خلافت عثمانیہ کے زوال پہ نوحے میںکیوں لکھتی ہوں؟مجھے ترکوں سے کوئی انس ہے نہ عربوں سے کوئی پرخاش۔ پاکستا ن کے قیام کے بعد دونوں ہی پاکستان کے بہترین دوست ثابت ہوئے۔ میں سازشی تھیوریوں کی بہت زیادہ قائل بھی نہیں لیکن خلافت عثمانیہ کو ختم کئے بغیر ریاست اسرائیل کا قیام ممکن نہیں تھا۔مجھ سے گلہ کیا گیا کہ میں نے مسلم تاریخ کے اس شرمناک باب کا ذکر کرتے ہوئے عربوں کا تذکرہ گول کردیا جو سقوط خلافت کے اصل نفع کنندگان تھے۔ زندہ قومیں زوال کے اسباب پہ غور کیا کرتی ہیں، اس میں شریک کرداروں اور ان کی حرکات و سکنات ایک ضمنی اور ثانوی موضوع ہوا کرتی ہیں۔پھر یہ بھی تو ہے کہ خود عربوں کے ساتھ بھی ہاتھ ہوگیا۔اہم اور غور و فکر کی بات یہ ہے کہ خلافت عثمانیہ کے شرمناک سقوط سے مسلمانوں کی مرکزیت پہ جو ضرب کاری لگائی گئی ، اس نے امت مسلمہ کو ہمیشہ کے لئے ٹکڑوں میں بانٹ دیا۔ اس کے بعد آپ نے دیکھا کہ ہم افغانی ، تورانی، ایرانی سب کچھ ہوئے لیکن مسلمان نہیں ہو سکے۔ خلافت عثمانیہ جیسی بھی تھی ، اس نے مسلمان قوم کو چاہیں تو آپ اسے مسلم امہ کہہ لیں، ایک قابل ذکر اتحادی قوت میں متشکل کررکھا تھا۔ ہم نے خلافت نہیں کھوئی، مرکزیت کھو دی ۔ اس فلسفے کو آپ جتنی گہرائی سے سمجھنے کی کوشش کریں گے،اتنی ہی جلد آپ اس قوم کی نفسیاتی الجھنوں کو پہنچ جائیں گے جو اسلام کے نام پہ وجود میں آئی۔یعنی پاکستانی قوم۔ خلافت عثمانیہ کے سقوط کے بعد عربوں کے ہاتھ عرب نیشنلزم آگیا اور وہ اس کی ڈفلی بجاتے رہے۔بچا کچھا تر ک ، ترک قومیت کی بانسری بجاتا رہا اور اب تو خاصے اونچے سروں میں بجا رہا ہے۔ پاکستان وہ واحدملک تھا جس کے پاس نیشنلزم جیسا کوئی ساز بجانے کے لئے تھا ہی نہیں۔سو ہم آج تک بے آواز بج رہے ہیں۔ جنرل مشرف نے پاکستانی قوم کو سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ دیا لیکن اس نعرے کے ساتھ امریکی اور نیٹو اتحاد کے ایسے سر بندھے تھے کہ ہم آج تک اس پاکستانی نیشنلزم کا بھگتان بگھت رہے ہیں۔ برسبیل تذکرہ، جنرل ضیاالحق جو روس کے خلاف امریکی جنگ میں نہایت ہشاش بشاش اتحادی رہے،اور اس پہ بھی بحث کی جاتی رہے گی، پاکستانی نیشنلزم کے بانیوں میں سے تھے بس وہ جنرل مشرف کی طرح شور مچانے اور کریڈٹ لینے کے عادی نہیں تھے۔آپ کو جنرل ضیاالحق کے زمانے کے جتنے ملی نغمے ملیں گے ان میں یہی پاکستانی نیشنل ازم اپنے عروج پہ نظر آئے گا۔دنیا کی پہلی اسلامی سربراہی کانفرنس رباط میں مراکش کے شاہ حسن نے منعقد کروائی۔پاکستان سے اس میں جنرل یحییٰ نے شرکت کی جو بوجوہ بعد میں ہی نہیں اس وقت بھی خاصے بدنام تھے۔ جب وہ کانفرنس میں پہنچے تو عالمی اسلامی سربراہان کے درمیان ایک سکھ کی موجودگی پہ انہوں نے اعتراض کیا۔ انہیں بتایا گیا کہ بھارت میں مسلمانوں کی کثیر تعداد کے پیش نظرحکومت نے اسے نمائندے کے طور پہ بھیجا ہے۔جنرل یحییٰ لیکن مصر تھے کہ ایک اسلامی کانفرنس میں سکھ کا کیا کام ہوسکتا ہے اور اگر دیگر سربراہان اس منطق سے متفق ہیں تو وہ اس میں شرکت سے معذرت خواہ ہیں۔بالآخر اس سکھ نمائندے کو کانفرنس سے باہر بھیجا گیا اور رباط کانفرنس کا آغاز ہوا۔ دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس ،لاہور میں بھٹو نے منعقد کروائی۔ اس کانفرنس کا ترانہ جو ترانہ ملت کہلایا، اس کی استھائی ہم مصطفوی، مصطفوی، مصطفوی ہیں جیسے آفاقی اور خالص اسلامی امہ کے تصور پہ مشتمل تھی۔