ایک دوست مجھ سے کہنے لگے: ’’ذرا جٹ کی تعریف کریں!!‘‘ عرض کیا: ’’ہوش کے ناخن لو!‘‘ بولے: ’’آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے، میری مراد Definition والی تعریف سے تھی۔‘‘ پھر عرض کیا: ’’معافی چاہتا ہوں، جٹ کی وہ والی تعریف بھی مشکل ہے!!‘‘ ’’کیا مطلب؟‘‘ ’’مطلب یہ کہ جس کی تعریف متعین کرنے کی کسی کو آج تک جرأت ہی نہیں ہوئی۔ آپ خود ہی فیصلہ کریں کہ جس لفظ کے ساتھ ’ وحشی‘ یا ’ کھڑاک‘ جیسے سابقے، لاحقے لگائے بغیر اس کا پروٹوکول مکمل نہ ہوتا ہو، اور جو لفظ، لغت سے زیادہ جگت میں استعمال ہوتا ہو، ا س کی Definition متعین کرنے کی حماقت کون کرے گا ؟‘‘ ـ’’ پھر بھی کوئی حدود اربعہ تو ہوگا؟‘‘ ’’آپ یوں سمجھ لیں کہ یہ تھوڑا تھوڑا اکھڑ، تھوڑا لائی لگ، تھوڑا مونچھ مروڑ، تھورا ہُوڑ مت، تھوڑا نوری نت، تھوڑا شیخ چلی، تھوڑا چلی ملی، ذرا کم تھوڑا درویش ہوتا ہے۔اگر کسی میں یہ ساری خوبیاں موجود نہ ہوں تو وہ سیاست دان ہو سکتا ہے، دکان دار ہو سکتا ہے، سرکاری ملازم ہو سکتا ہے، مزاح نگار ہو سکتا ہے، جعلی پیر ہو سکتا ہے، جٹ نہیں ہو سکتا۔‘‘ ’’ یہ بڑا مشکل سا فارمولا بتا دیا آپ نے!!‘‘ ’’سیدھا اور آسان فارمولا تو یہ ہے کہ بیس فیصد پٹھان میں پچیس فیصدسِکھ، تیس فیصد شیخ چِلی اور حسبِ ذائقہ و توفیق اکڑ، حماقت اور غیر ذمہ داری ملا کر اچھی طرح ہلا لیں تو اس سے بھی اچھا خاصا جٹ تیار ہو جاتا ہے۔‘‘ ’’مَیں نے تو سنا ہے آپ بھی جٹ ہیں؟‘‘ انھوں نے اچانک سوال داغا۔ ’’ جی بالکل ٹھیک سنا ہے، طویل عرصے تک مَیں بھی اس مرض میں مبتلا رہا، جب بہت ساری دواؤں، دعاؤں، نسخوں، ٹوٹکوں، تعویذوں، یہاں تک کہ تعلیم، تدریس، تصنیف سے بھی کچھ افاقہ نہ ہوا تو ڈاکٹروں، حکیموں نے کہا: ’اینوں لہور لے جاؤ‘ چنانچہ کئی سال سے یہی نسخہ استعمال کر رہا ہوں، اب کافی آرام ہے۔‘‘ انھوں نے تفتیش کا سلسلہ مزید جاری رکھتے ہوئے اپنا منھ میرے کان کے قریب اور پھر عنقریب کرتے ہوئے انتہائی رازدارانہ بلکہ خدشے اور اندیشے والے انداز میںسرگوشی کی: ’’بعض لوگ بتاتے ہیں، اپنے فیض صاحب بھی جٹ تھے!!!‘‘ عرض کیا: ’’ان کی زندگی سے ایم اے عربی، نیاز مندانِ لاہور، لینن ایوارڈ اور اچھے خاصے فیض امن میلہ کو ’فیض فیسٹیول‘ قرار دے کے، اس میں دھما چوکڑی مچانے، فیض کی شاعری کو اُردو کے بجائے رومن رسم الخط میں پڑھ کے، فیض کی عظمت و شہرت کو پَیشن کی بجائے فیشن کی پُڑیوں میں بیچنے والے لمڈے لپاڈے نکال دیے جائیں توپیچھے ہنستا کھیلتا کاہلوں جٹ باقی رہ جاتا ہے۔‘‘ فرمانے لگے: ’’ اس طرح تو بہت سی خواتین بھی ان کی زندگی سے الگ کرنا پڑیں گی۔‘‘ گزارش کی :’’ اول تو خواتین کے معاملے میں جٹ زیادہ باریک حساب کتاب کے قائل نہیں ہوتے،اور دوسرا ہم نے اس کو ایک مشکل ٹاسک سمجھ کے چھوڑ دیا ہے۔‘‘ ’’مشکل ٹاسک؟ مَیں سمجھا نہیں!!‘‘ پہلے تو انھیں سمجھانے کے لیے ہم نے کرنل محمد خاں کا واقعہ سنایا کہ جب وہ ’’بجنگ آمد‘‘ اور ’’ بسلامت روی‘‘کا دوسرا ایڈیشن چھاپنے لگے تو سید ضمیر جعفری سے کسی تبدیلی یا ردو بدل کی بابت مشورہ طلب کیا۔ جعفری صاحب نے فرمایا: ’’میاں اور تو سب ٹھیک ہے لیکن اگر ان کتب میں قطار اندر قطار در آنے والی طرح دار بلکہ غیر شرع دار میموں کی تعداد میں کچھ کمی کر سکو تو ہم جیسے محروم النسا لوگوں پر احسان ہوگا۔‘‘ کرنل صاحب نے برجستہ کہا… مَیں نے بارہا کوشش کر دیکھی ہے، جس دوشیزہ کو بھی کتاب بدر کرنے کا ارادہ کرتا ہوں وہ شور بہت مچاتی ہے… اس لیے بھائی میرے مَیں نے فیض صاحب کی زندگی کے نسوانی شعبے بلکہ سلسلے پہ بھی طائرانہ و سرسرانہ نظر ڈالنے کے بعد ہی اس شِق کو ڈراپ کرنے کا فیصلہ کیا تھا… مجھ سے فیصلہ نہیں ہو پا رہا تھاکہ مَیں نارووال کے قریبی گاؤں کالا قادر سے چِٹا چولا پہن کر اور سات سیپارے حِفظ کر کے شاعرِ مشرق کے تتبع میں مرے کالج کی دہلیز پہ آ بیٹھنے والے سلطان فاطمہ اور چودھری سلطان محمد خاں کاہلوں جٹ ایڈووکیٹ کے سولہ سال کے مشترکہ لاڈلے فیض احمد کی زندگی میں در آنے والی معصوم سیالکوٹی دوشیزہ ،سعادت کی بات کروں، جس نے فیض کی زندگی میں شاعری کی جوت جگائی اور جس کے وصال پر پنجابی جٹ کے اندر شاعری کی دیوی نے یوں انگڑائی لی: اَج رات اِک رات دی رات جی کے اساں جگ ہزاراں جی لِتا اے اَج رات امرت دے جام وانگوں ایناں ہتھاں نے یار نوں پی لِتا اے لیکن پھر کچھ ہی عرصے بعد دو بیویوں اور کثیراولاد والے خوشحال باپ اور پہلی محبوبہ کے ایک ساتھ داغِ مفارقت دے جانے کے بعد ، اسی الہڑ حسینہ کے فراق نے ان سے ’تنہائی‘ جیسی شاہکار نظم لکھوائی۔ وہ نظم ، جسے کئی زمانوں بعد لندن میں مقیم اُن کے ایک پرستار نے پڑھنے پر فیض کو مشورہ دیا تھا کہ :’’ نظم اچھی ہے مگر سنسان بہت ہے،اس میں تنہائی ایسے محسوس ہوتی ہے جیسے لندن میں سردی، یعنی لگتی ہے تو لگتی ہی چلی جاتی ہے۔ کم از کم ایک لائن میں تو محبوبہ کو ڈالیے۔‘‘ اس واقعے کے راوی بتاتے ہیں کہ جب اُن صاحب کا اصرار بڑھا تو فیض صاحب چائے کی چسکی، ایک سریلی سی سسکی کے ساتھ لیتے ہوئے اپنے روایتی ڈھیلے ڈھالے انداز میں بولے: ’’ ہاں، بھئی ی ی!!! اگلے ایڈیشن میں ڈال دیں گے…‘‘ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ فیض صاحب کی اس اولیں محبوبہ کی شادی ایک امیر کبیر سرکس کے مالک سے ہو گئی لیکن اس پہلے عشق کی ’سعادت‘ فیض کو عمر بھر حاصل رہی۔ کیونکہ اس بات سے تو سب آگاہ ہیں کہ: ایں سعادت بزورِ بازو نیست اپنے حکیم جی فرماتے ہیں کہ فیض صاحب کے بے شمار مدّاحین ، جنھیں فیض صاحب کی ایک محبوبہ کے بھائی ’فیض صاحب کے پنکھے‘ کہا کرتے تھے، کو اگر آج بھی یہ تلخ حقیقت معلوم ہو جائے کہ ان کے محبوب ترین شاعر کی اُردو دنیا میں دھوم مچا دینے والی خوب صورت ترین اور انوکھے موضوع والی نظم ’رقیب سے‘ کے یہ دل فریب اشعار: ؎ تو نے دیکھی ہے وہ پیشانی ، وہ رخسار ، وہ ہونٹ زندگی جن کے تصور میں لُٹا دی ہم نے تجھ پہ اُٹھی ہیں وہ کھوئی ہوئی ساحر آنکھیں تجھ کو معلوم ہے کیوں عمر گنوا دی ہم نے! مس سعادت کے اسی سرکس والے ساہوکار شوہر کو مخاطب کر کے کہے گئے تھے، تو ان کا کم از کم آدھا عشق تو پلک جھپکتے میں ہوا ہو جائے گا!!! (جاری ہے)