الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اراکین کی جانب سے دئیے جانے والے ہوشربا مالی اثاثوں کو پرنٹ اور اسکرینوں پر پڑھ کر اور دیکھ کر اس بدقسمت قوم پر رحم تو نہیں آنا چاہئے کہ دہائیوںسے یہ انہیں امیر کبیر سیاسی گھرانوں کے آبا اور آل اولاد کو جھولیاں بھر بھر کر ووٹ دے رہے ہیںکہ جنہوں نے ’’عوام کے خون پسینے‘‘کو نچوڑ کر اپنے اور اپنے بعد آنے والی نسلوں کیلئے حویلیاں ،محلات کھڑے کئے اور لوٹ کے مال سے تہ خانے بھر دئیے۔مگر ان امیر کبیر عوامی نمائندوں نے ووٹ دینے والے اپنے ہاریوں اور محنت کشوں کو نہ کھانے کو روٹی دی،نہ رہنے کے لئے چھت اور نہ پیٹ پالنے کے لئے روزگار۔تعلیم تو دور کی با ت ہے کہ 6ہزار کھرب روپے کاسالانہ بجٹ پیش کرنے والی حکومت کے دور میں بھی 4کروڑ 60لاکھ بچے اسکول نہیں جاتے۔سیاست میں دولت کی ریل پیل اور لوٹ کھسوٹ کا آغاز کوئی بہت دور کی بات نہیں۔نوّے کی دہائی تھی جس میں شریف اور زرداری خاندان سیاسی میدان میں اترے تو ایکدوسرے کو مات دینے کے لئے منی لانڈرنگ ،بے نامی اکاؤنٹس ،پلاٹوں اور زمینوں کی بندر بانٹ اور کک بیکس سمیت کرپشن کے گھناؤنے ہتھکنڈے استعمال کئے۔اس وقت ایک محتاط جائزے کے مطابق پاکستانیوں کے 1200ارب ڈالرغیر ملکوں اور اس سے کہیں زیادہ وطن عزیز میں اثاثوں ،بے نامی اکاؤنٹوں اور جائدادوں کی صورت میں پڑے ہیں۔الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ اراکین پارلیمنٹ کے مالی اثاثوں پر بعد میں آؤں گا۔۔۔بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح سیاست میں آنے سے پہلے ہی غیر منقسم ہندوستان کے چوٹی کے وکیل تھے۔کل وقتی سیاست کے باوجود وکالت کی پریکٹس جاری رکھی۔بدقسمتی سے قائد اعظم کی خانگی زندگی خوشگوار نہیں رہی۔ساری زندگی اپنی بہن محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ گزاری جو اُن کے انتقال کے بعد ان کی وارث بھی تھیں۔قائد اعظم نے اپنی زندگی میں جو وصیت کی اُس کے مطابق بیشتر رقوم اسلامیہ کالج پشاور،سندھ مدرسۃالاسلام اور علی گڑھ یونیورسٹی میںتقسیم کردی گئی۔کراچی میںمحترمہ فاطمہ جناح کی رہائش کے لئے صرف ایک موہٹہ پیلس چھوڑا ۔اُن کے انتقال کے بعد کئی وارث سامنے آئے ۔مگر اب ’’موہٹہ پیلس‘‘ایک ٹرسٹ کے ذریعہ کراچی میں ثقافتی مرکز ہے۔پاکستان کے پہلے وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان کا یو پی کے ایک انتہائی خوشحال گھرانے سے تعلق تھا۔عام طور پر نوابزادہ لیاقت علی خان کو نواب صاحب کہا جاتاتھا۔مگر نواب صاحب کی ذاتی زندگی میںاور بحیثیت وزیر اعظم کوئی نوابیت نہیں تھی۔پاکستان کے پہلے وزیر اعظم کا کوئی علیحدہ سیکریٹریٹ نہ تھا۔کینٹ ڈویژن کی ایک برانچ تھی۔جو پرائم منسٹر ہاؤس کہلاتی تھی۔جس میں وزیر اعظم کے علاوہ ایک اسٹینو،پانچ اسسٹنٹ ،تین کلرک ، ایک چپڑاسی اور اسسٹنٹ انچار ج ہوتا تھا۔چلتے چلتے یہ بھی سن لیں کہ اربوں کے اثاثے رکھنے والے ہمارے وزرائے اعظم کے جو گزشتہ 20سال سے سیکریٹریٹ ہیں،اُن کے اخراجات 1997میں 12کروڑ سے بڑھ کر اب 87کروڑ 76لاکھ سالانہ تک پہنچ گئے ہیں۔جبکہ وزیرا عظم ہاؤس کے ملازمین کی تعداد پانچ سو کے لگ بھگ ہے۔موجودہ وزیر اعظم محترم عمران خان نے وعدہ تو کیا تھا کہ وہ وزیر اعظم ہاؤس میں یونیورسٹی قائم کریں گے۔مگر سیکورٹی کے پیش نظر اس کی انیکسی میں رہتے ہیں جو سات کمروں پر مشتمل ہے۔حالیہ بجٹ میں وزیر اعظم سیکریٹریٹ کے اخراجت میں ’’حاتم طائی‘‘ کی قبر پر لات ما کر اس میں 10کروڑ کی کمی لائی گئی ہے یعنی رواں سال میں اس کا بجٹ 77کروڑ 20لاکھ ہے جبکہ ملازمین کی تعداد درجنوں کی تو رکھی گئی ہے۔