وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا ہر بیان ہی پرلطف ہوتا ہے۔ تازہ ترین لطف جو انہوں نے قوم کو عطا کیا ہے اس بیان کی شکل میں ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ نے ہمارے موقف کی تائید کر دی۔ یہ ہماری عظیم کامیابی ہے۔ حسب سابق اس بار انہوں نے عظیم اور کامیابی کے درمیان سفارتی کا لفظ نہیں لگایا۔ شاید سہواً ایسا ہو گیا۔ چلئے کوئی بات نہیں ۔ بھول چوک معاف۔ بھارتی سپریم کورٹ نے ایسا کیا فیصلہ دیا جسے قریشی صاحب ہماری عظیم (سفارتی) فتح قرار دے رہے ہیں؟ مختلف شہریوں کی رٹ درخواست پر مقبوضہ کشمیر کے حالات کے حوالے سے سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ سنایا ہے کہ بھارتی حکومت جلد از جلد مقبوضہ کشمیر کے حالات معمول پر لائے۔ بھارتی حکومت کیا کہتی ہے؟ وہ بھی تو کہہ رہی ہے کہ حالات جلد معمول پر لے آئیں گے۔ ابھی تو ڈیڑھ ماہ ہی ہوا ہے۔ لاک ڈائون اور کریک ڈائون شروع کئے۔ سہ ماہی ہوتے ہوئے حالات معمول پر آ جائیں گے۔ دوسرے لفظوں میں سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ لگے رہو نرنیدرا بھائی۔ اور لگے رہو نریندرا مودی بھائی کا ترجمہ ہندی سے اردو میں قریشی صاحب نے ‘عظیم(سفارتی) کامیابی کیا ہے۔ ٭٭٭٭٭ قریشی صاحب ڈیڑھ ہفتہ پہلے جنیوا میں تھے۔ وہاں بھی ان سے بھول چوک ہو گئی۔ جوش خطابت میں انہوں نے مقبوضہ کشمیر کو بھارتی ریاست کہہ دیا اس پر بھارتی میڈیا نے گرہ لگائی کہ پاکستانی بدیش منتری نے کشمیر کو بھارتی اٹوٹ انگ مان لیا۔ حالانکہ یہ بھول چوک تھی۔ زیادہ صحیح الفاظ میں زبان کی پھسلن۔ اتفاق ایسا ہے کہ زبان کی پھسلن پوری پی ٹی آئی کا ٹریڈ مارک بن گئی ہے۔ وزیر اعظم سے لے کر ایم پی اے تک سب شوقیہ یا سہواً اسی پھلسن میں مبتلا ہیں۔ چاہے نہ چاہے زبان پھسل ہی جاتی ہے۔ ٭٭٭٭٭ دو ہفتے بھی نہیں ہوئے ‘ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس تھا۔ اس میں ڈاکٹر صاحب نے مزے کا خطاب کیا۔ حکومت کی تعریفوں کے پل باندھ دیے اور ہر پل’’اے برج ٹو فار‘‘ سے کم نہیں تھا۔ زبان کی پھسلن واقع ہو گئی۔ ٹی وی نے ایک بار تو چلا دی‘ مزا لینے کے لئے بار بار نہیں چلائی البتہ سوشل میڈیا پر خوب چلی۔ وزیر اعظم کا ذکر کرتے ہوئے ایک بار ’’مریض اعظم‘‘ کا لفظ ان کے منہ سے نکل گیا۔ پوری طرح نہیں نکلا ’’مریض اعظم‘‘ کہا ’’م‘‘ کو روک لیا اور فوراً ہی درست لفظ ادا فرما دیا۔ کسی نے تبصرہ کیا‘ یہ زبان کی پھسلن نہیں‘ لاشعوری حرکت تھی۔ یوں کہ موصوف ڈاکٹر صاحب ہیں‘ مریضوں کا خیال ہر وقت دل میں رہتا ہے بس اسی لئے مریض اعظم کہہ گئے۔ اس تبصرے سے اتفاق ممکن نہیں۔ اس لئے کہ موصوف ڈینٹل ڈاکٹر ہیں اور ڈینٹل ڈاکٹر اپنے ’’کرم فرمائوں‘‘ کو مریض نہیں۔ کسٹمر کہتے ہیں یا پھر کلائنٹ۔ یقین نہ ہو تو کسی بھی ڈینٹل ڈاکٹر سے رجوع فرما کے دیکھ لیجیے۔ ڈاکٹر کا تعلق دوائی سے ہوتا ہے۔ ڈینٹل ڈاکٹر دوائی کہاں دیتے ہیں پرانا دانت اکھاڑ کر نیا لگا دیتے ہیں۔ پھر ریگ مال سے پرانے کو نیا کر دیتے ہیں۔ ریگ مال لگانے کے اس عمل کو ’’سکیلنگ‘‘ کہا جاتا ہے۔ ٭٭٭٭٭ اچھا‘ انصاف کی بات ہے کہ صرف ڈینٹل ڈاکٹر نہیں۔ نجی ہسپتالوں کے ڈاکٹر اور مہتمم بھی مریضوں کو کسٹمر اور کلائنٹ سمجھتے ہیں۔ اور کلائنٹ بھی ایسا کہ ہر ایک کے بارے میں یقین رکھتے ہیں کہہ یہ پہلی اور آخری بار آ رہا ہے۔ چنانچہ یہی سوچ کر اس سے عمر بھر کی فیس وصول کر لیتے ہیں اور اکثر ان کا یہ گمان ٹھیک نکلتا ہے کہ کلائنٹ پہلی اور آخری بار آیا ہے۔ اس لئے کہ پرائیویٹ ہسپتالوں کے اکثر یہ کلائنٹ عموماً پہلی پیشی پر ہی بری ہو جاتے ہیں۔ بری ہونا یعنی جا تجھے کشمکش دھر سے آزاد کیا۔ پہلی پیشی ایک دن سے لے کر ایک مہینے تک محیط ہو سکتی ہے۔ اس سے زیادہ نہیں۔ ٭٭٭٭٭ پنجاب میںنجکاری کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے سرکاری ہسپتال بھی لپیٹ میں لے لئے گئے ہیں۔ حکمران جماعت کے احباب پر مشتمل بورڈ آف ڈائریکٹر لگیں گے اور اپنی مرضی سے فیس لیں گے۔ یہ نج کاری اس لحاظ سے انوکھی ہے کہ ’’سرمایہ کار‘‘ پارٹی کو ایک روپیہ بھی نہیں لگانا پڑے گا۔ سرکار اپنے خرچ پر اس کی آمدنی کے سوتے کھولے گی یہ فی سبیل اللہ نجکاری ہے۔ یوں اب تک کے ان سرکاری ہسپتالوں میں بھی مریض نہیں‘ کسٹمر آیا کریں گے۔ اپنی اپنی باری پر ’’بریت‘‘ کے پروانے لے جایا کریں گے۔ ٭٭٭٭٭ بات عظیم سفارتی کامیابی سے شروع ہوئی تھی۔ اسی ضمن میں وزیر اعظم نے اپنی وائٹ ہائوس کی پچھلی یاترا کے بعد فرمایا تھا‘ وہ ورلڈ کپ جیت کرلائے ہیں۔ اب وہ پھر جا رہے ہیں شاید ایک اور ورلڈ کپ لائیں گے۔ خدا خیر کرے۔ پہلے ورلڈ کپ کی ضمنی ٹرمپ نے یہ کہہ کر لگائی تھی کہ پاکستان اور بھارت میں کشیدگی کم ہو گئی اب کی بار تو ختم ہی ہو جائے گی امید ہے۔ کشمیر پر غیر سرکاری ریلیاں نکالنے والے کرم فرما نوٹ فرما لیں اور اصل کہانی سمجھ جائیں اور اس ناٹک نوٹنکی کے بس مزے لیتے جائیں جسے سراج الحق نے اچھل کود اور فضل الرحمن نے ’’ڈرامے‘‘ کا نام دیا ہے۔ مزے سے یاد آیا‘ شاہ محمود قریشی نے اپوزیشن سے کشمیر کاز پر اتفاق کی اپیل کی ہے۔ یہ تو اور بھی مزے کی بات کر دی۔ یعنی جو اپوزیشن کہتی ہے کہ حکومت نے نے کشمیر بیچ دیا‘ وہ تعاون کرے گی؟ بھلا کس بات پر؟