پاکستان کی سیاسی اور آمرانہ تاریخ کے ہر دور میں وزیروں اور مشیروں کو جھوٹ بولتے ہوئے دیکھتے چلے آئے ہیں لیکن جس ڈھٹائی سے وزیر مملکت شہریار آفریدی نے پریس کانفرنس کی اس کی شاید ماضی میں کوئی نظیر نہ مل سکے، ان کے پاس کہنے کے لئے کچھ تھا اور نہ میڈیا کے کسی سوال کا جواب تھا، لگتا تھا ایک جھنجلایا ہوا شخص صحافیوں کے ہتھے چڑھ گیا ہے، وہ ایک موقع پر ہنسے بھی تو کھسیانی بلی کی طرح دکھائی دیے، لگتا تھا کہ وزیر اعظم سے خوب ڈانٹ پڑی ہے، شہر یار آفریدی اگر سچے ہیں تو انہیں رانا ثناء اللہ کے خلاف منشیات کیس کے مقدمہ کے فیصلے تک مستعفی ہوجانا چاہئے۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ کیس کا فیصلہ آنے تک انہیں رخصت پر بھیج دیا جائے۔ میں رانا ثناء کا وکیل نہیں ہوں، ان کے ماضی کو بڑی حد تک جانتاہوں۔ فیصل آباد میں اپنے مخالفین کے ساتھ وہ جو کچھ کرتے رہے ہیں، ان پر منشیات کیس مکافات عمل ہو سکتا ہے۔ ان کی طاقت کا محور ہمیشہ اقتدار رہا ہے۔ مجھے وہ دن یاد ہے جب بپھرے ہوئے لائل پوریوں نے ان کے گھر کا گھیرائو کر رکھاتھا، کچھ چینلز کے بہادر کیمرہ مینوں نے ان کی گھر موجودگی کی فوٹیج بھی چلا دی تھی اس کے باوجود وہ اپنے بیپرز میں دعوی کر رہے تھے کہ وہ گھر سے باہر ہیں۔ اندر خواتین اور بچے ہیں اور انہیں مظاہرین خوفزدہ کر رہے ہیں۔ رانا صاحب اچھے ہیں یا برے، ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں۔ معاملہ ہے فیصل آباد سے لاہور آتے ہوئے ان کی کار سے پندرہ کلو ہیروئن برآمد ہونے کا، اس برآمدگی کی خبر سامنے آنے پر ہم نے اپنے اسی کالم میں انٹی نارکوٹکس اہلکاروں کی اس مبینہ ’’کارکردگی‘‘ پر کھل کر شبہات کا اظہار کیا تھا، کیونکہ برآمد ہونے والی ہیروئن کوئی،، فلمی ہیروئن،، نہیں تھی، منشیات کی ایک بہت بڑی کھیپ تھی،جس کی بین الاقوامی منڈی میں اربوں روپے قیمت بنتی ہے۔ وفاقی وزیر مملکت نے اے این ایف کے باوردی سربراہ کو ساتھ بٹھا کر مکمل جوش و خروش کے ساتھ پریس کانفرنس کی تھی اور دعوی کیا تھا کہ رانا ثناء اللہ ایک عرصے سے منشیات کی سمگلنگ کا بین الاقوامی ریکٹ چلا رہے تھے اور ایجنسیاں کافی دنوں سے ان کی ریکی کر رہی تھیں، بالآخر انہیں رنگے ہاتھوں منشیات سے بھرے ہوئے نیلے رنگ کے اٹیچی کیس سمیت پکڑ لیا گیا ہے۔ شہر یار آفریدی اور ان کے ماتحت محکمے کے افسروں کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ جب لاہور کے ٹول پلازہ سے نکلنے کے بعد ہیروئن برآمدگی کی کارروائی کی گئی تو اس کی فوٹیج بھی ثبوت کے طور پر بنائی گئی، یہ بھی سچ ہے کہ رانا ثناء کے خلاف اس اقدام سے پہلے وزیر اعظم عمران خان صاحب کو بھی اعتماد میں لیا گیا ہوگا۔ انہیں کوئی الٹی پلٹی کہانی سنائی گئی ہوگی، ورنہ عمران خان،، ڈرامہ،، کھیلنے کی اجازت نہ دیتے۔ دوسری جانب یہ بات بھی بہت بڑی حقیقت ہے کہ منشیات کے کسی ملزم کو رانا ثناء کی طرح ضمانت پر رہا کرنے کی بھی کوئی مثال موجود نہیں ہے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پندرہ کلو ہیروئن کا ملزم رہا کیسے ہو گیا۔ شہر یار آفریدی چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ ہم نے رانا ثناء سے برآمد ہونے والا سارا مواد عدالت میں پیش کر دیا تھا، چیف پراسیکیوٹر کہہ رہے ہیں کہ تئیس جولائی کو تمام شہادتیں عدالت کو دے دی گئی تھیں، ہمارا سوال یہ ہے کہ عدالت میں جو مواد اور شواہد جمع کرائے گئے ان کی تفصیل کیا ہے؟ عدالت میں تو صرف ایک شہادت پیش کرنے کی ضرورت تھی اور وہ شہادت تھی کیمرے کی وہ فوٹیج جو ہیروئن برآمدگی کے وقت بنائی گئی اور جس کا آپ ڈھنڈورا پیٹتے رہے۔ اب شہر یار آفریدی نے میڈیا کو فوٹیج اور ویڈیو کا مطلب سمجھانے لگ گئے ہیں ، اب آپ نے پینترا ہی بدل لیا ہے اور فرما رہے ہیں کہ جن دنوں رانا ثناء کی گاڑی کا پیچھا کیا جاتا تھا اس تعاقب کی فوٹیج بنائی جاتی تھی۔ رانا ثناء کی گرفتاری کے بعد ہمارا ایک سوال یہ بھی تھا کہ ہیروئن فیصل آباد سے لاہور کیوں لائی جا رہی تھی؟ کیا رانا ثناء کے شہر میں ہیروئن تیار کی جاتی ہے؟ اگر فیصل آباد میں ہیروئن کی فیکٹریاں نہیں ہیں تو پھر ملزم یہ تردد کیوں کرتا تھا کہ پہلے کسی دوسرے شہر سے منشیات اس کے شہر میں پہنچائی جاتیں اور پھر وہ ان منشیات کو اپنی ذاتی گاڑی کی پچھلی سیٹ پر رکھ کر لاہور لاتا۔ ملزم کی گاڑی کے پیچھے تو اس کے محافظوں کی تین تین گاڑیاں بھی ہوتی تھیں وہ ان منشیات کو اٹیچی کیس میں بند کرکے تالہ لگاتا اور پچھلی گاڑیوں میں سے کسی ایک میں اپنے کسی ملازم کی تحویل میں دے دیتا، کیونکہ اگر ،، بڑے لوگوں،، کی گاڑیوں کی چیکنگ نہیں ہوتی تو جناب ان بڑے لوگوں کے پیچھے چلنے والے گاڑیوں کے قافلوں کو روکنے کی بھی کسی میں جرأت نہیں ہوتی۔ مجھے اس بات پر بھی دکھ ہے کہ وزیر مملکت نے اس کیس کو مضبوط بنانے کے لئے اور اس کی صداقت کے حق میں کلمہ پڑھ پڑھ کر قسمیں کھائیں، اب الٹ بازیاں لگا رہے ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ رانا ثناء اللہ کو سیاسی طور پر پھنسانے کے لئے اس غیر سیاسی ڈرامے کا اسکرپٹ کس نے اور کس کے کہنے پر لکھا۔ اب اس کیس کے حوالے سے بھی عدلیہ پر حملے شروع کر دیے گئے ہیں جو کوئی نیک شگون نہیں ہے۔ انسداد منشیات کی عدالت کے اگر حکومتی وزراء کی نظر میں ضمانت کا درست فیصلہ نہیں کیا تو یہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو نقصان پہنچا سکتا ہے جبکہ پاکستان پہلے ہی منشیات کی اسمگلنگ کے اب تک ان الزامات کا دھونا بھی نہیں دھو سکا جو ضیاء الحق دور میں اور جنگ افغانستان کے دوران ہم پر لگتے رہے، وہ الزامات محض الزامات ہی نہیں تھے ان میں کچھ درد ناک سچائیاں بھی تھیں جنہیں ہم امریکہ کی شہہ پر بے وقوفانہ انداز میں نظر انداز کرتے رہے۔ وفاقی وزیر مملکت شہر یار آفریدی اور فردوس عاشق اعوان سمیت کئی ذی شعور وزراء کرام نے رانا ثناء کی ضمانت میں ،، ڈیل،، کا تاثر دینے کی کوشش بھی کی ہے جو خود اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔ یہ بھی فرمایا جا رہا ہے کہ ضمانتوں کا موسم ہے اور اسی موسم کے باعث رانا ثناء کو بھی ضمانت مل گئی۔ اس فیصلے کو ماورائے عدالت فیصلہ کہنے والے بھی موجود ہیں۔ حکومتی کارندے ضمانت کے فیصلے کو غلط تصور کرتے ہیں تو اپیل میں جائیں، رونے دھونے سے کیا فائدہ؟ وزیر اعظم کی ٹیم کو یہ تاثر دینے سے احتراز کرنا ہوگا کہ عمران خان انتقام پر یقین رکھتے ہیں۔ میرے خیال میں تو وزیر اعظم انتقام پر نہیں انصاف پر یقین رکھتے ہیں لیکن انہیں اگر اسی طرح مخالفین پر(اپوزیشن) بے تکے مقدمات پر الجھا دیا گیا تو وہی دور زندہ ہوجائے گا جب مخالفین کے خلاف بھینس چوری کا مقدمہ بھی بن جاتا تھا۔ جناب وزیر اعظم کو اپنے نادان مشیروں وزیروں سے بہت احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔ عوام نے آپ کو اپنا قائد چنا ہے اور آپ پر لازم ہے کہ اپنی سوچ اور اپنے قد کے لوگوں کو اپنی ٹیم کا حصہ بنائیں، ورنہ کیا ہے جو آج آپ کے ساتھ ہیں پہلے وہ اوروں کے ساتھ ہوا کرتے تھے اور مستقبل میں اوروں کے ساتھ کھڑے دکھائی دیں گے۔ جناب وزیر اعظم! جاتے جاتے آپ سے ایک اور کام کی بات کرتا چلوں،،،، یہ نیب کا بے دریغ استعمال بھی کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ آپ پہلے خود نیب کو ،، ٹھیک،، کرتے اور پھر اس کے ذریعے اپوزیشن پارٹیوں کی طرف جاتے تو بہتر تھا، آپ کو نیب کے دفتر میں بنچ پر بیٹھے ہوئے نواز شریف کے ان سے بھی زیادہ،، شریف،، بیٹے کی وائرل ہوجانے والی تصویر تو یاد ہوگی؟ بھلا حسین نواز کو مظلوم ثابت کرنے کی یہ کوشش کہاں سے ہوئی ہوگی؟