خورشید احمد ندیم سے ملاقات سے قبل ہی میں ان سے واقف تھا۔ کچھ تو ٹیلی وژن کے پروگراموں کے حوالے سے اور کچھ ان کے کالموں کی وجہ سے۔ ان کی شخصیت کا بہت عمدہ تاثر میرے قلب و ذہن پہ مرتسم تھا۔ پھر ان سے ملاقات ڈاکٹر شکیل اوج کے توسط سے ہوئی۔ میں نے انہیں ایک سنجیدہ باوقار لیکن شگفتہ مزاج پایا۔ جو لوگ سنجیدہ مزاج ہوں‘ ساتھ ہی علم سے گہرا لگائو‘ بالعموم ان کی شخصیت میں ایک قسم کی پیوست اور خشکی سی پائی جاتی ہے۔ اپنی ذات کی بابت حساسیت سی ہوتی ہے۔ کوئی فقرہ چست کرے تو بدمزہ سے ہو جاتے ہیں۔ میں نے خورشید احمد ندیم میں ایسی کوئی بات نہیں دیکھی سنجیدگی اور وقار اپنی جگہ لیکن زندہ دل اور کشادہ قلب۔ پھر تو یوں ہوا کہ ان سے مراسم رفتہ رفتہ اس نہج پر آ گئے کہ وہ کراچی جب بھی تشریف لاتے میں اطلاع ملنے پر ممکن نہیں تھا کہ ملاقات کے لئے نہ جائوں اور میرا چکر کبھی اسلام آباد کا لگے تو وہ نہایت اہتمام سے ملنے کے لئے تشریف لاتے۔ ان سے طبیعت ملتی تھی اور مل کر جی خوش ہوتا ہے۔ ان کی کوئی تحریر خواہ وہ مضمون ہو یا کالم۔ جب بھی کبھی ملے توجہ سے پڑھتا ہوں۔ وجہ اسی کے سوا کوئی اور نہیں کہ وہ جب بھی لکھنے کے لئے قلم اٹھاتے ہیں کوئی نہ کوئی نئی بات ضرور کرتے ہیں۔ اب یہ نئی بات کا معاملہ کچھ ایسا ہے کہ دانش وروں نے جب سے سوچنا چھوڑا ہے اور چبے چبائے نوالوں کو چبانے کے عادی ہوئے ہیں‘ لکھنے پڑھنے کے کاموں میں عجیب بے برکتی سی آ گئی ہے۔ اکثر لکھنے والوں کا معاملہ یہ ہے کہ ان کی چند تحریروں سے اگر آپ کو آشنائی ہے اور آپ ان کے خیالات سے واقف ہیں تو کسی موضوع پر بھی ان کی تحریر پڑھنے یا گفتگو سننے سے پہلے ہی آپ کو یہ اندازہ کرنا دشوار نہ ہو گا کہ وہ کیا کہیں گے اور زیر بحث موضوع پر کیا لکھیں گے ۔ہر موضوع اور مسئلے پر طے شدہ خیالات‘ اسی کی تکرار ملتی ہے۔ خورشید احمد ندیم کا معاملہ دوسروں سے الگ ہے۔ وہ سنجیدہ موضوع پر پیش پا افتادہ خیالات کی جگالی نہیں کرتے۔کوئی نہ کوئی بات ایسی ضرور کرتے یں جس میں نیا پن ہوتا ہے پھر ان کے نقطہ نظر میں اعتدال‘ توازن اور ایک ذرا دھیما پن ہوتا ہے جو ان کے شخصی مزاج کا حصہ ہے۔ ادھر جب سے ان کے کالموں کا تازہ مجموعہ’’متبادل بیانیہ‘‘ میرے زیر مطالعہ آیا ہے۔ اس مجموعے کو پڑھتے ہوئے میرے مطالعے کی رفتار اس اندیشے سے سست پڑ گئی ہے کہ مجموعہ ختم نہ ہو جائے۔ آج کی چیختی چنگھاڑتی صحافت میں ان کے کالم اپنے بہائو میں اس رواں ندی کی طرح جو آہستہ آہستہ بہتی ہے اور جسے بہتا دیکھ کر آنکھیں روشن اور قلب کشادہ ہوتا ہے۔ ان کے کالموں کی اس کتاب میں جو چیز سب سے زیادہ متاثر کرتی ہے وہ ان کا اسلوب تحریر ہے۔ بات کہنے کا ڈھنگ ہے۔ وہ سخت سے سخت بات بھی اتنے سلیقے اور تہذیب و شائستگی سے کہتے ہیں کہ پڑھنے والا اتفاق نہ بھی کرے تو ان کی خوش کلامی سے متاثر ضرور ہوتا ہے۔ متبادل بیانیہ چار سو چونتیس صفحوں پر مشتمل ایسی کتاب سے جس میں ان کے ایک سو پانچ کالموں کا انتخاب جمع کر دیا گیا ہے۔ ان کثیر کالموں کے موضوعات ہمارے مذہب‘ سماج اور ریاست سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہر چند کہ ان کے بیشتر موضوعات اخبارات کی خبروں ہی سے لئے گئے ہیں اور کیوں نہ لئے جائیں کہ کالم اخباری موضوعات ہی پر لکھے جاتے ہیں لیکن خورشید احمد ندیم کے لکھنے کا انداز صحافتی نہیں علمی ہے۔اس لئے بھی کہ خورشید احمد ندیم مزاجاً اخبار نویس نہیں ‘ایک دانشور ہیں اور اخباری ایشوز اور مسائل کو بھی وہ اپنے کالموں میں علمی انداز میں برتتے ہیں۔ پھر جب وہ تجزیہ کرتے ہیں تو اسلوب تجزیے کا ایسا ہوتا ہے کہ وہ کالم کو ایک مستقل قدر بنا دیتا ہے۔ سرسید احمد خاں کے بیشتر مقالات جنہیں مولوی اسماعیل پانی پتی نے بیس بائیس جلدوں میں مرتب کر کے شائع کیا ہے۔ دراصل ’’تہذیب الاخلاق‘‘ میں چھپے تھے اور زندگی کا کون سا موضوع اور پہلو ایسا ہے‘ جسے سرسید نے موضوع بحث نہ بنایا ہو۔ خورشید احمد ندیم بنیادی طور پر معتدل مزاج ہیں‘ اس لئے ان کے کالموں میں ہمیں عصبیت‘ تنگ نظری اور انتہا پسندی کے خلاف ایک شدید ردعمل نظر آتا ہے لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ ردعمل شدید ہونے کے باوجود لائوڈ نہیں ہوتا۔ دھیما پن ان کے مزاج کا حصہ ہے اس لئے ان کی شدت میں حدت تو ہوتی ہے لیکن ایسی جذباتیت نہیں ہوتی جس سے ان کا اظہار خیال متاثر ہو کر اسے نعرہ مستانہ بنا دے۔ ’’متبادل بیانیہ‘‘ میں بھی بہت سے موضوعات وقتی اور عارضی نوعیت کے ہیں لیکن اپنے تجزیے میں خورشید ندیم موضوع کو اسی انداز میں برتتے ہیں کہ ان کے خیالات کی قدرو قیمت مستقل اہمیت کی حامل ہو جاتی ہے۔ وہ فرقہ پرستی‘ مذہبی عصبیت‘ سیاسی نعرے بازی کے خلاف ہیں اور چاہتے ہیں کہ اپنے پڑھنے والوں میں انتہا پسندی اور جذباتیت کو تحلیل کر کے انہیں سوچنے ‘سمجھنے اور غورو فکر کر کے کسی معاملے کی تہہ تک پہنچنے کا عادی بنا دیں۔ میں نے انہیں جب کتاب کے عنوان کی بابت اپنے تحفظات سے آگاہ کیا کہ یہ بہت ثقیل عنوان ہے ‘ کیا ہی اچھا ہوتا کہ کتاب کا عنوان اور سادہ ہوتا تو انہوں نے نہایت صاف گوئی سے جواب دیا کہ اصل میں یہ کتاب اخبار کے عام قاری کے لئے بھی نہیں۔ یہ کتاب ان پڑھنے والوں کے لئے ہے جو سنجیدہ موضوعات پر کچھ پڑھنا چاہتے ہوں۔ یہ بات ٹھیک ہے۔ ہمارے اردو قارئین میں سے اکثر سے مسئلہ یہ ہے کہ وہ سنجیدہ تحریریں پڑھنے کا مذاق نہیں رکھتے۔ چلتی ہوئی تحریریں ہی ان کے مزاج سے لگا کھاتی ہیں۔ جبکہ خورشید احمد ندیم بالعموم بہت سوچ سمجھ کر قلم اٹھاتے ہیں کبھی پڑھنے والے کے سامنے کوئی سوال رکھتے ہیں اور کبھی مسئلے کے کسی ایسے پہلو کو سامنے لاتے ہیں کہ پڑھنے والا سوچنے پر مجبور ہو جائے۔ ان کی تحریروں میں شخصیات بھی زیر بحث آتی ہیں اور ایسی شخصیات بھی جن سے انہیں اختلاف ہوتا ہے‘ ایسی تنظیمیں بھی جن کے طریقہ کار سے انہیں اتفاق نہیں ہوتا لیکن یہ اختلاف انہیں ایسی شخصیات اور ایسی تنظیموں کی خدمات اور ان کی کارکردگی کو سراہنے سے روکتا نہیں۔ انہیں جہاں بھی کوئی بات قابل تعریف نظر آتی ہے اور جہاں بھی کسی کا دفاع کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے‘ وہ اپنا فریضہ ادا کرنے سے چوکتے نہیں ہیں۔ انہیں اس بات کا دکھ ہے کہ ہم نے مذہب کو اپنے مزاج کے زیر اثر اسے بابرکت نہیں رہنے دیا وہیں اپنے انتہا پسندانہ نقطہ نظر سے اپنے معاشرے کو معاملات کو کھیل تماشا بنا دیا ہے۔خورشید احمد ندیم کے کالموں کا یہ انتخاب ہر اس شخص کو زیر مطالعہ لانا چاہیے جو پاکستانی معاشرے اور اس کی خرابیوں کو سمجھنا چاہتا ہو۔ ان لوگوں کے لئے بھی یہ کتاب مفید ہے جو جاننا چاہتے ہیں کہ ہم اپنے معاشرے کو کسی طرح ایک بہتر معاشرہ بنا سکتے ہیں۔ وہ کون سے تضادات ہیں جو فسادات بن چکے ہیں اور اس سماج کو گھن کی طرح اندر ہی اندر چاٹتے جا رہے ہیں۔ ’’متبادل بیانیہ‘‘ ایک سنجیدہ اور سلجھی ہوئی فکر کو پیش کرتی ہے اور یہ ہمیں بتاتی ہے کہ آج بھی ہمارا معاشرہ پوری طرح بانجھ نہیں ہوا۔ ہمارے درمیان آج بھی خورشید احمد ندیم جیسے دانش ور کالم نگار موجود ہیں جو اپنی تجزیاتی فکر سے امید کا دیا جلائے ہوئے ہیں۔