اس وقت پاکستان کے بائیس کروڑ عوام ،وزیرِ اعظم عمران خان اور مذہبی علماء و قیادت کے رحم وکرم پر ہیں۔گذشتہ روز ہفتہ کی صبح جب یہ سطور لکھی جارہی تھیں ،اُس وقت تک دُنیا بھر میں کورونا وائرس کے مصدقہ مریضوں کی تعداد تینتیس لاکھ سے اُوپر ہوچکی تھی اور مرنے والوں کی تعداد دولاکھ اَڑتیس ہزار سے تجاوز کرچکی تھی۔امریکا میں ایک ہی دِن میں اَٹھارہ سوتراسی افراد موت کے منہ میں جانے سے وہاں مریضوں کی کل تعداد گیارہ لاکھ ہوچکی تھی اور چونسٹھ ہزار سے زائدافراد لقمۂ اَجل بن چکے تھے۔پاکستان میں اَٹھارہ ہزار سات سو اکیس مصدقہ کیس تھے اور جاں بحق ہونے والوں کی تعداد چارسوسترہ ہو چکی تھی۔چھبیس فروری دوہزار بیس کو کراچی میں کورونا سے متاثرہ پہلے شخص کی تشخیص ہوئی تھی ،تب سے دومئی تک ملک بھر میں یہ وائرس پھیل چکاہے۔اُسی روز اسلام آباد میں مزید بائیس افراد میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی اور قبل ازیں آئی ٹین سیکٹر کی بعض اسٹریٹ سیل کردی گئی تھیں۔ جبکہ جمعرات کے روز اسپیکر قومی اسمبلی اسدقیصر،اُن کی بیٹی اور بیٹے میں کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی،اُسی دِن گوجر خان کی چوبیس برس کی ڈاکٹر رابعہ سمیت اَٹھارہ افراد کی اموات ہوئیں،قبل ازیں سندھ کے گورنر عمران اسماعیل کورونا وائرس کے مرض میں مبتلا ہو چکے تھے۔اس ساری صورتِ حال کے باوجود وزیرِ اعظم عمران خان کہتے ہیں کہ لاک ڈائون اشرافیہ کی گھبراہٹ کی بدولت کیا گیا۔جمعرات ہی کے روز وزیرِ اعظم عمران خان نے ا س طرح کے خیالات کا اظہار کیا’’ملک میں شرح اموات ہمارے خدشات سے کم ہے، خدشہ تھا کہ انتہائی نگہداشت یونٹس بھر جائیں گے ،لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا،مودی اتنا ڈرپوک نکلا کہ کورونا کی وجہ سے پورا ملک بند کردیا‘‘ وزیرِ اعظم عمران خان کے نزدیک لاک ڈائون کا فیصلہ اشرافیہ کی وجہ سے کیا گیا کہ اُنہیں ڈرتھا کہ وہ کورونا کی لپیٹ میں آجائیں گے۔چونکہ مَیں کورونا سے نہیں ڈرتا ،اس لیے لاک ڈائون کی مخالفت کرتا ہوں۔یہ بھی کہ مودی کی طرح ڈرپوک نہیں ہوں کہ کورونا سے خوف کھا کر پورا ملک بند کربیٹھتا۔مَیں ایک عام آدمی ،وزیرِ اعظم صاحب سے یہ پوچھنے کی جسارت کرسکتا ہوں کہ دُنیا کے جن ممالک نے لاک ڈائون کا فیصلہ کیا اور سختی سے اس پر کاربند بھی رہے ،وہاں اشرافیہ کی گھبراہٹ سے ایسا کیا گیا؟وزیرِ اعلیٰ عثمان بزدار ، وزیرِ اعلیٰ محمود خان نے لاک ڈائون کا فیصلہ کیا ،یہ اشرافیہ میں آتے ہیں؟آپ نے ہمیں بتایا تھا کہ عثمان بزدار کے گھر میں تو بجلی تک نہیں ،اب یہ اشرافیہ کے نمائندہ کیسے ٹھہر چکے؟آپ کے دواہم ساتھی اسد قیصر اور عمران اسماعیل کورونا وائرس میں مبتلا ہو چکے ،ہم اس کو آپ کی لاک ڈائون کی مخالفت پر مبنی پالیسی کا نتیجہ سمجھیں؟دُنیا بھر میں کسی ملک کے سربراہ نے لاک ڈائون کی مخالفت کی ؟کبھی آپ لاک ڈائون کی مخالفت کرتے ہیں ،کبھی جزوی لاک ڈائون اور سمارٹ لاک ڈائون کی بات کرتے ہیں اور پھر ای سی سی کے اجلاس میں لاک ڈائون میں نومئی تک کی توسیع کا فیصلہ کرتے ہیں اور آپ کا وفاقی وزیر اس کا علان کرتا ہے،اس طرح کی تذبذب پر مبنی پالیسی دُنیا کے کسی دوسرے رہنما نے بھی اپنائی؟