کرونا وائرس ۔ ۔ ۔ دن رات کے24گھنٹے میں کم از کم 18گھنٹے مسلسل دس دن سے صرف اور صرف ’’کرونا ‘‘ہورہا ہے۔برسہا برس سے جو اتوار کی چھٹی بھی گھر میں نہیں گزارتے ۔ ۔ ۔ اُن پر اور اُن کے سبب ان کے فیملی ممبرز پر کیا گزرتی ہوگی۔اس پر فیض ؔ صاحب کا سہا را لوں گا ۔ ۔ ۔ جو گذرتے تھے داغ پر صدمے آج یہی کیفیت سبھی کی ہے مگر کورونا کے سبب جبری گھر میں نظر بندی ہے۔ اُس کا فائدہ ضرور ہورہا ہے۔ایک تو وہ کتابیں جن پر برسوں سے گرد پڑی تھی جھاڑ کر جب ورق الٹتا ہوں ، انہیں پڑھ کر پہلے سے زیادہ لطف آتا ہے۔ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی کی 20سال قبل پڑھی کتاب ’’تاثرات و مشاہدات ‘‘نے وہ لطف دیا کہ ایک ایک خاکے کا بار بار ورق الٹ کر پڑھا ۔ اس دوران ایک نئی کتاب بھی پڑوس سے ہاتھ آگئی۔ ۔ ۔ ’’جو ہم پہ گذری‘‘۔ ۔ ۔ پاکستان کے ایک سابق سفارتکار سید یحییٰ نقوی نے بڑے دلچسپ پیرائے میں بھٹو سے میاں نواز شریف تک کے بارے میں ایسے دلچسپ انکشافات کئے ہیں کہ یقینا جنہیں پڑھ کر گھر میں کرونا کی قید میں آپ کو بڑا لطف دیں گے۔کتاب کا پیش لفظ اُن کے ساتھی سفارتکار کرامت غوری نے لکھا ہے۔جو خود بھی اپنے سفارتکار ی کے دور پر ایک کتاب لکھ چکے ہیں۔پیش لفظ میں ہمارے کرامت غوری نے سفارت کاروں کے بارے میں ایک ایسی بات لکھی ہے جو اس سے پہلے پڑھنے کو نہیںملی ۔یوں بھی ایک سفارت کار اور وہ بھی ریٹائرڈ ہی لکھ سکتا ہے۔ غوری صاحب لکھتے ہیں کہ ’’عصمت فروشی اور سفارت کاری دنیا کے دو سب سے پرانے پیشے ہیں۔ایک میں بدن بیچا جاتا ہے تو دوسرے میں ضمیر۔اور فرق یہ ہے کہ ایک کی کمائی محنت کی ہے تو دوسری منافقت کی روزی ہے۔‘‘ درست فرمایا۔ ہمارے محترم یحییٰ نقوی اگر ایسی باتیں جو میاں نواز شریف اور ان کے دور اقتدار کے دنوں کی لکھی ہیں ،اگر وہ وزارت خارجہ میں بابو گیری کے دوران کہیں لکھ بیٹھتے تو ۔ ۔ ۔ ’’کالے پانی‘‘ بھجوادئیے جاتے ۔مگر بقول غوری صاحب ،یہ سارے سفارت کار اور سرکاری افسروں کا ضمیر ریٹائرمنٹ کے بعد ہی جاگتا ہے۔ہاں ہم جیسوں کو یہ اس لئے لطف دیتا ہے کہ ہمارے ان حکمرانوں نے اپنے دور ِ حکمرانی میں کیسے کیسے ستم ڈھائے ۔ ۔ ۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ یہ باتیں اس وقت لکھی جاتیں۔اور ہمیں انہیں اپنے کالم میں جگہ دیتے ۔جب میاں صاحب اقتدار میں ہوتے۔مگر سوچا کہ شاید آج کے حکمرانوں اور ان کے حامیوں کی نظر سے گذر جائیں ۔تو اُس سے کچھ سبق لیں۔ ۔ ۔ مگر وطن ِ عزیز مین روایت نہیں ۔ ۔ ۔ اچھا تو نہیں لگ رہا۔ ۔ ۔ مگر سوچا کہ کالم کو کرونا وائرس کے مصائب سے بوجھل بنانے کے بجائے ذرا ہلکا پھلکا بنانے کے لئے نقوی صاحب کی کتاب کے چند اوراق پیش کروں۔ ۔ ۔ کہ جو آپ کے چہرے پر مسکراہٹ لائیں کہ جس کی کرونا کا مقابلہ کرنے کے لئے بڑی ضرورت ہے۔ یحییٰ نقوی لکھتے ہیں ۔ ۔ ۔ ’’کانفرنس کا افتتاحی اجلاس ۔ ۔ ۔ ہمیں اپنی وزارت خارجہ سے کہا گیا تھا کہ وزیر اعظم کی تقریر کانفرنس میں سب سے پہلے ہوگی۔چنانچہ ہم نے کانفرنس کے سیکرٹریٹ کو درخواست دے دی تھی کہ پاکستان کے وزیر اعظم کی تقریر پہلے نمبر پر رکھی جائے۔ کانفرنس شروع ہونے سے پہلے کانفرنس سیکرٹریٹ نے منظوری دے دی کہ وزیر اعظم نواز شریف پہلے اسپیکرہوں گے ۔ ۔ ۔ غیر جانبدار ملکوں کی سربراہی کانفرنس کا افتتاح یکم ستمبر 1992کو صبح نو بجے ہوا۔صدر سوہارتو کانفرنس کے چیئر مین منتخب ہوئے۔