خان صاحب نے کیوں کہ کرکٹ بہت کھیلی ہے پھر وراثت میں بھی لاہور میںجائداد ملی ہے اس لئے وہ 10کروڑ 82لاکھ مالیت کے اثاثے رکھتے ہیں۔مگر تبدیلی کی حامل پارٹی کے ان کے ایک نائب اعظم خان سواتی امیر ترین سینیٹر ہیں۔جو اپنے ظاہر اثاثے ایک ارب 87کروڑ بتاتے ہیں۔موجودہ حکمرانوں کے اثاثوں کی تفصیل تو ذرا بعد میں۔۔۔ ماضی کے سات وزرائے اعظم یعنی نوابزادہ لیاقت علی خان ،خواجہ ناظم الدین،حسین شہید سہروردی،فیروز خان نون،آئی آئی چندریگر ،محمد علی بوگرہ،چوہدری محمد علی۔۔۔جو ذاتی حیثیت میںتقسیم سے قبل ہندوستان کے دولت مند گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے۔۔۔مگر ہجرت کر کے جب اسلامی جمہوریہ پاکستان میں آئے تو ان میں سے بیشتر کے پاس سر چھپانے کی جگہ نہ تھی۔نہ ہی انہوں نے بڑے بڑے کلیم دائر کئے۔اگر ان سات وزرائے اعظم کی سادہ روز مرہ کی زندگی کی تفصیل میں گیا تو ایک ایک وزیر اعظم کے لئے ایک کالم کا دامن بھی تنگ ہوگا۔وزیر اعظم لیاقت علی خان کے بارے میں ان کے ذاتی ملازم ستّار کا کہنا تھا کہ اکثر نوابزادہ لیاقت علی خان ،ان کی بیگم اور صاحبزادے اکبر اور اشرف ساتھ کھانا کھاتے مگر وزیر اعظم کا حکم تھا کہ اپنی اپنی پلیٹ خود اٹھا ؤ اور دھو کررکھو۔جی ہاں،پاکستان کے پہلے وزیر اعظم کے پاس اپنی ذاتی گاڑی نہیں تھی۔مسلم لیگی رہنما یوسف ہارون نے اپنی ایک کار وزیر اعظم کے استعمال کے لئے بھجوا دی تھی ۔وزیر اعظم لیاقت علی خان کی اکتوبر1951میںجب پنڈی میں شہادت ہوئی تو ان کے اکاؤنٹ میں چند سو روپے تھے۔بعد میں ان کی بیگم کوجب سفیر بنا کر حکومت نے باہر بھیج دیا تو بڑی حد تک ان کا خاندان مالی طور پر خود کفیل ہوگیا۔خواجہ ناظم الدین کا تعلق ڈھاکہ کے نواب خاندان سے تھا۔خواجہ صاحب بلکہ آپ کا پورا گھرانہ بڑے اور چھوٹے ملازمین میںکوئی امتیاز روانہیں رکھتا تھا۔کوئی بھی سرکاری پارٹی ہوتی ،بڑے بڑے وزراء ،سفراء کے ساتھ سارے ملازمین بھی ایک میز پر کھاناکھاتے۔سادگی کا یہ عالم تھا کہ وزیر اعظم کی بیگم کوٹھی کی اوپری منزل پر معمولی چٹائی بچھا کر بیٹھی یا لیٹی ہوتی تھیں۔خواجہ صاحب،جب کبھی اوپر جاتے تو ساتھ نیچے چٹائی پر ہی بیٹھ جاتے اور باتیں کرتے۔اُن کے ایک سابق سکریٹری نعیم احمد نے لکھا ہے کہ خواجہ صاحب نے انہیں ایک دن ایک لفافہ دیا جس میں چند سو روپے تھے۔اور ہدایت کی کہ وہ ان کے بھائی کو منی آرڈر کردیں۔کہ انہیں ان دنوں ایک شدید مالی مسئلہ در پیش ہے۔ گورنر غلام محمد نے جب آپ کو برطرف کیا تو خالی ہاتھ اپنے خاندان کے ساتھ وزیر اعظم ہاؤس چھوڑدیا۔مگر ان کے ذاتی ملازم کا کہنا ہے کہ آپ کی آنکھوں میںآنسو تیر رہے تھے۔البتہ آپ نے اتنا ضرور کہا کہ ’’یہ اچھا نہیں ہوا،یہ پاکستان پر ظلم ہے‘‘۔ محمد علی بوگرہ امریکہ میں سفیر تھے ۔جب انہیں گورنر غلام محمد نے امریکہ سے طلب کر کے وزیر اعظم کے عہدے پر فائز کیا۔بوگرہ صاحب کے بارے میں ضرور کہا جاتا ہے کہ ان کی زندگی بڑی شاہانہ تھی۔مگر یہ سب کچھ انہیں اپنی فیملی سے ملا تھا۔محمد علی بوگرہ کے حوالے سے کبھی کوئی کرپشن کا واقعہ بھی سامنے نہیں آیا۔بوگرہ صاحب کے بعد آنے والے وزرائے اعظم آئی آئی چندریگر ،حسین شہید سہروردی،چوہدری محمد علی،ملک فیروز خان نون کے بارے میں تفصیل سے لکھنا چاہتا ہوں۔کہ ان میں سے کسی پر مالی بدعنوانی اور کرپشن کا الزام کبھی نہ لگا۔سیاسی طور پر ان سے غلطیاں بھی ہوئیں،اور جس کی سزا انہیں اور اس ملک کو بھگتنی بھی پڑیں۔ (جاری ہے)