آپ کورونا سے جس طبقے کی ملازمتیںچلی گئیں ،کی مدد کرنے کے لیے ایک روپیہ اُ س’’ اشرافیہ‘‘ سے مانگ رہے ہیں ،جس نے لاک ڈائون کروا کر ،مزدور کی ملازمت چھینی؟آپ اُن سے ایک روپیہ مدد لینے کی بجائے ،ہمیں چارروپے ہی دے دیں۔ وزیرِ اعظم صاحب !آپ کی حکومت نے لگ بھگ ایک ماہ قبل سپریم کورٹ میں رپورٹ جمع کروائی تھی ،جس میں یہ خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ اپریل کے آخر تک پاکستان میں کورونا کے مریضوں کی تعداد بیس ہزار سے زیادہ تک پہنچ سکتی ہے؟کیا یہ بیس ہزار لوگ،جو وفاقی حکومت نے بتائے تھے یا موجودہ اَٹھارہ ہزار سات سو اکیس مصدقہ کیس،سب کے سب اشرافیہ کے ہیں؟تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان کے بائیس کروڑ عوام ،وزیرِ اعظم عمران خان اور مذہبی علماء و قیادت کے رحم وکرم پر ہیں۔آپ کورونا بیماری کے پھیلائو یا عدم پھیلائو کے لیے مذہبی قیادت کے ساتھ بیٹھ کر ایس اوپیز تو تیار کرتے ہیں،لیکن ڈاکٹروں کے انتباہ کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ایسا کیوں؟اس لیے کہ یہ مذہبی طبقہ ،طاقت ور ہے اور ہمیشہ حکومتی فیصلوں پر اثرانداز ہوتا آیا ہے،جبکہ ڈاکٹر ز حضرات تو محض ایک پریس کانفرنس ہی کرسکتے ہیں۔آپ مذہبی طبقہ سے خوف زَدہ ہو کر غریب عوام،جن کا دُکھ آپ کو ’’کھائے‘‘جارہا ہے ،کو خطرے کی دلدل کی اُور دھکیل چکے ہیں۔ایک غیر سرکاری تنظیم کے مطابق اَسی فیصد مساجد میں حکومت اور مذہبی علماء کے مابین بیس نکاتی ایجنڈے پر عمل نہیں ہورہا۔آپ کے طرف دار ،جو کہ ہزاروں ،لاکھوں اور کروڑوں میں ہیں ،کہتے ہیں کہ آپ کی نیت صاف ہے۔آپ کے منتخب کردہ وزیرِ اعلیٰ عثمان بزدار بھی کہتے ہیں کہ ’’ہماری نیت نیک اور جذبے بلند ہیں،کورونا سے نمٹ لیںگے‘‘کسی وبا ء یا بحران پر قابو پانے کے لیے نیک نیت اور بلند جذبے ہونا کافی ہیں؟یا یونی فارم پالیسی اور ویژن کی بھی ضرورت پڑسکتی ہے؟ وزیرِ اعظم صاحب!کورونا وبا کے اِن دِنوں میں آپ نے غریب اور دیہاڑی دار کا بہت تذکرہ کیا ہے۔آپ نے جب سے حکومت سنبھالی ہے ، اس طبقے کے لیے ٹھوس بنیادوں پر کن اقتصادی پروگراموں کی نیو ڈالی ہے؟پچاس لاکھ گھر،کروڑوں نوکریوں کے منصوبوں کا کیا ہوا؟نوجوان طبقہ کو لاکھوں قرض دے کر اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کا منصوبہ کہاں تک پہنچا؟آپ نے اس قوم کو کتنا دیا اور چندے کی مَد میں کتنا لیا؟آپ تو کہتے تھے کہ آپ اس قوم کو دلدل سے نکالنے اور کچھ دینے آئے ہیں۔وزیرِ اعظم صاحب!اس ملک کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہاں اشرافیہ کے تمام طبقات کے افراد نے مجموعی طورپر اپنی طبعی زندگی جی ہے،تاآنکہ کوئی حادثہ پیش نہ آیا ہو ،جب کہ عام آدمی ،ایسی بیماریوں سے تڑپ تڑپ کر مرا ہے ،جس کا علاج گلی محلے کے عام پریکٹیشنر کے پاس بھی تھا،رات کو پیٹ میں درداُٹھتا ،صبح دَم معلوم پڑتا کہ بندہ مرچکا ہے۔ آپ مذہبی علماء سے کہہ کر دیکھیں کہ وہ ایس اوپیز پر عمل کروائیں ،پھر حکومت کی رِٹ کا جائزہ لیں۔آپ کو پتا چلے گا کہ حکومتی رِٹ کب کی خودکشی کرچکی ہے ۔