آپ اسے موقع کی مجبوری بھی کہہ سکتے ہیں لیکن مجبوری نبھائی تو گئی تھی۔خلافت عثمانیہ کے زوال کی نصف صدی بعد غالبا ایسا کوئی نغمہ فضا میں گونجا جس میں اسلامی امہ کا گم گشتہ تصور موجود تھا۔ یہ بھی ستم ظریفی تھی کہ خلافت عثمانیہ کی جڑوں میں صیہونیوں نے بارودی سرنگیں بچھا کر جس ریاست اسرائیل کے قیام کی راہ ہموار کی تھی، اس کے سربراہوں میں سے ایک ڈیوڈ بن گوریان نے کہا تھا کہ اب عرب کبھی ہمارے لئے خطرہ نہیں بنیں گے ہاں لیکن اسلامی ملک پاکستان ہمارے لئے خطرہ بن سکتا ہے۔ یہ اسلامی سربراہی کانفرنس سقوط ڈھاکہ کے تین برس بعد منعقد ہوئی جب اسلامی ملک دو لخت ہوگیا تھا۔اس تمام قصے میںفکر کے مقام کئی ہیں۔ اسلامی دنیا میں بالعموم اور پاکستان میں بالخصوص تھنک ٹینک جیسی بدعتوں کا کوئی رواج نہیں ہے۔ہم جیسے نوآموز اپنے طور پہ غور و فکر کرتے اور غلط یا درست نتائج نکالتے رہتے ہیں۔میں نے بارہا محسوس کیا کہ خلافت جیسے لفظ کو جب گالی بنا دیا گیا اور مسلم امہ کے لفظ کو طعنہ ، تب بھی مسلم دنیا دو بڑے طبقوںمیں تقسیم رہی۔ ایک وہ مسلم حکمران جو ہوس اقتدار میں روس یا مغرب و امریکہ کے کاسہ لیس بنے مسلم امہ کی گردن پہ چھریاں چلاتے رہے ۔ دوسرا وہ مسلم عوام جو سرحدوں اور حکمرانوں کی باہمی چپقلش سے ماورا ہوکر حدیث نبوی ﷺ کی عملی تفسیر بنے رہے جس کے مطابق امت مسلمہ ایک جسم کی مانند ہے۔اس کے ایک حصے کو تکلیف ہوتی ہے تو سارا جسم کرب میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ جب بھی مسلم امہ کے کسی حصے کو کرب، دکھ اور تکلیف کا سامنا ہوا، باقی تمام امت اس کے غم میں آواز ملائے دیوانہ وار نکل آئی۔ پاکستا ن ان میں سر فہرست رہا۔اس کی بنیاد ہی مسلم قومیت تھی۔آپ اس کے علاوہ پاکستان کی کیا تشریح کرسکتے ہیں؟کسی بھلے آدمی نے کہا تھا کہ افغان نہ رہے تو افغانستان رہے گا،ایرانی نہ رہے تو ایران رہے گا لیکن مسلمان نہ رہے تو پاکستان نہیں رہے گا۔پاکستان کی اسی بنیاد پہ ضرب کاری اس وقت لگائی گئی جب اسے امارات اسلامی کے خلاف استعمال کیا گیا جو خلافت کی علمبردار اور افغانستان کی تاریخ میں واحد پاکستان دوست حکومت تھی اور پاکستانی قوم واضح طور پہ دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ نائن الیون کے بعد امارات اسلامی کے خلاف ہمارا کردار نرم ترین الفاظ میں شرمناک رہا۔ملا ضعیف کی تذلیل مجھے تو نہیں بھولتی۔اس کے باوجود طالبان نے پاکستان سے کبھی شکوہ نہیں کیا۔آج افغانستان اور پاکستان کے درمیان کرکٹ میچ پہ پاکستان کے خلاف زہر اگلنے اور پاکستانی شائقین پہ ٹوٹ پڑنے والے طالبان نہیں، وہی افغان ہیں جن کا ساتھ پاکستان نے طالبان کے خلاف امریکہ کے تزویراتی معاون کی حیثیت سے دیا تھا۔اس حساب سے تو ہم اتحادی ہوئے۔ان حالات میں جب افغان اور پاکستانی مسلمان آپس میں دست وگریبان ہیں، ملا عمر کے قریبی معاون اور روس اور امریکہ کے خلاف برسر پیکار رہنے والے مولانا عبدالجبار کی پراسرار شہادت کی اطلاع موصول ہوئی ہے۔ مولانا پاکستان کے خیر خواہ تھے اور ٹی ٹی پی کے کئی دھڑوں کو پاکستان مخالف سرگرمیاں ترک کرنے پہ آمادہ کرنے میں کامیاب رہے ۔ان کی شہادت پاکستان سے محبت کرنے والوں میں بے چینی اور دکھ کا سبب بنی ہے۔کیا ہم اب بھی دوستوں اور دشمنوں میں تمیز نہیں کریں گے؟