حیران کن سفر آخرت لاکھوں کا مجمع‘ تاحد نظر لوگ ہی لوگ جو سچے عاشق رسول کے ساتھ محبت اور عقیدت کی ڈور میں بندھے تھے۔ لاہور کی تاریخ بلکہ شاید پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ علامہ خادم رضوی کو نصیب ہوا جو دنیاوی حیثیت سے ماورا ایک سچے عاشق رسول تھے۔ ہر زندگی گزارنے والے کو موت کے پار اترنا ہے۔ جب موت اسے زندگی سے دور لے جاتی ہے تو جانے والے کو جن الفاظ میں یاد کیا جاتا ہے وہ اصل میں اس کے وہ نظریات وہی خواب وہی خواہشیں ہوتی ہیں جن کی آبیاری میں اس نے اپنے جیون کا سونا لٹایا ہوتا ہے۔ہم سب نے اپنی اپنی زندگی میں کسی خواہش و خواب‘ کسی کمٹمنٹ ‘ کسی سوچ اور نظریے کے چاک پر اپنے وجود کی گیلی مٹی رکھی ہوتی ہے اور اس چاک پر گھومتے گھومتے یہ مٹی آخر کار وہی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ کوئی بڑا کاروباری بننا چاہتا ہے‘کوئی ڈاکٹر انجینئر ‘ میڈیا پرسن ‘ لکھاری ‘ شاعر، استاد ‘ صحافی ‘ سیاستدان ‘ وزیر اعظم‘ صدر کچھ بھی ۔کوئی خدمت خلق میں اپنے جیون کو لٹاتا ہے مختصر یہ کہ پوری زندگی کسی خواہش کی تکمیل زندگی کے چاک پر گھومتے گھومتے گزر جاتی ہے کہ موت کا لمحہ آن پہنچتا ہے۔ جس سمے‘ موت اسے زندگی سے جڑی خواہشوں اور خوابوں کے اس چاک سے اتارتی ہے تو اس سمے موت یہ اعلان کرتی ہے کہ وہ کون تھا۔ کیا تھا کس خواب کی جستجو میں اس نے اپنے جیون کا سونا لٹایا‘ بس اسی سمے موت اس کی اصل شناخت کرتی ہے۔ علامہ خادم حسین رضوی کو جب موت نے زندگی کے چاک سے اتارا تو اسے عاشق رسول ﷺ کے نام سے پکارا اور اسی پکار پر لاکھوں عاشقان رسولؐ کا ایک بے کنار سمندر امڈ کر شہر لاہور کی سڑکوں گلیوں اور مینار پاکستان کے سائے میں گریٹر اقبال پارک تک پھیل گیا۔ سیاسی جماعتوں کے جلسوں میں جہاں لوگوں کو ہانک کر لایا جاتا ہے لاکھوں کے ہجوم کے دعوے ہی سنتے تھے لیکن انسانوں کا ایک بے کراں ہجوم آج علامہ خادم حسین رضوی کے سفر آخر میں دیکھا۔ کیا ایسا منظر Orchestrateکہا جا سکتا ہے؟۔ ہرگز نہیں یہ مرتبہ‘ یہ مقام تو اللہ کی طرف جسے ملنا ہوتا ہے اسے ہی ملتا ہے۔ موت کے ہاتھ میں ہی ایک میزان ہوتا ہے کبھی کبھی موت بھی دنیا کے سامنے ایک فیصلہ صادر کرتی ہے کہ مصلحت کوشوں کی دنیا جان لے کہ یہ شخص کون تھا اور یہ سفر آخرت تو ناموسِ رسالت کے بہادر پہرے دار کا تھا۔ علامہ خادم حسین رضوی جو محکمہ اوقاف میں خطیب کی ملازمت کرتے تھے حدیث اور قرآن کے حافظ تھے۔ جوش خطابت بھی سامعین کو مسحور کر دینے والا۔ ہزاروں لاکھوں طالب علم اور عقیدت مند اس وقت بھی تھے جب ابھی پاکستانی سیاست کے منظر نامے پر علامہ خادم رضوی کا نام ایک آندھی اور طوفان کی طرح نہ ابھرا تھا۔ سیاست کی کوچہ گردی کے پیچھے صرف تحفظ ناموس رسالت کا قیمتی جذبہ موجود تھا۔ سیاست میں مختصر ترین وقت میں خادم حسین رضوی کا قومی منظر نامے پر آندھی طوفان کی طرح چھا جانا بھی یاد رہے گا۔ پہلی بار ان کا نام تب سامنے آیا جب ممتاز قادری کی سزا پر عملدرآمد کے بعد حکومت وقت کی انہوں نے کھل کر مخالفت کی۔مولانا خادم حسین رضوی کے سیاسی سفر کا محرک بھی تحفظ ناموس رسالت‘ تحفظ ختم نبوت اور عشق رسول ﷺ ہی رہا۔ نواز شریف حکومت کے خلاف فیض آباد میں پہلا دھرنا بھی اسی حوالے سے تھا۔ جب حکومت وقت نے ایک آئینی ترمیم کے ذریعے ختم نبوت کے قانون سے چھیڑ چھاڑ کرنا چاہی۔مذہبی جماعتوں کے مصلحت اندیش سیاسی رہنمائوں میں سے کون تھا جس نے صدائے احتجاج اس طرح بلند کی۔ روایتی مذمت تو ہر مسلمان نے کی ہو گی مگر عملی اور ٹھوس جدوجہد کرنے والا تو ایک ہی شخص تھا۔ پھر وقت نے دیکھا کہ جب دین اسلام میں نقب لگانے والوں نے عشق رسولؐ پر ضرب لگانے کی کوشش کی وہ ایک شخص اپنی سپاہ عشق لے کر میدان میں اتر آیا۔ اس کی سپاہ عشق اس کی جرات رندانہ تھی۔ جس بلند آہنگ لہجے سے وہ مقتدر قوتوں کو للکارتا تھا۔وہ بس اسی کا خاصا تھا۔ فرانس کے ملعون صدر کی طرف سے مسلسل رحمت للعالمینؐ کی شان میں گستاخی ہو رہی تھی اور ہم صرف مذمتی بیانات سے آگے جانے کی سکت ہی نہیں رکھتے۔ بنیادی اور اہم احتجاج یہ تھا کہ فرانس کے سفیر کو بطور احتجاج ملک بدر کر دیا جائے ہم مصلحت کوش اور سمجھوتے کرنے والے ہیں مگر خادم رضوی مصلحت کوش نہ تھا۔ اس کی زندگی کا اول و آخر عشق ہی ناموس رسولؐ تھا۔ احتجاجاً ایک بار پھر فیض آباد میں دھرنا دیا۔ قریبی احباب بتاتے ہیں کہ بیماری اور بخار کی کیفیت میں کھلے آسمان تلے بیٹھے رہنے سے گریز نہیں۔ سیاسی لیڈروں کے برعکس جن کے پیروکار تو سڑکوں جلسوں دھرنوں اور ریلیوں میں رلتے ہیں جبکہ خود وہ محفوظ پناہ گاہوں میں بیٹھے رہتے ہیں ۔بس موقع محل دیکھ کر کبھی کبھی اپنی جھلک دکھاتے رہتے ہیں۔رضو ی صاحب کی اقبال سے عقیدت بھی مثالی تھی۔دوران خطابت اقبال کے اشعار جس طرح ان کی شعلہ نوائی کا حصہ بنتے ایک سماں بندھ جاتا۔ اقبال نے جو عشق کا تصور پیش کیا علامہ خادم حسین رضوی اس تصور عشق کی مجسم صورت تھے: عقل و دل و نگاہ کا مرشد اولین ہے عشق عشق نہ ہو تو شرع و دیں بت کدۂ تصورات عشق کا جذبہ مادیت اور دنیاوی اسباب سے بے نیاز ہوتا ہے۔ جرات رندانہ عشق ہی کا اثاثہ ہے ۔جس جرات رندانہ اور دنیاوی سودوزیاں سے ماورا ہو کر وہ دین اسلام میں نقب لگانے والوں کو للکارتے تھے یہ عشق ہی کا اثاثہ تھا ۔سو خادم حسین رضوی تو ایک ہی تھا۔ ورنہ تو اقتدار کی گلیوں کے درو یوزہ گر‘ مصلحت کوش مذہبی رہنمائوں کا ایک ہجوم ہمارے آس پاس موجود ہے: بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی!!