خبر آئی ہے کہ زندہ دلانِ لاہور چھ ماہ تک کچھوئوں کا کڑاہی گوشت کھاتے رہے اور انہیں کانوں کان بلکہ پیٹوں پیٹ خبر نہ ہوئی۔ یہ خبر پڑھ کر ہمیں اپنے دوست بٹ صاحب یاد آئے لکشمی چوک کے قریب رہتے ہیں۔ وہ پیدل چلنے ، باتیں کرنے اور کھانے پینے میں بہت تیزی دکھاتے ہیں۔ اکثر باتیں کرتے ہوئے ساتھیوں سے آگے نکل جاتے ہیں۔ لوگ انہیں اکیلے باتیں کرتے دیکھ کر حیرا ن ہوتے ہیں اچانک انہیں احساس ہوتا ہے کہ ساتھی تو بہت پیچھے رہ گئے ، چنانچہ اتنی ہی تیزی سے واپس آتے ہیں۔ شاہد شیدائی کا کہنا ہے کہ بٹ صاحب کی یہ تیزی کڑاہی گوشت اور کباب کھانے کی وجہ سے ہے۔ مذکورہ خبر پڑھ کر ہمیں شرارت سوجھی اور ہم نے بٹ صاحب کو فون کیا ۔’’بٹ صاحب ! ہم دوستوں نے فیصلہ کیا ہے کہ آج آپ سے لکشمی چوک میں کڑاہی گوشت کھایا جائے۔‘‘ ’’ بسم اللہ ۔ ضرور ضرور۔ شام کو گھر آجائیں۔‘‘’’ لیکن بٹ صاحب! سنا ہے کہ چند ماہ سے لکشمی چوک کی کڑاہی گوشت کا پہلا سا مزہ نہیں رہا۔ ‘‘’’ یہ کس بے وقوف نے کہہ دیا آپ لوگوں سے ! جیسا کڑاہی گوشت آج کل ملتا ہے زندگی میں پہلے کبھی نہیں کھایا تھا۔ پہلے ایک آدھ ناغہ ہو جاتا تھا لیکن اب تو کڑاہی گوشت کی ایسی چاٹ لگی ہے کہ کھائے بغیر نیند ہی نہیں آتی۔ کھا کر ایسا نشہ طاری ہوتا ہے کہ چلنا مشکل ہو جاتا ہے۔‘‘’’ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں! آپ تو بہت تیز چلنے والے ہیں‘‘ ہم نے کہا۔ ’’ تیز تو اب بھی بہت چلتا ہوں لیکن پہلے جیسی بات نہیں رہی۔‘‘ ’’یہ آپ خرگوش سے کچھوے کب بن گئے ؟ کہیں ایسا تو نہیں کڑاہی گوشت میں کچھوے کا گوشت استعمال ہوتا ہو؟‘‘ ہم نے ڈرتے ڈرتے کہا۔ ــ’’ لا حول ولا قوۃ۔ یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ ! مذاق بھی ڈھنگ کا ہونا چاہیے۔ جو منہ میں آئے یونہی نہیں بول دینا چاہئے ‘‘ بٹ صاحب نے شکایتاً کہا۔ ’’ اگر میری بات سن کر آپ کی دل شکنی یا شکم شکنی ہوئی تو معافی چاہتا ہوں لیکن میں نے یہ بات اپنے تجربے کی روشنی میں کہی ہے۔‘‘ ’’ کیا مطلب؟ کیا تجربہ؟‘‘ ’’ یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں کراچی میں رہتا تھا۔ گھر کے پاس ایک معمولی سا ہوٹل تھا، غریب نواز ہوٹل ۔ اس ہوٹل کی آلو انڈے کی ڈش بہت مشہور تھی۔ میں پاس ہی رہتا تھا۔ مجھے آلو انڈے کی ایسی چاٹ لگی کہ یہ ڈش رات کے کھانے کا لازمی جزو بن گئی ۔ جس نشے کی آپ نے ابھی بات کی، ویسا ہی نشہ مجھے بھی محسوس ہوتا تھا۔ کھانا کھانے کے بعد اٹھنے کو جی نہیں چاہتا تھا۔ بڑی مشکل سے کچھوے کی چال چل کر گھر پہنچتا تھا۔ ‘‘ ــ’’ آپ بات ذرا مختصر کریں۔ میں نے ابھی ناشتہ بھی نہیں کیا۔‘‘ ’’ اوہ! ویری سوری! قصّہ مختصر ایک روز انکشاف ہوا کہ غریب نواز ہوٹل میں مرغی کے انڈوں کی بجائے کچھوے کے انڈے استعمال ہوتے ہیں۔ ‘‘ ’’ ہائیں ! واقعی؟ ‘‘ بٹ صاحب نے حیرانی سے کہا۔ ’’ جی ہاں بٹ صاحب۔ بالکل سچ عرض کر رہا ہوں۔ پولیس نے اطلاع ملنے پر چھاپہ مارا اور بہت سے انڈے قبضے میں کر لئے ۔ اتفاق سے میں بھی وہاں موجود تھا۔ ایک انڈہ میں نے بھی قبضے میں کر لیا ۔گھر پہنچ کر میں نے انڈے کا بغور معائنہ کیا ۔‘‘ ’’ میں کھانے والی چیز کو دیکھا نہیں کرتا ‘‘ بٹ صاحب نے کہا۔ ’’ کوئی بات نہیں ۔