کانفرنس کی کارروائی شروع ہونے سے پہلے چند ملکوں کے سربراہوں نے کہا کہ بوسنیا ہرزیگووینا پر حملہ کردیا گیا ہے اور وہاں مسلمانوں کا قتل ِ عام شروع ہوگیا ہے۔یہ معاملہ فوری توجہ چاہتا ہے۔انہوں نے کانفرنس کے چیئر مین صدرسوہارتو سے اپیل کی کہ کانفرنس کی کارروائی شروع ہونے سے پہلے بوسنیا ہرزیگووینا کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر بات کی جائے ۔اس پر بحث شروع ہوگئی۔اور ایک کے بعد ایک ملک کے نمائندے اپنے اپنے ملک کا موقف بیان کرنے لگے۔ ۔ ۔ ’’بوسنیا پر میٹنگ اور مونگ کے پاپڑ۔ ۔ ۔ کانفرنس کا اجلا س شام سات بجے ختم ہوا۔ ۔ ۔ اس کے بعد صدر سوہارتو کی طرف سے عشائیہ دیا گیا۔عشائیہ کے بعد رات دس بجے بوسنیا ہرزیگوویناکی کمیٹی کی میٹنگ شروع ہوئی۔ سب سے پہلے ہندوستانی وزیر اعظم نرسمہا راؤ نے تقریر کی۔پھر رفسنجانی صاحب اور اس کے بعد ایک کے بعد ایک سربراہ اپنے موقف کی وضاحت کرنے لگے۔بحث اس بات پر تھی کہ غیر جانبدار ممالک کی تنظیم کی طرف سے بوسنیا ہرزیگوویناکے مسلمانوں کے قتل عام پر سربیا فوج کی مذمت کی جائے اور قتل عام روکنے کے لئے اقوام متحدہ کی امن فوج فوری طورپر بوسنیا ہرزیگووینا بھیجنے کی اپیل جائے۔کچھ ممالک اس کی مخالفت کررہے تھے کہ غیر جانبدار تنظیم کو اس معاملہ میں کسی کی طرف داری نہیںکرنی چاہئے۔اس بحث میں رات کے گیارہ بج گئے۔پرنس نوروڈ وم سہانوک پر زور تقریر کر رہے تھے کہ یکایک میاں صاحب ناک سے گہرے سانس لینے لگے جیسے کچھ سونگھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔پھر سفیر صاحب کہنے لگے کہ مونگ کے پاپڑ کی خوشبو آرہی ہے۔سفیر صاحب نے ادھر ادھر دیکھا ور کہا کہ یہاں ہال میں نئے کارپٹ لگائے گئے ہیں ،شاید ان کی خوشبو ہو۔تھوڑی دیر بعد میاں صاحب نے پھر کہا کہ انڈونیشیا کے جوپاپڑ ہوتے ہیںجن میں ثابت مونگ چپکے ہوتے ہیں،ان کی خوشبو ہے۔سفیر صاحب نے میری طرف دیکھا اور مسکرادئیے۔اب مہاتیر محمد تقریر کررہے تھے اور اس بات پر زور دے رہے تھے کہ کانفرنس کی طرف سے بوسنیا ہرزیگوویناپر قرار داد منظور کی جائے ۔میاں صاحب مونگ کے پاپڑ کے بارے میں سوچ رہے تھے۔آخر ان سے رہا نہ گیا اور سفیر صاحب سے کہا کہ کمیٹی کی میٹنگ کے بعدمونگ کے پاپڑ کا انتظام ہونا چاہئے۔سفیر صاحب نے مجھ سے کہا کہ وزیر اعظم کے لئے مونگ کے پاپڑ کا بندوبست کرو۔میں پریشان ہوگیا۔رات کے گیارہ بج چکے تھے۔اس وقت کہاں سے مونگ کے پاپڑ ملیں گے۔ہمارے ملٹری سکریٹری کرنل غلام نبی کی ڈیوٹی وزیر اعظم کی دیکھ بھال کے لئے لگی ہوئی تھی۔وہ بھاشا انڈونیشیا بھی بول لیتے تھے۔ میں میٹنگ روم سے باہر گیا،کرنل غلا م نبی سے کہا کہ وزیر اعظم کا حکم ہے کہ میٹنگ ختم ہونے کے بعد ان کیلئے مونگ کے پاپڑ کا انتظام کیا جائے۔وزیر اعظم کے ساتھ انڈونیشیا کی حکومت نے اپنے ایک بریگیڈیئرکی ڈیوٹی بطور ملٹر ی سکریٹری لگائی تھی ۔کرنل غلام نبی نے برابر میں کھڑے ہوئے انڈونیشین بریگیڈیئر سے کہا کہ وزیر اعظم میٹنگ کے بعد مونگ کے پاپڑ کھانا چاہتے ہیں۔اس نے فوراً اپنے واکی ٹاکی سے ہلٹن ہوٹل کی روم سروس کومونگ کے پاپڑ تیار کرنے کا آرڈر دے دیا۔تھوڑی دیر میں کمیٹی کی میٹنگ ختم ہوگئی۔میاں صاحب کمیٹی روم سے باہر آئے تو انہیں بتایا گیا کہ مونگ کے پاپڑ تیار ہیں، کہاں پہنچائے جائیں۔میاں صاحب بہت خوش ہوئے اور مونگ کے پاپڑ کا ایک بڑا ٹوکرا بھر کر روم سروس والے ان کے سوئٹ میں لے آئے ۔ٹوکرا اندر بھیج دیا گیا۔تھوڑی دیر بعد ٹوکرا خالی ہوکر واپس آگیا۔ ۔ ۔ ‘‘(جاری ہے)