جناب حسین احمد شیرازی کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں جن پر گھنٹوں بات ہو سکتی ہے ۔ شیرازی صاحب سے تعلق ہو اور بندہ ان کی شخصیت کے اعلیٰ اوصاف و آداب سے بچ نکلے یہ نہیں ہو سکتا۔اتنے مہذب ، باذوق اور ایسے وضع دار انسان کہ مثال دینا مشکل ہے ۔ ۔ان کی کتاب’ بابو نگر ‘ہمارے مزاحیہ ادب میں ایک شاہکار کے طور پر سامنے آئی ہے اور اب اُن کی دوسری کتا ب ’’ دعوتِ شیراز ‘‘ یقیناً مزاح نگاری میں ایک خوشگوار اضافہ ثابت ہوگی ۔ حس مزاح اللہ تعالیٰ کی دین اور ایک بڑی نعمت ہے میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ حسِ مزاح کے ہونے سے سارے دکھ درد ختم ہو جاتے ہیں لیکن اتنا ضرور ہوتا ہے کہ یہ کسی حد تک قابلِ برادشت ہو جاتے ہیں۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے استاد محترم جناب قاسمی صاحب فرمایا کرتے ہیں کہ ضمیر انسان کو گناہ سے روکتا نہیں بس اس کا مزا کرکرا کر دیتا ہے ۔ اسی طرح میں سمجھتا ہوں کہ حسِ مزاح اگرچہ آپ کی پریشانی کو روکتی نہیں لیکن ایک حدتک اُس کی شدت کم کر کے اُسے اپنی اوقات میں رکھتی ہے ۔ جناب شیرازی صاحب کا کمال یہ ہے کہ انہیں ہماری حسِ مزاح کی تسکین کا فن آتا ہے ۔ ان کے ہاں روانی اور شگفتہ بیانی کی خوبیاں بے حد قابلِ تحسین ہیں۔ شیرازی صاحب شاندار ظرافت اور خوبصورت حسِّ مزاح رکھتے ہیں ۔ مجھے ان کی ظرافت کے ساتھ ساتھ جس چیز نے زیادہ متاثر کیا ہے وہ ان کی لاجواب نفاست ہے ۔ ان کی اس اعلیٰ نفاست کے پیشِ نظر کہا جا سکتا ہے کہ اگر انہیں کہیں سے آب حیات بھی میسر ہو تو یہ اُسے اچھی طرح ابال کر پینا پسند فرمائیںگے ۔ ان کے بارے میں گمانِ غالب ہے کہ انہیں اگر کسی فائیو سٹار ہوٹل میں بھی بلایا جائے تو کھانا پھر بھی یہ واپسی پر گھر جا کر ہی کھاتے ہوں گے ۔ مجھے دو تین دفعہ ذاتی طور پر ان کی میزبانی کا شرف ملا ہے ۔یقین کریں ایسے شاندار مہمان ہیں کہ دل کرتا ہے انہیں روزانہ دعوت دی جائے۔ آپ خود دیکھیئے جس مہمان نے آپ کے دسترخوان سے صرف آدھا گلاس پانی پینا ہو تو اُسے روز بلانے کو دل کیوں نہ کرے ۔ یہ کورونا وائرس منحوس تو اب ہمارے سامنے آیا ہے قبلہ شیرازی صاحب نے اس سے بچائو کے لیئے پچھلے بیس سال سے تیاری کر رکھی ہے ۔ان کی احتیاط کی انتہا کا عالم یہ ہے کئی دفعہ دیکھنے میں آیا کہ یہ جب بھی کسی معزز انسان سے ملتے ہیں فوراً ماسک پہن لیتے ہیں ۔ خود مجھے بھی اس عزت افزائی کا سامنا کئی دفعہ کرنا پڑا ۔ ’’ بابو نگر ‘‘ شیرازی صاحب کی مزاح نگاری کے حوالے سے اولین کاوش ہے لیکن اسے پڑھتے ہوئے یہ بالکل گمان نہیں ہوتا کہ یہ ان کی پہلی کتاب ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی تحریر میں کمال کی پُختگی کے علاوہ ان کا اسلوب اتنا خوبصورت اور عمدہ ہے کہ انہیں پڑھتے ہوئے لگتا ہے کہ جیسے کسی کلاسیک ادیب کی تحریر پڑھ رہے ہوں ۔ اس پر مستزاد تحریر کا ادبی رچائو اور خوبصورت اشعار کا برمحل شاندار استعمال انہیں ایک انتہائی منجھے ہوئے ادیب کے طور پر سامنے لے کر آتا ہے ۔ مجھے چونکہ ’’ بابو نگر ‘‘ کی چاٹ لگی ہوئی تھی لہذا جیسے ہی شیرازی صاحب نے اپنی نئی آنے والی دوسری کتاب ’’ دعوتِ شیراز ‘‘ مجھے بھجوائی میں نے اسے پڑھنا شروع کر دیا اور اپنے آپ کو چیلنج کرتے ہوئے اسے ایک ہی رات میں ختم کر لیا ۔ اس سے آپ میرے اشتیاق اور کتاب کی دلچسپی کا اندازہ لگا سکتے ہیں ۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ زندگی میں صرف ایک اور کتاب میں نے ایک ہی رات میں ختم کی تھی اور وہ میری میٹرک کی بیالوجی کی کتاب تھی چنانچہ میں نے اس کتاب کو بھی اسی انداز اور اسی لگن سے پڑھا اور صبح چار بجے جب میں اور کتاب تقریباً دونوں ختم ہورہے تھے تو میں خود اپنے آپ کو شیرازی صاحب سے عقیدت اور اس جذبے کے لیے داد دئیے بغیر نہ رہ سکا ۔ کتاب ’’ دعوتِ شیراز ‘‘ تو میں نے کمال شوق سے ختم کر لی لیکن میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں نے اسے کتنا سمجھ کر پڑھا ۔ہاں البتہ یہ بتا سکتا ہوں کہ میٹرک کی بیالوجی میں میرے تینتیس نمبر آئے تھے ۔ عمدہ مزاح اور ظرافت نگاری آپ کی پریشانیوں کو دور کرتی ہیں اسی بنا پر میں نے شیرازی صاحب کی کتاب ’’ بابو نگر‘‘ اپنے سرہانے دھر رکھی ہے۔ اس کتاب کا سائز اور حجم اتنا بڑا ہے کہ اس سے مطالعے سمیت کئی کام لیے جا سکتے ہیں ۔جب سے یہ کتاب میرے سرہانے دھری ہے یقین جانیئے ! کوئی پریشانی تو کیا ، گھر کے شرارتی بچے اور بیگم بھی قدرے فاصلے پر رہتے ہیں ۔اب ان کی دوسری کتاب’ دعوتِ شیراز‘ بھی میرے سرہانے آجائے گی تو میرا حفاظتی حصار اور بھی مضبوط ہو جائے گا ۔ میرے خیال میں ابن انشا ، شفیق الرحمن اور جناب یوسفی صاحب کے بعد ہمارے کلاسیک مزاحیہ ادب میں ایک خلا سا پیدا ہورہا تھا اور مزاح نگاری کسی حد تک کمزور اور نازک دور سے گزر رہی تھی لیکن اس سے پہلے کہ یہ اتنی کمزور ہو جاتی کہ اسے کسی’’ قرنطینہ‘‘ وغیرہ میں رکھنا پڑتا جناب شیرازی صاحب کی صورت میں ایک عمدہ اور کلاسیک مزاح نگار ہمارے سامنے آئے ہیں جنہوں نے مزاح نگاری کو دوبارہ زندہ اور توانا کر دیا ہے ۔ شیرازی صاحب ایک بڑے مزاح نگار ہیں اور اس سے بڑے مہذب اور وضع دار انسان ۔۔میں حیران ہوتا ہوں کہ تہذیب اور وضع داری میں تو بعض اوقات یہ مجھے بھی پیچھے چھوڑ نے کی کوشش کرتے ہیں ۔بلا شُبہ ! شیرازی صاحب کو جب بھی پڑھیں مزا آتا ہے ۔۔اور جب زیادہ پڑھیں تو زیادہ مزا آتا ہے ۔