آج ہی آپ کو پتہ چل جائے گا کہ چیز کو کھانے سے پہلے بغور دیکھ لینا چاہئے ‘‘ ہم نے کہا۔ ’’ یار یہ آج صبح ہی صبح تم کیا اوٹ پٹانگ باتیں کر رہے ہو؟‘‘ ’’ آپ ناشتہ یہیں منگو الیں۔ میری بات ذرا لمبی ہو جائے گی۔ خیر تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ میں نے اس انڈے کو بغور دیکھا۔ اگرچہ دیکھنے میں مرغی کا انڈہ لگتا تھا لیکن دونوں سروں سے بالکل ایک جیسا تھا۔ جب کہ مرغی کا انڈہ ایک طرف سے نوکیلا اوردوسری طرف سے قدرے چپٹا ہوتا ہے۔ دوسری بات میں نے یہ نوٹ کی یہ انڈہ بالکل ملائم تھا جبکہ مرغی کے انڈے کے خول پر PORES یعنی مسام ہوتے ہیں۔‘‘’’ ہاں یہ مسام اس لئے ہوتے ہیں کہ مرغی کے انڈے میں جب بچہ بنے تو اس کا پسینہ باہر آسکے۔‘‘’’ یہ تو خیر آپ مذاق کر رہے ہیں ۔ بہر حال آگے سُنیے۔میں نے ہمت سے کام لیتے ہوئے اس انڈے کو توڑا تو ایک اور خوفناک حقیقت سامنے آئی۔ وہ یہ کہ اس انڈے کی زردی ، مرغی کے اندے کی زردی سے کافی چھوٹی تھی‘‘ ہم نے کہا۔’’ پھر تو دل کے مریضوں کو یہی انڈہ کھاناچاہیے۔ اس میں کولیسٹرول بہت کم ہوتے ہوں گے۔‘‘ ’’ آج آپ کی حس مزاح بار بار پھڑک رہی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ کچھوے میں مزاح کی حس کافی مقدار میں پائی جاتی ہے؟‘‘ ’’ آپ مجھے کچھوا کہہ رہے ہیں؟‘‘ بٹ صاحب نے احتجاج کیا۔ ’’ نہیں بٹ صاحب نہیں ۔ میں ایسی گستاخی نہیں کر سکتا۔ میری بات کا مطلب آپ کو تب سمجھ آئے گاجب آپ آج کا اخبار پڑھیں گے۔‘‘ ’’ یار کیا بجھارتیں بھجوا رہے ہیں آپ؟ کیا لکھا ہے اخبار میں؟‘‘ ’’ آپ آج کے اخبار کا صفحہ اول دیکھ لیں۔ اچھا خدا حافظ‘‘ ’’ وہ تو میں دیکھ لیتا ہوں ۔یہ بتائیں کہ شام کو آرہے ہیں نا آپ لوگ؟‘‘ ’’ آپ اخبار پڑھ کر مجھے فون کر دیجئے گا۔ شاہد شیدائی ، سلیم اور میں آجائیں گے۔‘‘’’ ٹھیک ہے‘‘ بٹ صاحب سے فارغ ہو کر میں نے شاہد صاحب کو فون کیا۔ پتہ چلا کہ ان کی طبیعت خراب ہے۔ ’’ کیا ہوا شاہد صاحب ‘‘ ہم نے پوچھا۔’’ آپ نے وہ کچھوے والی خبر پڑھی ہے؟ ‘‘ انہوںنے پوچھا۔’’ جی ہاں پڑھی ہے‘‘ ہم نے کہا۔ــ ’’ بس یار یہ خبر پڑھ کر جی الٹنے لگا ہے۔ یہ جو بٹ ہے نا اس کی دوستی لے ڈوبے گی۔ دو تین با ر اس نے اصرار کر کے لکشمی چوک کا کڑاہی گوشت کھلادیاتھا۔ بس تب سے طبیعت بوجھل ہو رہی ہے۔ ‘‘’’ چھوڑیں شاہد صاحب ۔ وہ کڑاہی گوشت اب خدا جانے کہا ں پہنچ چکا ہوگا۔‘‘’’ پھر بھی یار اندازہ لگائیں ،ہم لا علمی میں کچھوے کا گوشت کھاتے رہے ہیں۔‘‘’’ اللہ جانے ہم لا علمی میں کیا کیا کھا لیتے ہیں۔ اگر روزانہ جوہڑ کے پانی کا ناشتہ کر کے آپ کی طبیعت خراب نہیں ہوتی تو اب کیوں ہو رہی ہے۔ کچھوے بھی تو جوہڑ کے باسی ہوتے ہیں۔‘‘’’ کیا جوہڑ کا پانی ؟‘‘ ’’ یہ جو آپ چائے پیتے ہیں اس میں دودھ ملا ہوتا ہے اور دودھ میں جوہڑ کا پانی ملا ہوتا ہے۔ ‘‘ ہم نے کہا۔ ’’ ایسی باتیں کر کے آپ مجھے مزید بیمار کر دیں گے۔‘‘ شاہد صاحب بولے : ’’ میرا مقصد آپ کو بیمار کرنا نہیں ہے۔ میں تو یہ کہتا ہوں کہ جو چیز سامنے آئے خاموشی سے کھا لیا کریں۔ اس کے ماخذ کے بارے میں پریشان نہ ہوا کریں ورنہ آپ کچھ نہ کھا سکیں گے اور بھوکے ہی اس دنیا سے رُخصت ہو جائیں گے۔‘‘ ’’ میری طبیعت زیادہ خراب ہو رہی ہے۔ اچھا پھر بات کریں گے۔‘‘ یہ کہہ کر شاہد صاحب نے فون بند کر دیا۔