سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی یہ تصویر اگرچہ خلاف القیاس ہے اور دیکھنے سے چنداں تعلق نہیں رکھتی ہے لیکن اس کے نیچے کیپشن میں لکھے گئے جملے نے اس کو ملین ڈالر کی تصویر بنادیا ہے ۔گوکہ مزاحیہ تصاویر میں یہ پہلی تصویر ہے جسے میں نے دیکھتے ہی پہلی فرصت میںنہ صرف اپنے فون کی گیلری میں اپنے لئے محفوظ کرلیا بلکہ بے شماردوستوں کوبھی دکھا چکا ہوں ۔ تصویر میں ایک سفید لاغر بکری بڑی تکلیف میں کھڑی دکھائی دیتی ہے اورنیچے سے چمٹ کر ایک لمبی تڑنگی گائے اس بیچاری کا دودھ چوس رہی ہے ۔اب اس تصویر کے نیچھ لکھا گیا جملہ ملاحظہ کرلیجیے " بائیس گریڈ کا آفیسر بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سے فائدہ اٹھاتے ہوئیــ ــ‘‘۔ تصویر پر کمال کاجملہ کسنے والے نے شاید اتنا گہراغور نہیں کیا ہو جتنا یہ غور کرنے کی متقاضی ہے۔بکری اور گائے کی یہ تصویر ہمیں پیغام دے رہی ہے کہ اس معاشرے میں نہ صرف کمزور اور طاقتورہنوز موجود ہیں بلکہ طاقتور کی طرف سے کمزور کی حق تلفی بھی پوری آب و تاب کے ساتھ بھی جاری ہے۔قارئین یقین کرلیں جب سے میں نے اس تصویر کو دیکھاہے تب سے ایک نہ ایک دن ضرور اس معاشرے میںمیرے سامنے ایسا موقع آتا ہے جس کے اوپر میں بکری اور گائے کی اس تصویر کو منطبق کرلیتا ہوں۔ سب سے پہلے ہم اسی بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کولیتے ہیں جو مذکورہ بکری اور گائے کی تصویرکا اصل محور ہے۔یاد رہے کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا آغاز پاکستان پیپلز پارٹی نے بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد اپنے پچھلے دور حکومت (2008-2013 ئ)میں غریب اور پسماندہ طبقے خصوصاً عورتوں کو مالی مدد فراہم کرنے کیلئے کیاتھا۔یہ پروگرام پاکستان مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں بھی جاری رہا جسے پچھلے سال احساس پروگرام کے نام سے موسوم کردیاگیا۔یہ پروگرام ان غریب اور مفلوک الحال خاندانوں کی معیشت سنوارنے کا ایک ادنی ترین ذریعہ ہے جس کے تحت حکومت کی طرف سے لگ بھگ باون لاکھ مستحق افراد کوہردومہینے کے بعد دوہزارروپے(جواب بڑھادی گئی ہے) کی رقم ملتی تھی۔پروگرام کا آغاز جب ہوا تو اس فہرست میں ایسی لاکھوں خواتین نے بھی اپنا نام درج کروایا جن پر شرعی نکتہ نظر سے غریب یا مسکین کا اطلاق ہوتاتھا نہ ہی عقل سلیم اور اخلاقیات انہیں غریب تسلیم کرتی تھی۔اس پروگرام سے دس سال تک ایسی خواتین بھی مستفید ہوتی رہیں جن کا نہ صرف شوہر ملازم تھا بلکہ بیٹوں اور بیٹیوں کو بھی اللہ تعالی نے ملازمت سے نوازاتھا ۔دسمبر میں حکومت نے آٹھ لاکھ ایسے افراد کاسراغ لگاکر انہیں اس پروگرام سے نکالنے کا فیصلہ کردیاجو مستحق افراد کے زمرے میں نہیں آتے۔ستم ظریفی تو یہ تھی کہ سترہ گریڈ سے اکیس گریڈ کے دوہزار پانچ سوتنتالیس افسران کے نام بھی اس لسٹ میں سامنے آئے ہیں جواپنی بیویوں کے نام پر پیسے وصول کرتے رہے۔ کوئی اگر یہ دلیل دے کہ ان آفیسران کی بیویاں چوری چھپکے سے ایسا کرتی تھی تاہم حقیقت میں ایسے لاعلم آفیسرز آٹے میں نمک کے برابر ہونگے ۔اپنی بیویوں کے بارے میں ایسے بے علم غنی شوہربھی بری الذمہ نہیں ہیں جن کے ہمسفر گھر کا چولہے ایسے پیسوں سے چلاتے جو ان کا کسی طریقے سے بھی حق نہیں بنتا ۔وزیراعظم عمران خان کی حکومت لاکھ کمزور ہی سہی، تاہم اس غریب پروَر پروگرام کو شفاف بنانے کاکریڈٹ اسے ضروردینا چاہیے ۔حال ہی میں ایسی بے شمار خواتین کے نام مراسلے بھجوائے گئے ہیں جو بہترین مالی حالت رکھنے کے باوجود برسوں سے چوری چپکے سے بکری کے دودھ سے مستفیدہوتی آئی ہیں۔مراسلات میں ان خواتین کو ہڑپ شدہ رقم واپس سرکاری خزانے میں جمع کرنے کی سختی سے ہدایت کی گئی ہے اور آئندہ ایسے ناجائز دودھ سے استفادہ نہ کرنے کی وارننگ دی گئی ہے۔بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے بعد کورونائی وبا کے اس ناسازگار موسم دس روز پہلے حکومت نے محنت مزدوری کرنے والے مزدور طبقے کیلئے ایک معاشی پیکیج کا اعلان کردیاہے ۔اس پیکیج جس کیلئے حکومت نے دوسو ارب روپے کے فنڈز مختص کیے ہیں، کے تحت ملک بھر میںسترلاکھ ان دیہاڑی دارافراد کو 12 ہزار روپے ملیں گے جن کی دیہاڑی کورونا وبا کی وجہ سے ٹھپ ہوکر رہ گئی ہے۔ اب جب صوبائی سطح پر ہر ضلع کے انتظامیہ کو اس سلسلے میں فنڈز جاری کردیئے ہیں تو بے شمار ایسے حریص لوگ پھر سے حرکت میں آکر اپنے ناموں کے اندراج اورفارمز فل کررہے ہیں جو قطعی طور پر اس کے مستحق نہیں ہیں- لہٰذا ہر ضلع کے ڈپٹی کمشنر اورمتعلقہ ضلعی انتظامیہ کو اس بارے میں حساس اور الرٹ رہناچاہیے کہ بینظیرانکم سپورٹ پروگرام کی مانند کہیں اس پروگرام کی فہرست میں کہیں پھر سے غنی لوگ گھس نہ جائیں۔ نیز سوشل میڈیا کے ایکٹیویٹیس اور پڑھے لکھے نوجوان طبقے سے بھی امید کی جاتی ہے کہ وہ فوری طور پر ان لوگوں کی نشاہدہی کریں گے جو غریبوں کے حق پر ڈاکہ ڈالنے کیلئے ایک بار پھر بے تاب نظرآتے ہیں۔