری نے ان کی تحویل سے آزاد کرایا۔ہو سکتا ہے کسی کے لئے یہ چھوٹی خبر ہو مگر ایک ایسے ملک میں جو کم از کم اتنا مہذب تو ہے کہ وہاں جمہوریت سکہ رائج الوقت ہے۔وہاں بھی ڈاکوئوں کی اس ڈھٹائی سے موجودگی کہ وہ انتخابی عمل میں کھلے عام دخل اندازی کر سکیں‘ حیران کن بات ہے، یہ انہونی سی بات ہے کہ پولنگ بوتھ ڈاکو اغوا کر کے لے جائیں، حیرانی کی دوسری بات یہ تھی کہ آیا سندھ میں اب بھی ڈاکوئوں کا راج ہے۔ سندھی زبان میں ان ڈاکوئوں کو دھاڑ بھی کہتے ہیں پتا نہیں ایسے ہی لکھتے ہیں یا کسی اور طرح‘ اب یاد نہیں ۔سندھ میں جو واحد بڑا ملٹری آپریشن ہوا تھا وہ ان ڈاکوئوں کے راج کے خلاف تھا ،اسمبلی سے اسی سلسلے میں قرار داد پاس کرائی گئی۔پھر اسی آپریشن کا رخ کراچی کی طرف موڑا گیا۔ اسمبلی کو تو یہ بتایا گیا تھا کہ سندھ میں ڈاکو بہت بڑھ گئے ہیں۔یہ بات ان کی درست تھی کراچی چونکہ سندھ کا حصہ ہے اس لئے جب سندھ میں ملٹری ایکشن کی قرار داد پاس ہوئی تو کراچی والے اسے اندرون سندھ کے بارے ہی میں سمجھے۔ یہ نہ جان سکے کہ کراچی ٹیکنیکل طور پر سندھ کا حصہ ہے پھر جو خرابی پیدا ہوئی اس کا آغاز یہیں سے ہوا۔ سندھ میں ان دنوں یہ حال تھا کہ شاہراہیں آزادانہ نقل و حمل کے لئے دشوار ہو گئی تھیں۔بہت سی گاڑیاں اکٹھی ہوتیں تو ان کے آگے اور پیچھے حفاظتی دستے لگائے جاتے۔ یہ عموماً رات کو ہوتا مگر دن میں بھی یہی حال تھا کہ کوئی شاہراہ محفوظ نہ تھی۔ریل گاڑیوں کا یہ حال تھا کہ حیدر آباد سے نوجوان بلا ٹکٹ ٹرین میں سوار ہوتے جو چاہے کرتے‘ ہر طرح کی ہلڑ بازی کسی کو روکنے کی جرأت نہ تھی۔یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہتا جب سندھ کی سرحد ختم نہ ہو جاتی یہ کہا جانے لگا کہ ہم جب چاہیں کراچی کا رابطہ پنجاب سے کاٹ دیں۔میں نے ایک ایسی ٹرین میں خود سفر کیا ہے ۔میری والدہ اور اہلیہ میرے ساتھ تھیں اس لئے صرف سنی سنائی نہیں بتا رہا۔ ڈاکو اتنے اہم تھے کہ انہیں علاقے کے بااثر افراد کی مدد حاصل تھی، یہ مدد کرنے والے پتھاریدار کہلواتے تھے۔ میں نے ان پتھاریداروں کی ایک لسٹ دیکھی جو انتظامیہ نے تیار کی تھی۔ان میں سندھ کے بڑے بڑے لوگ تھے۔بڑے بڑے بااثر افراد کی طاقت کا راز یہ تھا کہ ان کے ڈاکوئوں کا جتھہ کیسا ہے۔ایک بات مشہور تھی کہ ایک ڈاکو نے ایسے ہی بااثر پتھاریدار کے پاس ایک بڑی رقم امانت کے طور پر رکھوائی کہ جب ضرورت پڑے گی لے جائوں گا۔وہ رقم لینے گیا تو اس بااثر شخص نے اسے اپنی بندوق کے نشانے پر رکھا۔