فلسطین اور لبنان کے خطوں کا شمار مسلم دنیا کے چوٹی کے قابل رحم اور مظلوم ترین علاقوں میں ہوتا ہے جو غاصبانِ وقت نے اپنے پنچوں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ انبیاء کی سرزمیں فلسطین کی جغرافیائی حیثیت اتنی اہمیت کا حامل ہے کہ امریکہ اور برطانیہ اور ان کے لاڈلوں کو یہ اپنے مفادات کے حصول کا بہترین گڑھ نظر آتی ہے۔ ارض فلسطین پر حالیہ اسرائیلی حملوں نے ایک مرتبہ پھرمسلم اُمہ کو ایک بار پھر یہ پیغام دے دیا کہ اس خطے کا مالک وہی ہے جس کے پاس دنیا کے جدید ترین دفاعی نظام کے علاوہ امریکہ اور برطانیہ بھی اس کی پشت پر بدستور کھڑے ہیں اور کوئی مائی کا لال اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتا۔ فلسطینی وزارت صحت نے اسرائیل کے 11 دنوں تک جاری رہنے والے حملوں میں جانی نقصان کے حوالے سے ایک نیا بیان جاری کیا ہے۔ اسرائیلی فوج کے زیر ِ محاصرہ غزہ کی پٹی پر 10 مئی سے شروع ہونے والے اور حماس کے ساتھ فائر بندی معاہدے کے ساتھ بند ہونے والے حملوں میں ہلاک ہونے والے فلسطینی شہریوں کی تعداد 248 ہو گئی ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں زخمی اور ساری عمر کے لئے معذور ہو چکے ہیں عمارتیں ملبے کے ڈھیروں میں بدل چکی ہیں اور لاکھوں افراد بے سرو سامانی میں کھلے آسمان تلے اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھنے پر مجبور ہیں۔ اسرائیلی جارحیت ان عرب مسلم ملکوں کے منہ پر ایک طمانچہ ہے جنہوں نے حال ہی میں ایک شرمناک ڈیل کے تحت غاصب اسرائیل کو ببانگ دہل تسلیم کرکے اس سے سفارتی تعلقات کا اعلان کیا۔ تاہم انبیاء کی اس سرزمیں کے غیور فلسطینی سپوتوں کوسلام کہ سات دہائیاں بیت جانے کے باوجود وہ بدستور ڈٹ کر مقابلہ کررہے ہیں ، وہ بھی غلیلوں سے ، پتھروں سے اور زیادہ سے زیادہ چند کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے والے راکٹوں سے۔ فلسطین کا بچہ بچہ بھی اب جاں چکا ہے کہ دوٹکے کے ہمسایوںکی امداد سے ان کے اپنے غلیل ہزار گنا بہتر ہیں جس پر کم ازکم اعتبار تو کیا جاسکتا ہے ۔ فلسطینی نئی کھیپ کا بچہ بچہ محمود درویش ہے اور اپنے دشمن سے صبح وشام ’’نظم بطاقۃ ہویۃ۔‘‘ (شناختی کارڈ) کی زباں میں کچھ یوں مخاطب ہوتاہے۔ کہا جاتاہے کہ مشہور فلسطینی شاعر 1965ء میں حیفاسے نظارت میںہونے والے ایک مشاعرے میں شرکت کرنے کیلئے روانہ ہوئے تو راستے پولیس نے سفری دستاویزات اور شناختی کارڈ دکھانے کا مطالبہ کیا، بعد میںانہوں نے اُن پولیس والوں کے نام ’’بطاقۃ ہویا یا شناختی کارڈ ‘‘کے نام سے ایسی شاہکار نظم لکھی جس کا حرف حرف سے ہر فلسطینی کے عزم اور ہمت کا سچا مظہر ہے۔ شناختی کارڈ: لکھ لو میں ایک عرب ہوں اور میرا شناختی کارڈ نمبر 50 ہزار ہے میرے آٹھ بچے ہیں اور موسم گرما کے بعد نواں آنے والا ہے کیا تم ناراض ہوجاؤگے؟ لکھ لو میں ایک عرب ہوں میں پتھر کی کان،معدن الحجر میں محنت کشوں کے ساتھ ملازمت کرتا ہوں میرے آٹھ بچے ہیں میں ان کے لیے چٹانوں سے غذا کپڑے اور کتابیں حاصل کرتا ہوں میں تمہارے دروازوں پر خیرات کے لیے التجائیں نہیں کرتا اور نہ ہی میں خود کو اتنا چھوٹا کرتا ہوں کہ تمہارے ایوان کی سیڑھیوں تک چلا آؤں کیا تم ناراض ہوجاؤگے ؟ میں ایک عرب ہوں میرا نام کسی شناخت کے بغیر ہے ایک ملک میں صابر و شاکر ہوں جہاں لوگ غصے میں ہیں میری جڑیں وقت کی پیدائش سے پہلے اور زمانوں کے منکشف ہونے اور گھٹنے سے بھی پہلے دریا،صنوبر اور زیتون کے درختوں اور گھاس کے اگنے سے بھی پہلے گہری ہوچکی تھیں میرے والد کاشت کاروں کے خاندان سے تھے وہ معزز،محترم اور اعزاز یافتہ طبقے سے نہیں تھے اور میرے دادا؟ وہ ایک کسان تھے وہ مجھے پڑھانے سے پہلے کہ پڑھا کیسے جاتا ہے سورج کے غرور کا درس دیتے تھے اور میرا گھر چوکیدار کی جھونپڑی کی مانند ہے جو بانس کی شاخوں سے بنائی گئی ہے کیا تم میری حیثیت سے مطمئن ہو ؟ میرا ایک نام ہے کسی شناخت کے بغیر لکھ لو میں ایک عرب ہوں تم نے میرے آباواجداد کاپھلوں کا باغ اور وہ زمین جو میں نے کاشت کی اور میرے بچے چرا لیے تم نے ہمارے لیے ان چٹانوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں چھوڑا کیا اب ریاست انہیں اٹھا لے گی جیسا کہ اب کیا جا رہا ہے اس لیے صفحہ اول پر سب سے اوپر لکھ لو میں لوگوں سے نفرت نہیں کرتا اور نہ تجاوزات قاہم کرتا ہوں لیکن اگر مجھے بھوک لگی تو غاصب کا گوشت میری غذا ہوگی میری بھوک اور میرے غصے سے خبردار،ہوشیار!! ( اردوترجمہ: نذیر لغاری)