ہم اردو بولنے والوں کا ایک بڑا المیہ ہے۔ ہم جہاں رہتے ہیں وہاں اکثر نہیں رہتے۔ہم اپنی نفسیات میں مہاجر ہیں۔ یہ ہجرت ہمارے دلوں پہ کسی نہ ختم ہونے والے موسم کی طرح طاری رہتی ہے۔ یہ ہجرت مسلسل ہے ۔ بنگلہ ادب کی آبرو ٹیگور نے لکھا تھا کہ جو پرانے ٹھکانوں کو چھوڑ دینے کا حوصلہ رکھتے ہیں،نئی بستیاں بسانے کی ہمت بھی ان ہی میں ہوتی ہے ۔ ہم نے ایک نئے وطن کو ہجرت کرنے کا حوصلہ کیا۔ یہ آسان کام نہیں تھا۔ کراچی سے لاہور شفٹ ہونا پڑا توا س کا اندازہ ہوا۔وہ شہر جو ایسا بے نیاز تھا کہ عمر گزاردینے کے باوجود عقب سے کوئی آواز نہ آئی کہ ہم بھی جمال احسانی کی طرح کہہ اٹھتے اس رستے پہ پیچھے سے اتنی آوازیں آئیں جمال۔ایک جگہ تو گھوم کے رہ گئی ایڑی سیدھے پاوں کی اگر اس شہر دلربا ،جس نے اپنی آغوش میں خدا جانے کس کس جز وقتی عاشق کو بڑے چائو سے سمولیا تھا، ایسی بے رخی کا مظاہرہ کیا تو قصور اس کا نہ تھا۔ ہم ہجرت مسلسل میں مبتلا اردو بولنے والوں نے اس سے محبت کب کی تھی۔اسے اپنایا ہی کب تھا۔کراچی میں تھے تو اردو بولنے والے بزرگوں کوان اجاڑ بیابانوں کی یادمیں آٹھ آٹھ آنسو بہاتے دیکھا جہاں سے انہوں نے ہجرت کی اور جہاں اب رہنا پڑے تو چودہ طبق روشن ہوجائیں۔ـاپنے ذاتی بزرگوں سے ’’اس سے اچھے تو ہم انگریز کے زمانے میں تھے‘‘ جیسے دل شکن فقرے بھی سنے۔ یہ وہ بزرگ تھے جنہوں نے برٹش آرمی میں پکی نوکری کی۔ وفاداری کی داستانیں رقم کیں اور بدلے میں تقسیم کی ہولناکیوں میں نہ صرف محفوظ رہے بلکہ ہجرت بھی شایان شان کی۔ محفوظ و مامون ہجرت۔ وہ جو اپنا گھر بار لٹا کر آئے وہ بھی ناگپور کے مالٹے، لکھنو میںاولتی سے ٹپکتا بارش کا چھما چھم برستا پانی اور دلی کی اوراق مصور گلیاں اور گلیچے حتی کہ گالم گلوچ تک یاد کر کر کے آہیں بھرتے۔کرانچی جہاں کسی کو گالی دینی تک نہیں آتی۔ ایسے دیتے ہیں جیسے ادھار مانگ رہے ہوں۔پاکستان کوارٹر زکے مہاجر اس دن کو یاد کرکے آہیں بھرتے جب کل کوارٹر جتنا تو ان کا امروہہ میں حویلی کا صحن ہوتا تھا وہ کب اس شہر کے ممنون احسان ہوئے۔نئی بستی میں سبھی لوگ پرانے نکلے۔ ہم جہاں کے تھے کوئی بھی نہ وہاں کا نکلا۔پرانے ٹھکانے چھوڑ کر آنے کا حوصلہ رکھنے والوں نے بلاشبہ مچھیروں کی بستی کلاچی کو میٹروپولیٹن کراچی بنانے کی ہمت دکھائی وہ ہر کسی کے بس کی بات نہیں تھی لیکن اپنے دلوں سے ناسٹلجیا کا آسیب نہ نکال سکے۔ کیا ایک سے بڑھ کر ایک درنایاب تھا کہ کراچی کی گلیوں میں دمکتا پھرتا تھا لیکن ان اجڑے دیاروں کو بھولتا نہیں تھا جنہیں وہ ہجرت کے نام پہ چھوڑ آیا تھا ۔ اسی ناسٹلجیا نے کراچی کو اس محبت سے محروم رکھا جو دوسرے شہروں کے حصے میں آئی۔ ذرا سنئے تو۔نہیں ریساں شہر لہور دیاں۔لہور لہور اے۔داتا کی نگری ۔کیا پیار بھرے نام ہیں جو اہلیان لاہور نے اپنے شہر کو دیئے۔لائل پور کو فیصل آباد کہنے پہ حسن نثار کو تاو آجاتا ہے اور کیا شہد گھل جاتا ہے انوکھے لہجے کے شاعر مقصود وفا کی آواز میں جب وہ مجھ سے اپنے لائل پورکا ذکر کرتا ہے۔