کیا ہمارے لکھنے والوں نے پاک فوج کے باطن میں جھانکنے کی کبھی زحمت کی ہے؟ کیسا کیسا گوہرِ تابدار ہیروں کی اس کان میں تھا اور اب بھی ہے۔ فاروق گیلانی کے لہجے میں وہ سرشاری تھی، جو ایک دریافت سے جنم لیتی ہے... حیرت اور اشتیاق۔ انہوں نے ایک سبکدوش فوجی افسر کے بارے میں بتایا ''ہم وزارتِ زراعت والے جنگل اگاتے ہیں‘‘ انہوں نے کہا ''ادائیگی مشروط ہے کہ خاردار تارچاروں طرف ہو اور اسّی فیصد پودے سلامت ‘‘۔ بریگیڈیئر صاحب سے انہوں نے پوچھا: کتنے فیصد؟ جواب ملا: سوفیصد۔ حیرت سے انہوں نے سوال کیا کہ یہ کس طرح ممکن ہے؟ طویل قامت اور وجیہہ آدمی نے سگریٹ سلگایا اور کہا: اس لیے کہ 120فیصد گاڑے گئے ''اور خاردار تار؟‘‘ ۔۔۔ ’’دیہاتیوں کو جمع کیا اور بتایا کہ پھلتی پھولتی زندگی میں درختوں کی اہمیت کیا ہوتی ہے۔ گائوں کے سب لوگ مل کر جنگل کی حفاظت کرتے ہیں‘‘۔ ''اس آدمی کا نام بریگیڈئیر سلطان ہے‘‘ میں نے انہیں بتایا۔حیرت زدہ، انہو ں نے مجھ سے پوچھا کہ میں یہ بات کیسے جانتا ہوں؟ ہم ٹیلی فون پہ بات کر رہے تھے ''اس لیے کہ صرف بریگیڈیئر سلطان ہی ایسا کر سکتے ہیں‘‘۔ مرحوم گیلانی کی عمر اس وقت پچاس سال رہی ہوگی۔ ایک لائق افسر کے طور پر، جو بہت سے اہم مناصب نبھاچکا تھا، مرعوبیت کی عمر سے وہ گزر آئے تھے۔ ایک دوسرے کو تیس برس سے ہم جانتے تھے۔ا نہیں معلوم تھا کہ میں مبالغے کامرتکب نہیں۔ اس کے باوجود انہیں اعتبار نہ آرہا تھا۔ ''ایسا آدمی؟‘‘ انہوں نے کہا ''دنیا میں کیا ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں؟‘‘ جی ٹی روڈ کے راستے لاہور سے اسلام آباد آتے ہوئے، گاڑی جب ترکئی کی پہاڑیوں کے پاس پہنچتی ہے تو میں اس آدمی کو یاد کرتا ہوں۔ اس گائوں کی نشان دہی کرنے والے بورڈ پہ نگاہ ڈالتا ہوں ، جہاں کبھی محمد سلطان نام کے اس بچّے نے جنم لیا تھا، پاکستانی فوج کی تاریخ کا ایک قابلِ فخر باب جسے رقم کرنا تھا۔’’ڈومیلی‘‘ اس گائوں کانام ہے۔ وہاں، جہاں دو برساتی ندیاں گلے ملتی ہیں اور پھر یکجا ہو کر بہتی ہیں۔ سبکدوشی کے برسوں بعد، ایک تقریب میں جنرل محمد ضیاء الحق سے بریگیڈیئر سلطان کی ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا ''کیا ساری دنیا سے آپ ناراض ہیں؟میں نے آپ کو مدعو کیا اور آپ تشریف نہ لائے‘‘ ہمیشہ کی دھیمی اور ٹھہری ہوئی آواز میں ان کا جواب یہ تھا ''سر! ائیر پورٹ پولیس سٹیشن کا تھانیدار بھی بلائے تومیں ضرور جائوں، مگر شرفا قرینہ ملحوظ رکھتے ہیں‘‘۔ راولپنڈی پہنچ کر جنرل نے فون کیا ''میں ضیاء الحق بول رہا ہوں۔ کیا بیگم صاحبہ کے ہمراہ آپ میرے گھر تشریف لانے کی زحمت گوارا فرمائیں گے؟‘‘ کھانے کی میز پر ایک گہری اداسی کے عالم میں حکمران نے سوال کیا ''تلافی کی کوئی صورت؟ کوئی سی ملازمت، کوئی منصب؟ میرے دل پہ بوجھ بہت ہے‘‘۔ نفی میں بریگیڈئیر نے سرہلایا ''جنگ لڑنے کے سوا میں کوئی دوسرا کام جانتا ہی نہیں‘‘۔ جنرل محمد ضیاء الحق کو وہ ایام یاد آئے، جب انہیں ساتھ لے کر وہ قاہرہ پہنچے تھے۔ 1973ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد۔ مصری جنرلوں نے صیہونی سپاہ کے مقابل اپنی شاندار حکمتِ عملی کی تفصیل ایک اجلاس میں بتائی تھی۔ تمام ہو چکی تو کمال انکسار سے پاکستانی بریگیڈیئر نے یہ کہا: اجازت ہو تو عرض کروں کہ قدرے مختلف حکمتِ عملی بھی ممکن تھی... پھر سننے والوں کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے۔ خیال آرائی اور شاعری نہیں، ملٹری سائنس کے اصولوں کی رو سے ایک مکمل نقشہء جنگ۔ انہوں نے درخواست کی کہ مصری فوج کی رہنمائی کیلئے ان کی خدمات کچھ دن کیلئے مستعار دے دی جائیں۔ 1965ء میں، جب وہ کشمیر کے محاذ پر تھا، چیف آف آرمی سٹاف دورے پر تشریف لائے۔ مذاقاً ،جیسا کہ ان کا انداز تھا، انہوں نے کہا: کیا باقی سب مورچے بھی تمہارے مورچے ایسے پختہ اور پائیدار ہیں؟ کپتان کا جواب یہ تھا: اگر ایک بھی مورچہ ا س سے کمتر ہو تو میں پاک فوج کی وردی پہننے کا حق دار نہیں۔ پھر جواں سال افسر کے کچھ واقعات سنائے گئے۔ ان میں سے ایک یہ تھا: سرحد سے 150کلومیٹر پرے، ایک چھاپہ مار کارروائی کے لیے اسے بھیجا گیا۔ ایک تاریک شب میں، چند سپاہیوں کے ہمراہ اس نے دشمن کی رجمنٹ پر حملہ کیا اور سینکڑوں کو ہلاک کر ڈالا۔ اس سے بھی زیادہ یہ کہ پھر اپنے ساتھیوں کے ہمراہ وہ وطن لوٹ آیا۔ اس کے کسی رفیق کو خراش تک نہ آئی تھی۔ ایک گھنے اورگہرے جنگل میں، جہاں کارروائی سے قبل، وہ چھپے تھے، ایک عورت نے انہیں دیکھ لیا تھا۔کیا اسے قتل کر دیا جائے۔ کپتان نے یہ رائے مسترد کر دی۔ ''کسی بے گناہ پہ ہاتھ نہیں اٹھایا جاتا‘‘ نوجوان افسر نے کہا ''یہ اللہ کا حکم ہے۔وہ سپاہی نہیں ، جس کی کوئی اخلاقیات نہ ہو‘‘۔۔۔ اکثر ایک جملہ دہراتے ''ہم قاتل اور جلاد نہیں، سپاہی ہیں۔ زندگی کی حفاظت کے لیے میدان میں اترتے ہیں‘‘۔ 1971ء کے مشرقی پاکستان میں جمال پور کے محاذ پر پہنچے تو پہلے سے گرفتار بنگالیوں کو رہا کرنے کا حکم دیا۔ پھر بڑے بوڑھوں کو بلایا۔ گپ لگاتے رہے، ان کے خدشات دور کیے ۔ ایک پیمان ان سے باندھا: کسی بے گناہ پہ آنچ نہ آئے گی۔ صلہ یہ تھا کہ جنگ کا زمانہ آیاتو ہزاروں بنگالی جوانوں نے 80کلومیٹر تک، خندقوں کی آٹھ قطاریں، بھارتی فوج کی راہ میں کھود ڈالیں۔ ایک ڈویژن بھارتی فوجی ایک انچ دھرتی بھی چھین نہ سکی۔ جنگ کے بعد اور اس میں حیران کن واقعات پیش آئے، بھارتی جنرلوں نے اس کے ساتھ تصاویر بنوائیں۔ ان کی شجاعت کے قصے دشمن کی سپاہ میں گونج ر ہے تھے۔ ہتھیار ڈالنے کی تنبیہ کرنے والے بھارتی افسر کو انہوں نے ایک گولی ارسال کی تھی، کاغذ میں لپٹی ہوئی۔دشمن کی فوج کے سامنے کھڑے ہو کر وہ سگریٹ پیا کرتے ''آپ کو کبھی خوف محسوس نہ ہوا؟‘‘ سترہ برس کے بعدمیں نے ان سے پوچھا ''کیوں نہیں، کبھی کبھی، کچھ کچھ لیکن اس خوف پہ قابو پانا پڑتا ہے۔ اسی کا نام سپاہ گری ہے‘‘ اسّی کلومیٹر پر پھیلی ان کی خندقوں کے بارے میں امریکی اخبار کرسچین سائنس مانیٹر نے لکھا تھا ''The greatest defence ever built in the human history''جب ان کی رجمنٹ کے افسر ان سے ملنے آتے اور کوئی ذکر کرتا تو احساسِ تشکر کے ساتھ بریگیڈئیر سلطان سر جھکالیتے۔ تکبر کا شائبہ تک اس شخص میں نہیں تھا، 1965ء میں جسے ستارہء جرات ملا اور 1971ء میں بھی ۔یہی نہیں، پہلی بار ایک زندہ افسر کے لیے نشانِ حیدر کی تجویز پیش کی گئی۔ وہ تو دوسری بار ستارہ جرات کے آرزومند بھی نہ تھے۔ انکار کیا لیکن مسترد ہو گیا۔ زخم ان کے دل پہ بہت گہرا تھا۔ انہوں نے لکھا تھا: میں نے اپنی جنگ دھات کے ا س ٹکڑے کی خاطر نہ لڑی تھی، جو میری موت کے بعد دیوار پہ لٹکایا جائے گا۔ اعلیٰ ادب سے بریگیڈئیر کو اُنس تھا۔ لکھتے تو موتی پرودیا کرتے۔ میں پڑھتا تو حیران ہوا کرتا کہ اس آخری معرکتہ الآرا کتاب کے لیے، جو وہ لکھنا چاہتے ہیں، میری مدد کی انہیں کیا ضرورت ہے؟ لس بیلہ میں، جہاں وہ تعینات تھے، 1977ء کے الیکشن میں دھاندلی ہوئی۔ اس پر جی ایچ کیو کے نام ایک خط انہوں نے لکھا۔ 1977ء کا مارشل لا نافذ ہوا تو اہم ترین شخصیات کے علاوہ،پہلے دن ہی دور دراز کے اس فوجی افسر سے بھی رابطہ کیا گیا۔ وہ بہت ناخوش تھے ا ور رنج کے عالم میں انہوں نے استعفیٰ دے ڈالا۔ جنرل محمد ضیاء الحق کے ساتھ ان کی ملاقات کا پس منظر یہی تھا۔ وہ ہمیشہ ایک سپاہی کی زندگی جینے کے آرزومند تھے۔ کیا ہمارے لکھنے والوں نے پاک فوج کے باطن میں جھانکنے کی کبھی زحمت کی ہے؟ کیسا کیسا گوہرِ تابدار ہیروں کی اس کان میں تھا اور اب بھی ہے۔