وہیں ٹھنڈا کر کے پولیس کو فون کر دیا کہ آ کر اپنا مطلوبہ بندہ لے جائو ‘ یہ ہم پر حملہ کرنے آیا تھا۔ تاوان برائے اغوا کی وارداتیں تو بیچ میں پڑ کر دے دلا کر بندہ واپس کرا دیا جاتا۔پولیس اور انتظامیہ بے بس تھی، ہاں البتہ میں نے کراچی کی سی پی ایل سی کو کام کرتے دیکھا ہے۔ایک آدھ مقدمہ ایک قریبی عزیز کا تھا، اس نے بڑی مہارت سے مغوی کو رہا کرایا۔بہرحال یہ تو استثنیٰ ہے۔یہ بھتہ وغیرہ تو بعد کی بات ہے۔ پہلے ڈر تھا کہ کوئی تاجر اغوا کر لیا جائے گا‘ پھر وہ ڈاکوئوں کے سہولت کار ڈھونڈتا پھرے گا ڈاکو باقاعدہ مذاکرات کرتے ۔لین دین کرتے۔ہاں ان کی ایک بڑی دلچسپ شرط ہوتی اتنے لاکھ یا اتنے کروڑ لوں گا‘ ساتھ ایکراڈو گھڑی اور ایک بوسکی کا تھان۔پتا نہیں ان دو چیزوں کو کیا تقدس حاصل تھا مگر ایسا ہوتا تھا۔ ان ڈاکوئوں کی آماجگاہیںکچے کا علاقہ تھا یعنی دریائے سندھ کے اردگرد کے جنگلات، جہاں سیلاب کی صورت میں پانی آ سکتا ہے۔ایسی بہت سی زمینیں بااثر زمینداروں کے تسلط میں تھیں۔یہ ڈاکو یہاں رہتے ‘ جشن مناتے‘ تقاریب کرتے۔لوگوں کو آنے کی دعوت دیتے گویا یہاں ان کی ایک دنیا آباد تھی آپس میں ملنا جلنا تھا۔رابطے بھی تھے۔ ایک بات سنائوں اسی سے آپ کو ڈاکوئوں کے اس معزز ٹولے کا اندازہ ہو جائے گا۔ میں ان دنوں سندھ میں ایک بڑے قومی ادارے کا سربراہ تھا سکھر میں اپنے اخبار کے لئے میں نے ایک پلاٹ خریدا۔خیال تھا کہ جلد ہی ہم سکھر سے اپنی اشاعت کا آغاز کر دیں گے، سوچا اس پلاٹ کی حفاظت کے لئے کچھ کیا جائے۔ مقامی ساتھیوں سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ ایک شخص سے بات ہو گئی ہے جو سابق ڈھا ریل ہے۔اس کے ہوتے سب لوگ کم از کم اس کے لحاظ میں ادھر کا رخ نہیں کریں گے۔یہ دھاڑیل گویا ایک کاروبار تھا۔یہ بااثر افراد کی حکومت کے خلاف حکومت بھی تھی۔میرا خیال تھا یہ حکومت اب ختم ہو چکی ہے۔کم از کم پیپلز پارٹی نے اندرون سندھ اپنی رٹ نافذ کر رکھی ہو گی مگر جب مجھے یہ پتا چلا کہ دھاڑیل نام کی یہ نسل اب بھی موجود تو صدمہ ہوا۔ تیس سال پہلے یہاں ایکشن کیا گیا تھا یہ لوگ تو جلدی قابو میں آ گئے وگرنہ لگتا تھا سندھ کا پورا صوبہ ہاتھ سے گیا۔اس کے نتیجے میں کراچی میں ملٹری آپریشن ہوا جسے بعدمیں جنرل نصیراللہ بابر کے ایکشن میں بدل دیا گیا۔اس کا پھل ہم نے اب تک کاٹا ہے۔ایم کیو ایم کے بانی پر پابندی لگا کر اس سے قدرے گلو خلاصی ہوئی۔اگر سندھ میں یہ عنصر موجود ہے تو سمجھئے کہ چنگاری اب بھی ہے جو شعلہ جوالا بن سکتی ہے۔