تخیل کی بلندی تک پھر انسان کی ہر اک پرواز ہوتی ہے محبت جب محمدؐ تک پہنچتی ہے تو سرفراز ہوتی ہے میرے معزز قارئین! آرزوئیں اور خواہشات بھی عجیب ہوتی ہیں بعض اوقات جب یہ محبت مؤدت اور عشق سے جنم لیتی ہیں تو حیرت کے دروا کرتی ہیں۔ بعض اوقات تو انسان جو چاہتا ہے وہ مل جاتا اور جو سوچتا ہے وہ ہو جاتا ہے کوئی غیب ایسا اظہار پاتا ہے کہ دیکھنے والے یکھتے ہی رہ جاتے ہیں۔ انجم سلیمی نے ایک دلچسپ پوسٹ لگائی جس کا عنوان تھا ایک شعر ‘ دو شاعر۔ شعر تھا: حضورؐ مجھ کو تریسٹھ برس کی عمر بہت حضورؐ اس سے زیادہ خلاف سنت ہے نیچے دو نام درج ہیں کوثر علی فیصل آباد اور قاری غلام شبیر ضیا(چنیوٹ) مزید یہ بھی بتایا گیا کہ قاری صاحب تریسٹھ 63برس کی عمر میں فوت ہو گئے۔ البتہ کوثر علی 66چھیاسٹھ سال کی عمر میں بقید حیات ہیں۔ مزے کی بات تو یہ کہ اس پوسٹ میں قاری صاحب کی قبر پر لگا ہوا کتبہ بھی جس پر سنہ کے اعتبار سے لکھا ہے کہ عمر 63سال۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کی دعا بازیاب ہوئی۔ کوئی وقت ہوتا ہے جب دل سے بات نکلی ہے تو پوری ہو جاتی ہے۔ میں نے پوسٹ کے جواب میں لکھا تھا کہ دونوں کی آرزو تو ایک اور نیک ہے۔ قاری ضیاء کی پوری غزل بھی دی گئی ہے دو اشعار دیکھ لیں: حضورؐ آپ کی صورت مری تلاوت ہے حضورؐ آپ کی سیرت مری عبادت ہے حضورؐ حضرت جبریل ؑ کو نہیں معلوم حضورؐ آپ کے قدموں کی کتنی رفعت ہے بات کچھ یوں ہے کہ مندرجہ بالا شعر یقینا ایک شاعرانہ نکتہ آفرینی ہے وگرنہ زندگی اور موت کا معاملہ تو طے ہے اور اللہ کے پاس ہے۔ آپ اس اظہار کو حسن تخیل کہہ لیں۔ ایک نسبت محبت اور تعلق کہہ لیں مجھے احسان دانش مرحوم کا ایک شعر یاد آ گیا: دانش میں خوف مرگ سے مطلق ہوں بے نیاز میں جانتا ہوں موت ہے سنت حضورؐ کی اب یہ استاد کا کہا ہوا شعر ہے جس میں رکھ رکھائو ہے اور حقیقت کے عین مطابق ہے۔ احسان دانش ہی کا ایک شعر جو خاصہ مقبول ہوا اور اس شعر میں کی گئی ان کی پیشین گوئی بھی پوری ہوئی کہ جب ان کے جسد خاکی کو قبر میں اتارا جا رہا تو معروف نعت گو حسرت حسین حسرت نے ان کا یہ شعر بلند آواز پڑھا: مجھے عادت ہے اپنے گھر نماز شام پڑھنے کی مری میت کو دفنانا غروب شام سے پہلے کچھ اس سے ملتی جلتی بات ہمارے دوست محمد علی ظہوری کے ساتھ بھی وابستہ ہے۔ میرے تو وہ پڑوسی تھے اور صبح گلشن اقبال میں ان سے ملاقات رہی محفلوں میں ہم اکٹھے ہوئے ساری کتب ان کی میں نے شائع کروائیں پھر ان کا آخری وقت آن پہنچا جنازے پر ہم بھی گئے۔ انہیں بھی ان کی ایک ایک نعت پڑھتے ہوئے سپرد خاک کیا گیا۔ وہ بھی تو سراسر پیش گوئی یا مقدس آرزو: یہ آرزو نہیں کہ دعائیں ہزار دو پڑھ کر نبیؐ کی نعت لحد میں اتار دو بہت برسوں بعد جب میں سرور حسین نقشبندی کے پروگرام میں بیٹھا یہ واقعہ سنا رہا تھا تو سرور حسین نقشبندی نے میری معلومات میں یہ کہہ کر اضافہ کیا کہ قبر میں ظہوری صاحب کو اتارتے ہوئے جو نعت پڑھی گئی وہ سرور حسین نقشبندی ہی تھا۔ بات تو ساری نیت‘ طلب اور عشق کی ہے کسی کسی کو بازیابی مل جاتی ہے۔ مجھے یاد آیا کہ جہاں تک تریسٹھ برس کی عمرکا معاملہ ہے وہ تو ایک مرتبہ ڈاکٹر طاہر القادری نے بھی اپنے خوابوں کے حوالے سے بیان کیا تھا کہ انہیں ان کی عمر 64برس بتائی گئی تو انہوں نے 63برس کی خواہش کی مگر وہ اب تک حیات ہیں اور ستر سے اوپر ہونگے۔ بعض شعرا نے 63کے ہندسے کی مناسبت سے اپنے شعری مجموعے میں 63نعتیں شامل کیں یہ 92بھی تو حضورؐ کے ابجد سے نکالا گیا ہے اور پاکستان کا کوڈ بھی ہے۔ چلتے چلتے مجھے اپنے دادا حضور حبیب تلونڈی بھی یاد آ گئے کہ ان کی قبر کے کتبے پر تحریر ہے: ہر شعر مرا عشق نبیؐ کا ہے شرارہ ہر نعت مری مسجد نبوی کی اذاں ہے میں نعت کا شاعر ہوں مجھے فخر ہے اس پر بازار سخن میں مری ہیروں کی دکاں ہے یہ دلوں کے معاملات ہیں یہ نصیب کی بات ہے اور یہ عطا کا سلسلہ ہے اگر کوثر علی نے بھی یہی شعر کہا تھا تو ان کا جذبہ قابل ستائش ہے توارد ہو جانا کوئی بڑی بات نہیں۔ قاری ضیا صاحب کی طلب بھی یہی تھی اور ان کی طلب پوری ہو گئی جہاں تک توارد کا تعلق یا بڑے بڑے شاعروں میں موجود ہے مثلاً عزیزہاشمی کا ایک شعر ہم نے برسوں پہلے سن رکھا تھا مگر بعدازاں جون ایلیا کے شعری مجموعے میں وہ شعر دیکھا اس میں مگر جون ایلیا کا کوئی قصور نہیںکہ مجموعہ ان کی وفات کے بعد شائع ہوا۔ شعر یہ ہے: بہت نزدیک آتے جا رہے ہو بچھڑنے کا ارادہ کر لیا کیا اسی طرح ظہیرکاشمیری کا شعر زبان زد خاص و عام ہے: ہمیں خبر ہے کہ ہم ہیں چراغ آخر شب ہمارے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے اس کے برابر میں ایک استاد کا شعر دیکھیں: چراغ آخر شب اس قدر اداس نہ ہو تمہارے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے لیجئے بات سے بات نکل گئی اورکالم تمام ہوا حفیظ تائب کے شعر کے ساتھ اجازت: عجزو نیاز و عشق کے سانچے میں ڈھل کے آ یہ کوچۂ حبیبؐ ہے پلکوں پہ چل کے آ