افسانہ نگار خالدہ حسین سے جو جمعے کی صبح اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں، صرف ایک ہی ملاقات ہو سکی۔ وہ بھی ان دنوں جب وہ کراچی میں تھیں اور پی ایف فائونڈیشن کالج میں پڑھاتی تھیں۔ ان دنوں میں روزنامہ جسارت سے وابستہ تھا اور اس کے ادبی صفحے کے لیے ادیبوں کے انٹرویو کیا کرتا تھا۔ خالدہ حسین کے افسانوں کی کتاب پہچان چھپ چکی تھی اور اس کی کئی کہانیوں نے مجھے اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔ خصوصاً ان کی کہانی ’’ایک بوند لہو کی‘‘ جس میں انہوں نے غم سے بے حس ہوجانے والے ایک نوعمر کردار کی داخلی کیفیات کو موضوع بنایا تھا۔ ’’پہچان‘‘ کی کہانیوں نے مجھے مجبور کیا کہ میں ان کا بھی انٹرویو کروں۔ فون پر انہوں نے بلاتامل اپنے کالج میں ملاقات کا وقت دے دیا۔ کالج پہنچ کر اور فیکلٹی کے دیگر اساتذہ سے مل کر مجھے اندازہ ہوا کہ خالدہ حسین اپنی فیکلٹی میں بہت ہر دلعزیز و مقبول ہیں۔ جب ان سے گفتگو ہوئی تو وہ مجھے بہت سلجھی ہوئی اور کچھ الجھی ہوئی خاتون لگیں۔ انہوں نے بہت سلیقے سے میرے سوالوں کے جواب دیئے۔ یہ ایک بہت اچھا انٹرویو تھا جو میرے انٹرویوز کی کتاب ’’یہ صورت گر کچھ خوابوں میں‘‘ شامل ہے اور نئے افسانے و نئے ادب کی تفہیم میں بہت مدد کرتا ہے۔ پھر جلد ہی ان کے میاں کا تبادلہ اسلام آباد ہو گیا اور خالدہ کراچی سے ایسی سدھاریں کہ دوبارہ ملاقات کی نوبت نہ آ سکی اور اب تو وہ دنیا ہی سے جا چکی ہیں۔ لہٰذا پھر آئندہ کبھی ملاقات کے تمام امکانات معدوم ہو چکے ہیں۔ خالدہ حسین، انتظار حسین اور قرۃ العین حیدر کی فوراً بعد کی ادیبوں کی نسل میں شامل تھیں جنہوں نے 1960ء میں لکھنے کی ابتدا کی اور اپنی ابتدائی کہانیوں سے توجہ کا مرکز بن گئی تھیں۔ ان دنوں وہ خالدہ اصغر کے نام سے لکھتی تھیں اور ان کا اولین افسانہ ’’دل دریا‘‘ ’’ادب لطیف‘‘ میں چھپا تھا۔ دو برس بعد ان کا افسانہ ’’مُنی‘‘ ایڈیٹر ناصر کاظمی نے اس نوٹ کے ساتھ شائع کیا کہ یہ غیر روایتی افسانہ ہے اور تنہا روحوں کی کتھا ہے۔ خالدہ لکھتی گئیں اور اردو افسانے کی دنیا میں ان کا مقام تیزی سے بنتا گیا لیکن پھر وہی حادثہ ہوا جو اکثر ہمارے معاشرے کی باصلاحیت اور تخلیقی ذہن رکھنے والی خواتین کے ساتھ ہوتا ہے کہ ان کی شادی ہو گئی اور یوں بارہ تیرہ برسوں کے لیے افسانہ نگاری میں وقفہ آ گیا۔ یعنی ابھی یہ تخلیقی کلی پوری طرح پھول بننے بھی نہ پائی تھی کہ مرجھا گئی۔ ادبی فضا سے وہ وقتی طور پر غائب تو ہو گئیں لیکن اپنے نہایت اچھے افسانوں کے سبب ان کا نام پڑھنے و الوں کے حافظے سے محو نہ ہوا۔ انہوں نے 1962ء سے 1965ء تک خوب لکھا تھا اور بہت اچھا لکھا تھا۔ ’’ہزار پایہ‘‘، ’’سواری‘‘ اور ’’آخری سمت‘‘ ایسے افسانے تھے جن کی فضا دھندلی دھندلی، نامانوس اور کچھ کچھ آشنا سے کردار، کہانیاں داخلیت لیے لیکن معنویت کے ابلاغ اور احساسات کے ساتھ۔ ان کی کہانیاں نیم علامتی تھی لیکن اتنی مبہم ہرگز نہ ہوتی تھیں کہ معنی کا ابلاغ ہی نہ ہوتا ہو۔ 1965ء میں ان پر خاموشی کا جو طویل وقفہ آیا وہ 1979ء میں جا کے بحال ہوا۔ اسی برس ان کا افسانہ ’’آدھی عورت‘‘ خالدہ حسین کے ساتھ منظر عام پر آیا۔ افسانے کا عنوان کچھ عجب نہیں کہ ان کی تیرہ برس کی خاموشی کا ترجمان ہو۔ پھر ان کا قلم جو رواں ہوا تو وہ رواں ہی رہا۔ ان کے افسانوں کے مجموعے دروازہ، معروف عورت، ہیں خواب میں نیوز، میں یہاں ہوں، ناول کاغذی گھاٹ وغیرہ شائع ہوئے۔ مجموعہ ان کی تحریروں کی کلیات بھی منظر عام پر آئی جس میں ان کی جملہ کتابیں شامل تھیں۔ خالدہ حسین نے ٹیلی وژن کے ڈراموں کی طرف بھی توجہ کی اور اس طرف بھی آ کر خوب لکھا۔ لیکن اسے بدقسمتی کہیے کہ انہیں وہ شہرت اور مقبولیت نہ مل سکی جو ان سے سینئر ادیبوں مثلاً قرۃ العین حیدر، بانو قدسیہ اور انتظار حسین کو ملی۔ شہرت و مقبولیت کا ملنا ہر چند کہ کوئی معیار تو نہیں لیکن نہ ملنے کا قلق بھی بہرطور ادیب کے اندر پیدا ہو جانا کوئی تعجب خیز امر نہیں۔ خالدہ حسین کوئی مجلسی خاتون نہیں تھیں۔ ان سے مل کر پہلی ملاقات ہی میں اندازہ ہوا کہ وہ اپنی داخلیت میں گم رہنے والی ادیبہ ہیں۔ ہر چند کہ خوش مزاج بھی تھیں اور ایک سوچنے والی خاتون کی حیثیت سے انہوں نے ہر مسئلے پر کھل کر اظہار خیال کیا لیکن وہ اپنی زندگی سے کچھ مطمئن نہیں تھیں۔ ایک لکھنے والے کو جتنی آزادی ملنی چاہیے۔ وہ کچھ کرنے اور کچھ سونے کے لیے جتنی آزادی کا طلب ہوتا ہے، وہ نہ ملے تو اندر گھٹن کا پیدا ہو جانا فطری امر ہے۔جب میں نے ان سے پوچھا کہ ایک افسانہ نگار کے لیے کیا یہ ضروری ہے کہ وہ عام طریقے سے زندگی گزارنے کے بجائے ایک افسانہ نگار کے طور پر زندگی بسر کرے۔ یہ سوال کرتے ہوئے میرے ذہن میں منٹو کا ماڈل تھا جس نے زندگی میں بھی افسانہ نگار کا رویہ برتا جس کے نتیجے میں اسے کتنی ہی صعوبتیں جھیلنی پڑیں۔ خالدہ حسین نے جواب میں کہا کہ آپ نے میری بہت دکھتی ہوئی رگ چھیڑی ہے۔ ایک خاتون لکھنے والی کی شخصیت اور معاشرے میں ایک فرد کی حیثیت سے اس کی شخصیت میں ہمیشہ تصادم رہتا ہے۔ میری سمجھ میں کبھی نہیں آیا کہ کیا ایک لکھنے والی محض لکھنے والی ہے؟ یا وہ معاشرے کی ذمہ دار فرد بھی ہے، ایک ہائوس وائف بھی ہے؟ یا یہ سب تصورات ہیں جو زندگی کو توڑ پھوڑ دیتے ہیں۔ ایسی عورت کے کردار کو ایک عنوان ملنا چاہیے۔ میں سوچتی ہوں مجھے لکھنے والی ہونا چاہیے یا نہیں۔ کیا میں معاشرے کی ذمہ دار بن جائوں اور خوش اسلوبی سے اپنے فرائض ادا کروں کیا ایک رائٹر کو بہت سی چیزیں چھوڑ دینی چاہئیں، لکھنے کو ہر چیز پر ترجیح دینی چاہیے؟ ان سارے تضادات سے سوالات سے مجھے مسلسل اذیت ہوتی ہے۔ شاید افسانہ لکھا بھی اس وقت جاتا ہے جب یہ تضاد اپنی انتہا کو پہنچ جاتا ہے۔ کم از کم میں اسی اذیت کی وجہ سے لکھتی ہوں۔ اب سوچتا ہوں تو مجھے یوں لگتا ہے کہ خالدہ حسین اپنی داخلی زندگی میں اسی تضاد سے الجھی رہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں عورت فی الواقع مظلوم ہے۔ وہ ادیبہ ہو کر بھی مکمل ادیبہ نہیں رہ پاتی۔ وہ سنگر ہو کر بھی کل وقتی مغنہ نہیں ہو سکتی، اسے اپنے شوق اور فن کو اپنی ذمہ داریوں پر اکثر اوقات قربان کرنا پڑتا ہے۔ خالدہ حسین میں بہت امکانات (Potencial) تھے۔ کیا پتہ کہ اگر عین عروج کی طرف جاتے ہوئے افسانوی دنیا میں انہیں رشتہ ازدواج میں نہ بندھنا پڑتا تو وہ کچھ زیادہ کچھ اور اچھا لکھ پاتیں لیکن کیا معلوم کہ ان کے نصیب میں اتنا ہی اور اسی قدر لکھنا مقدر تھا۔ ہر لکھنے والا قلم اور اپنی تقدیر لے کر دنیا میں آتا ہے اور اتنی ہی کامیابیاں اسے ملتی ہیں، جتنا کاتب تقدیر نے اس کے حصے میں درج کردیا ہوتا ہے۔ اس تعبیر کے علاوہ کوئی اور چیز انسان کے قبضہ قدرت میں نہیں جس سے وہ اپنے دل کو تسلی دے سکے۔ خالدہ حسین نے جتنا لکھا، ہم اسی سے ان کی صلاحیت اور محنت کو داد دے سکیں گے اور دیتے رہیں گے۔