کلفٹن کے تین ہزار گز کے گھرمیں لاکھوں کی ڈائننگ ٹیبل کے ہوتے ہوئے پچیس ہزار کے سندھی جھولے پہ بیٹھی سائیں اللہ بخش کی تیسری بیوی کس چائو سے شکار پور کا اچار کھاتی ہے۔ میانوالی ٹرانسپورٹ کی اومنی بسوں میں جو کراچی کے سینے پہ دندناتی پھرتی تھیں، بھارتی گانوں کی ہیجان خیز موسیقی سر چڑھ کر بولتی تھی یا مردان کے ڈرائیور کو یاد ماضی زیادہ ہی ستاتی تھی تو وہ پشتو گانے لگا کر ٹنگ ٹنگور سے دل پشوری کرلیا کرتا تھا۔ اردو گانوں کا مطلب بھارتی گانے ہوتا تھا جنہیں رئیس امروہوی ، ڈاکٹر ابواللیث صدیقی، ابو الخیر کشفی، فرمان فتح پوری، خود کو شاعر آخر الزماں کہنے والا جوش ملیح آبادی،جمیل جالبی، جون ایلیا، مولوی عبدالحق، استاد قمر جلالوی،سحر انصاری، صادقین، شوکت صدیقی، مشفق خواجہ اور زبان پہ بار خدا یہ کس کا نام آیا، مرشدی مشتاق احمد یوسفی سمیت بیسیوں فرزندان زمین کے ہم شہر جھوم جھوم کر سنا کرتے۔اس میں قباحت بھی کوئی نہیں تھی مگر یہیں شہنشاہ غزل مہدی حسن بھی تو تھا جس کے فلمی گانے سننے میں شرعی قباحت کے سوا کچھ مانع تھا تو وہ بس ناسٹلجیا تھا۔کراچی ایسا زرخیز شہر تھا کہ بقول مشہور کالم نویس ابراہیم جلیس کے، کراچی میں فی مربع فٹ ادیب اور شاعر سب سے زیادہ لالوکھیت میں رہتے ہیں۔ اسی لالوکھیت میں صابری برادران، عمر شریف، معین اختر، عظیم محقق اور تاریخ سندھ کے مصنف اعجاز الحق قدوسی جو بے اعتنائی سے ہاتھ پیچھے باندھے گلیوں میں ٹہلتے رہتے اور اسی بے اعتنائی سے لوگ انہیں سلام کرکے گزر جاتے۔ اسی بے اعتنائی سے وہ جہاں سے گزر گئے۔یہیں آنہ لائبریریاں تھیں اور پان والے بھی ابن صفی کے ناول پڑھا کرتے تھے اور استاد قمر جلالوی کی قمر لائبریری بھی یہیں تھی۔صرف سادات امروہہ ہی کے پاس جن کی رہائش زیادہ تر انچولی میں تھی، فخر کرنے کے لئے رئیس امروہوی ، جون ایلیا، محمد نقی کے علاوہ بھی بہت کچھ تھا ۔ اور خدا کی پناہ کیا بے پناہ قسم کا نابغہ تھا یہ رئیس امروہوی۔ہاں مجھے رئیس امروہوی کے ساتھ ہی یاد آیا کہ لالوکھیت میں عامر خان بھی رہا کرتے تھے۔ مہاجر قومی موومنٹ سے روٹھنے والے عامر خان۔ایک عرصہ آفاق احمد کے دست راست رہے پھر ایم کیوایم کی چھتری تلے آگئے۔اور جس دن وہ آئے اس عاجز کا خیال تھا کہ اب کہانی ختم ہونے والی ہے۔شنید ہے کہ شناخت کے حوالے سے حساس ،ہجرت مسلسل کے مارے ہم اردو بولنے والوں کو مہاجر قومیت کا جو جھنجھنا پکڑایا گیا تھا اس میں سر ڈالنے والے رئیس امروہوی تھے ۔ مہاجر شناخت کے نام پہ بننے والی ایم کیو ایم اس راہ پہ چل پڑی جہاں سب سے زیادہ نقصا ن اسی شہر کو ہوا۔ لاشیں اردو بولنے والے اٹھاتے رہے۔دہشت گردی کا لیبل بھی ان ہی پہ لگا۔کون لوگ ہماری پہچان تھے اور کون لوگ ہمارے نمائندے بنے۔کیا ہی اچھا ہوتا اگر یہ نابغے ہمیں اپنی قومیت کی بجائے اپنے شہر سے محبت کا سبق پڑھاتے۔ وہ شہر جس سے کسی نے محبت نہیں کی۔کی تو بقدر ضرورت کی۔وہ شہر جہاں خون کی ندیاں بہتی رہیں ، چودہ سیٹوں کے سودے ہوتے رہے اور آج اسی شہر کے بیٹے فاروق ستار کو کہیں پناہ نہیں مل رہی۔