میری حیرت کا تصور رہے وہی ذات کہ جو جہاں ہوتے نہیں اسباب بنا دیتی ہے میری آنکھوں کو وہ خالی نہیں رہنے دیتی کہیں تارہ کہیں مہتاب بنا دیتی ہے اللہ اپنی صفات سے پہچانا جاتا ہے۔ میرے ایک دوست ہیں ملک صاحب، ان کے ہاں بچہ پیدا ہوا تو وہ ٹانگوں سے محروم تھا یعنی ان میں حرکت تک نہیں تھی۔ ملک صاحب اٹھتے بیٹھتے اسی بچے کی فکر میں رہتے کہ اس کا بنے گا کیا۔ وہ تو دھڑ ہی دھڑ تھا اور اس دھڑ پر جو سر تھا وہ ذہن رسا تھا۔ یہ معذور بچہ ایف ایس سی تک پہنچا تو وہ سافٹ ویئر تیار کرنے لگا۔ اپنے کمرے میں بیٹھا طبع آزمائی کرتا رہتا۔ ایک دن کیا ہوا کہ ایک امریکی کمپنی نے اسے ملازم رکھ لیا، اس کا کمرہ اس کا دفتر ٹھہرا۔ گیارہ سو ڈالر اس کی تنخواہ اور سال میں دو بونس۔ ملک صاحب آبدیدہ ہو کر کہنے لگے جس کے بارے میں فکرمند رہتا اس نے تو سب کا خرچ اٹھا لیا۔ یہ تمہید میں نے اسی لیے باندھی کہ مجھے ایک یکسر معذور بچے کے بارے میں لکھنا ہے۔ اس کے بارے بھی کیا لکھنا ہے کہ وہ ہاتھ پائوں میں اپنی مرضی سے حرکت میں نہیں لا سکتا۔ اپنا سر بھی نہیں سنبھال سکتا۔ اس کی آنکھوں میں یقینا حرف تشکر ہے جو اس کی ماں پڑھ لیتی ہے۔ وہ اس کے لیے جیتی ہے اس کے لیے مرتی ہے۔ اس کو بناتی سنوارتی ہے۔ یہ سپیشل بچے اللہ کی طرف سے ایک امتحان ہوتے ہیں۔ یا یوں کہیں کہ یہ بھی اس کی ایک ایسی تخلیق جو ان بہادر لوگوں کے حصہ میں آتی ہے جو اسے سنبھال سکیں اور اذن ربی کے سامنے لبیک کہہ سکیں۔ میری طبیعت خاصی ناساز تھی مگر اس بچے کے لیے جس کا نام حمد ہے اور اس کی ماں اسے ببر شیر بھی کہتی ہے مجھے جانا پڑا۔ یہ اس کی نویں سالگرہ تھی اور مجھے اس سالگرہ اور مشاعرہ کی صدارت کرنا تھی۔ مسلسل بیٹھنے کے باعث اعصاب زیادہ ہی تھک گئے لیکن اس تقریب میں کئی پیارے دوست آئے ہوئے تھے۔ مہمان خصوصی ڈاکٹر سعادت سعید تھے۔ مجھے اچھا لگا کہ حمد کی ماں انمول گوہر جو نہایت اچھی شاعرہ ہے، سرائیکی علاقے سے بھی لوگ آئے ہوئے تھے کیونکہ انمول کا تعلق بھی ملتان سے ہے۔ خاص طور پر مدیحہ بتول کہ وہ تنظیم آمور کی ایجوکیشن کوآرڈی نیٹر ہے۔ آمور انہی معذور بچوں کے لیے کام کر رہی ہے۔ مدیحہ بتول نے بہت اچھی باتیں کیں کہ معذور بچوں کے لیے کام کرنا عبادت سے کم نہیں۔ وہ اس حوالے سے انمول گوہر کو آمور امبیسیڈر بنائیں گے۔ میاں خالد محمود بھی آئے تھے۔ وہ یہیں میوزیم لاہور کے ڈائریکٹر ہیں۔ کیک کاٹے گئے اور سب نے انمول گوہر کی عظمت کو سلام کیا۔ مدیحہ نے سرائیکی گیت سنایا۔ اس زبان میں کیسی مٹھاس ہے۔ انمول نے اپنے حمد کے لیے دو شعر پڑھے: ادھے شبد بھی سوہنے جاپے اکھ دے تارے نے جد آکھے اوہدا متھا چم کے سمجھی کیہہ ہوندے نے گوہر ماپے اس سالگرہ کے بعد مشاعرہ سیشن تھا جس میں ہمارے مہمان کینیڈا سے آئے تھے معروف شاعرہ شاہینہ کشور اور کالم نگار مینا باجی۔ انہوں نے تقریب کو بہت سراہا اوراپنے تجربات بھی شیئر کئے۔ اچھی شاعری سننے کو ملی۔ چند اشعار آپ بھی دیکھ لیں: ہماری آنکھیں ہیں عمران گروی ہمارے خوابوں کا سودا ہوا ہے (عمران مفتی) دنیا کھیل رہی ہے میرے ہاتھوں میں دنیا والوں نے ایسا ہشیار کیا (انیس احمد) صندلیں زمیں اپنی مرمریں مکاں اپنا کون مر چاہے گا چھوڑ کر جہاں اپنا کچھ مزاحیہ بھی تھا جس میں مرلی چوہان نے اپنے قطعات سنا کر داد وصول کی: ہوئی ہے دور یہ دوری خدایا شکر ہے تیرا دکھائی ہے فضا نوری خدایا شکر ہے تیرا نمازیں ہو گئیں کتنی قضا دوران حج میری مگر ہیں سیلفیاں پوری خدایاشکر ہے تیرا یہیں سے مجھے یہ بھی یاد آیا کہ ہماری حج کے لیے دی ہوئی درخواستیں پہلی بار ہی منظور ہو گئی ہیں۔ انشاء اللہ میں اپنی بیگم کے ساتھ جارہا ہوں۔ جب میں عمرہ کرنے گیا تھا تو وہ بہت ناراض ہو گئی تھی مگر میں نے اسے سمجھایا تھا کہ وہ پاسپورٹ کے بغیر کیسی جا سکتی ہے۔ بہرحال یہ فریضہ ہمت طلب بھی ہے۔ خاص طور پر جا کر شیطان کو کنکریاں مارنا ۔ خیر حج کی بات تو برسبیل تذکرہ آ گئی۔ اس مشاعرہ میں رقیہ کبیر، ممتاز راشد لاہوری، ڈاکٹر سعدیہ بشیر، مسعود انعم، اسلم شوق اور دوسرے کئی آئے ہوئے تھے۔ اسلم شوق نے حمد کے لیے نظم پڑھی جس کا مطلع تھا: پھلاں دی ایہہ پنڈ مبارک سالگرہ دی گنڈ مبارک شاہینہ کشور تو پہلے بھی آتی رہتی ہیں اور وہ تدریس سے منسلک رہیں، ایک شعر ان کا: ہمارے درمیاں بیٹھی ہوئی ہے محبت بے زباں بیٹھی ہوئی ہے اور ڈاکٹر سعدیہ بشیر کا شعر: زمانے آن بیٹھے ہیں مرے دل کی حویلی میں محبت مسئلہ بن جاتی ہے سادہ پہیلی میں صرف ایک شعر: یاد کرتا ہوں سعد جب اس کو ساری دنیا کو بھول جاتا ہوں