کسی کی یاد کا دل میں چراغ جلتا ہے عجیب شدت غم ہے کہ داغ جلتا ہے نہ روکو مجھ کو مجھے آنکھ بھر کے رونے دو وگرنہ شعلہ دل سے دماغ جلتا ہے سب کیفیت کی بات ہے اور موڈ کی۔ مگر اس کا دارو مدار تو آپ کے اردگرد کے ماحول سے ہے۔ سوچ بچار تو تنہائیوں کے سودے ہیں کہ جس میں خوفناک سناٹا بھی ہے یہ تو حساس دل اور فکر مند ذہن کی باتیں ہیں جو آپ کو رولاتی ہیں یا کم از کم موسم ملال میں رکھتی ہیں۔ شیخ سعدی نے بھی فرمایا تھا کہ ہنسنا کھیلنا دوستوں کے لئے چھوڑ دے۔شاید یہ اس لئے کہ زندگی ایک سنجیدہ عمل کا نام ہے۔ مگر یہ زندگی ہے کتنی کہ میر نے کہا ہے کہ میں نے گل کو ہے کتنا ثبات۔ کلی نے یہ سن کر تبسم کیا۔ کبھی انسان سوچتا تو ہے ناں!چند لمحے جو ملے مجھ کو ترے نام کے تھے سچ تو یہ ہے کہ یہ لمحے مرے کام کے تھے۔ مگر کیا کیا جائے کہ تفکر کی دنیا میں یوں بھی ہو جاتا ہے کہ یکسر منظر بدل جاتا ہے ایسے کہ جیسے کوئی برگد کے نیچے گدھے باندھ دے۔ برگد تو اپنی بزرگی میں ایک عظمت رکھتا ہے کہ اسے صوفیا اور درویشوں کا پیڑ کہا جاتا ہے کہ جیسے وہ بھی کسی دھیان گیان میں ہے۔ ویسے میں گدھوں کے بندھنے پر بھی پریشان نہیں کہ وہ بھی ایک معصوم سی مخلوق ہے اور پھر اس مشقتی مخلوق کا اپنے اوپر کچھ اختیار بھی تو نہیں۔ صاحبان دانش تو اسے محنت یعنی لیبر کا استعارا سمجھتے ہیں کہ لیبر پارٹی اس کا ثبوت ہے۔ ہمارے ہاں تو گدھے کو صرف کمہار کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے۔ کوئی گدھے گر جائے تو وہ بھی غصہ کمہار پر ہی نکالتا ہے۔ میرے معزز قارئین! آپ حیران ہو رہے ہونگے کہ میں آج گدھوں کا ذکر لے کر کیوں بیٹھ گیا۔ اصل میں آج کی تازہ خبر ہی ایسی تھی کہ پاکستان گدھوں میں خودکفیل ہو گیا ہے اس پر میں نے ایک ٹی وی پروگرام بھی دیکھ لیا جس میں ایک معروف اینکر فواد چودھری سے پوچھ رہا ہے کہ آخر کیا ہوا کہ موجودہ حکومت کے دو سالوں میں ملک میں گدھوں کی نسل میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے وہ گفتگو پرلطف تھی کہ اس میں ن لیگ کے کوئی سیاستدان بھی تھے اور پیپلز پارٹی کے بھی،مگر سوال فواد چودھری سے ہوا۔ ان کے بقول پچھلے ایک سال میں ایک لاکھ گدھوں کا اضافہ ہوا اور اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ اس حکومت میں گدھوں کو ذبح ہونے اور بکنے سے بچایا گیا۔ ظاہر اس بات کو سمجھنا ہرگز دشوار نہیں کہ پہلے دور میں گدھے کھائے اور کھلائے گئے۔ سینکڑوں گدھوں کی کھالیں پکڑی گئیں۔ تب کافی گدھے چین سے بھی درآمد کئے گئے۔اس پرائم ٹائم پروگرام میں جو کہ گدھوں پر مشتمل تھا۔ کئی دلچسپ پہلو بھی سامنے آئے کہ اگر اس حکومت میں گدھے بڑھ گئے ہیں تو اس پہ یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ پچھلی حکومتوں میں گدھے نہیں تھے۔ یہ بھی بات درست تھی کہ گدھوں کی تعداد کا بڑھنا ایک قدرتی عمل ہے۔ دوسرے جانور بھی تو بڑھے ہیں۔ مثلاً بھینسیں 12لاکھ اور بھیڑیں 3لاکھ بڑھی ہیں۔ لیکن سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ گدھے ہی کیوں نوٹس میں آئے۔ اچانک مجھے ایک دلچسپ واقعہ یاد آ گیا جس کا تعلق بھی گدھوں سے ہے۔ ایک روز علی الصبح میں کسی کو سٹیشن پر چھوڑ کر واپس آ رہا تھا تو چیئرنگ کراس کے قریب سے گزرتے ہوئے مجھے قریب ہی کچھ گدھے نظر آئے جن پر سے ایک شخص مٹی ان لوڈ کر رہا تھا۔ ظاہر ہے دن کے وقت تو یہاں ایسا نہیں ہو سکتا تھا۔ عجیب یہ ہوا کہ اس دوران کوئی پٹاخہ سا چلا کہ شاید کسی گاڑی کا ٹائر پھٹ گیا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے گدھے ڈر کر ادھر ادھر بھاگنے لگے۔ دو تین گدھے گورنر ہائوس کی طرف نکل گئے‘ کچھ اسمبلی ہال کی طرف اور ایک دو مال روڈ پر آن کھڑے ہوئے۔ ٹریفک کم تھی مگر گاڑیاں رکنے لگیں۔ ظاہر وہ انتظار کر رہے تھے کون گاڑی سے نکل کر گدھے کو کہتا کہ بھائی جان ذرا سائیڈ پر ہو جائو۔ بس ایک دلچسپ منظر تھا۔ گدھے والا بے بس کبھی ادھر بھاگتا اور کبھی ادھر۔ گدھوں کو کنٹرول کرنا آسان بھی تو نہیں۔ بھاگنے پر آئیں تو یہ بھی پورس کے ہاتھیوں کی طرح ہوتے ہیں۔ جو بھی ہو گدھوں کے ساتھ ہمارا رویہ تعصب کا ہے وگرنہ گدھے اور گھوڑے میں تمیز کرنا جیسا محاورہ ہم نہ بناتے۔ بہرحال گھوڑوں کی افادیت سے انکار نہیں مگر گدھوں کی شان کم کرنے کی کیا ضرورت ہے کبھی کبھی ہم پیار میں بھی کسی کو کہہ دیتے ہیں۔، گدھا کہیں کا اور پھر لطیفے بھی زیادہ تر ملا نصیر الدین اور گدھے کے ہیں۔ مشہور ہے کہ کوئی ملا سے گدھا مانگنے آیا تو ملا نے کہا کہ کوئی لے کر گیا ہوا ہے۔ اتنے میں اندر سے گدھے کی ڈھیچوں و چیخوں کی آواز آئی۔ گدھا مانگنے والے نے کہا کہ ملا آپ اتنا جھوٹ بولتے ہیں ملا نے غصے میں کہا اب تو میں کسی صورت بھی تمہیں گدھا نہیں دوں گا کہ تمہیں میری بات پر اعتبار نہیں آیا اور تم نے گدھے پر اعتبار کر لیا۔ وہ پرائم پروگرام ویسے تھا خوب کہ اس میں یہ بھی پوچھا گیا کہ پچھلے دو سالوں میں جو ایک لاکھ گدھے سرپلس ہوئے ہیں‘ ان سے کیا فائدہ اٹھایا گیا۔یعنی ان سے کیا کام لیا گیا۔ ویسے یہ سوال بنتا نہیں کہ گدھے بے چارے نے تو وزن ہی ڈھونا ہے یا ریڑھی کے آگے۔ ویسے یہ بھی تو کسی عام آدھی نے نہیں کہا کہ گدھا گدھا ہی رہتا ہے چاہے مکے سے گھوم آئے اور یہ بھی کہ اس پر جتنی مرضی کتابیں لاد دی جائیں۔ وہ عالم نہیں بن سکتا۔ ویسے عالم بھی تو اتنا بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔ سنا یہی ہے کہ گدھے کا بچہ بہت خوبصورت ہوتا ہے مگر پھر وہ پورا گدھا بن جاتا ہے۔ ایک بات بہت پتے کی ہے کہ یہ پیغمبروں کی سواری رہی ہے کہ یہ عجز کی نشانی ہے۔ دوسرا یہ کہ اگر دیانتداری سے دیکھا جائے تو وہ محنت کا نشان ہے۔ مگر کیا کریں کہ ہمارے ہاں کام کرنے والے کو کمی سمجھا جاتا ہے۔ وہ لیبر کلاس میں آتا ہے تو ظاہر ہے سرمایہ داری نظام میں اس کی کیا قدر ہوئی۔ استعمار تو استعمار ہے اب دیکھیے ہارس ٹریڈنگ محاورہ ہوا ڈنکی ٹریڈنگ نہیں۔ وہ بے چارے تو بکے بکائے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ گھوڑوں کا تعلق سیاست اور گدھوں کا تعلق عوام سے ہے۔ لیکن کچھ اسمبلی میں پہنچ جاتے ہیں۔ گھوڑے اور گدھے اکٹھے نہیں ہو سکتے مگر دونوں اکٹھے ہو جائیں تو خچر برآمد ہوتا ہے جو طاقت میں بے پناہ ہے اور گھوڑے سے بھی مہنگا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس موضوع کو یہیں چھوڑ دیا جائے بہرحال گدھوں کی نسل کوبچانا ازحد ضروری ہے اس امر میں موجودہ حکومت کامیاب ہے کہ ایک لاکھ گدھے بڑھ چکے اور یہ بات کارکردگی سے بھی ظاہر ہے دوتازہ ترین شعر: نفرتیں بوئیں نفرتیں کاٹیں اب سکون اور قرار ختم ہوا جھلملاتے ہوئے ستاروں میں آنسوئوں کا شمار ختم ہوا