سحر کے ساتھ ہی سورج ہمرکاب ہوا جو اپنے آپ سے نکلا وہ کامیاب ہوا میں جاگتا رہا اک خواب دیکھ کر برسوں پھر اس کے بعد مرا جاگنا بھی خواب ہوا بیٹھے بیٹھے خیال آیا کہ بڑے لوگ اس راز کو پا لیتے ہیں کہ مقصد حیات کیا ہے؟ کہ دوسروں کے لئے جینا۔ اس حوالے سے اپنے محترم دوست ڈاکٹر ہارون الرشید یاد آئے کہ بہت خوشگوار موڈ میں کہنے لگے شاہ صاحب اب میں نے دوسروں کے لئے جینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔پھر انہوں نے فائونٹین ہائوس کو ایک نئی تحریک دی او یہ ادارہ انسانیت کے دکھوں کا مداوا کرنے لگا زخموں پر مرہم رکھنے لگا۔ کہنے کا مقصد یہی ہے کہ کامرانیوں کا سفر کرنے والا سحر سے شام تک سورج کی طرح ہی توانائی بانٹتا ہے۔یا پھر وہ پیٹر بن جاتا ہے کہ اوروں کو سایہ بخش کے خود دھوپ میں جلے۔ کہنا تو دراصل میں نے یہ تھا کہ یہ سیاسی لوگ کسی کے کام کیا آئیں گے کہ یہ تو اپنے اپنے خول سے نکلنے کے لئے تیار ہی نہیں۔ اپنے ہی مفادات کے اسیر، عوام کو کیا رہائی دلائیں گے۔ کتنا اچھا شعر مجھے ان پر ضائع کرنا پڑ رہا ہے کہ ایک معنی اس کے دلچسپ بھی تو نکلتے ہیں: مجھ کو اپنا بنا کے چھوڑ دیا کیا اسیری ہے کیا رہائی ہے میں ایک اصطلاح انگریزی کی استعمال کرنا چاہتا ہوںمیوچل کننگ نیس یعنی یہ لوگ پوری ’’باہمی مکاری‘‘ کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ بھی چل رہے ہیں اور ایک دوسرے پر نظر بھی رکھے ہوئے ہیں۔ بڑے بھائی اور چھوٹے بھائی یعنی نواز اور زرداری دونوں کے دائو پیچ تو آپ دیکھتے آ رہے ہیں کہ جن میں وعدے قرآن و حدیث نہیں ہوتے وکیل بن کر بھی مخالفت میں اترا جا سکتا ہے۔ دعوتیں ہوتی ہیں مگر خطرناک صورت حال میں ملتوی بھی کی جا سکتی ہیں اور پھر چھرا گھونپنے کا موقع ملے تو ضائع نہیں کیا جاتا۔ سڑکوں پہ گھسیٹنے سے لے کر انواع و اقسام کی ڈشز پر مشتمل دعوت بھی ہوتی ہے۔ یہ سارے اشارے کیا بتاتے ہیں بہرحال آج کل تو وہ شیرو شکر ہیں اور شیر مال کھانے کی آرزو ہے۔ جو بھی کھچڑی پک رہی ہے کہ کوا لایا دال کا دانہ اور چڑیا لائی چاول کبھی کبھی صوفی تبسم کی مشہور نظم یاد آتی ہے کہ ٹوٹ بٹوٹ نے کھیر پکائی خالہ اس کی لڑکی لائی‘ پھوپھی لائی دیا سلائی۔ امی نے پھر آگ جلائی۔ آپ پڑھتے جائیے یہ نظم۔ مگر ادھر سیاسی کھیر میں مسئلہ ہے کہ بعض اوقات پکاتا کوئی اور ہے اور کھاتا کوئی اور ہے: میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے سر آئینہ مرا عکس ہے پس آئینہ کوئی اور ہے سرکس تو چل رہا ہے کرتب تو دکھائے جا رہے ہیں ۔شیر تیر کھا کر دکھاتا ہے اور اسے کچھ نہیں ہوتا۔ تیر انداز کو بھی شیر نہیں کھاتا۔ آنکھیں کام نہیں کر رہی کہ نظر باندھ دی گئی ہے ۔شہید بے نظیر بھٹو کی برسی پر عہدو پیمان کی تجدید کی گئی۔ دلچسپ باتیں بھی ہوئی کہ مریم نواز نے کہا کہ بچوں نے وزیر اعظم کو تکنی کا ناچ نچا دیا۔ ویسے بچہ تو ہر عمر میں اندر چھپا ہوتا ہے: ایک بچہ مرے اندر بھی چھپا بیٹھا ہے روٹھ جاتا ہے میں جب اس کو منانا چاہوں زرداری اور بلاول نے کہا ہے کہ وہ مشرف کی طرح عمران خاں کو بھی نکال سکتے ہیں۔ ویسے میں نے ایک شاہ صاحب کو جن نکالتے دیکھا تھا کہ جب انہوں نے جن سے عہد لیا تھا کہ وہ متاثرہ لڑکی سے نکلتے وقت کوئی نقصان کر کے نہیں جائے گا۔میرا خیا ل میں مشرف نے نکلنے سے پہلے بہت نقصان کر دیا تھا!ویسے یہ بات دلچسپ کی گئی کہ کوڑا کرکٹ جمع کر کے تحریک انصاف بنائی گئی۔ اس پر مجھے سخت احتجاج ہے کہ یہ جماعت ہرگز ق لیگ کی طرح نہیں بنی بلکہ یہ اچھے لوگوں سے مل کر بنی تھی۔ یہ کوڑا کرکٹ بعد میں داخل کیا گیا ۔ تحریک انصاف کے فائونڈرز تو پیچھے رہ گئے۔ جسٹس وجہہ الدین کی ایک مثال ہی کافی ہے۔ اب تو بھان متی کا کنبہ بھی جڑ چکا ہے۔ بہت ہی پرلطف بات یہ ہوئی کہ مریم نواز کی موجودگی میں شیر کا شکاری آصف علی زرداری کے نعرے لگائے گئے۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کارکن اور جیالے شعور سے کس قدر عاری ہوتے ہیں۔ ہو سکتا ہے مریم کہتی ہوں: جانا پڑا رقیب کے در پر ہزار بار اے کاش جانتا نہ تری رہگزر کو میں میرے محترم قارئین!میں نے کوشش کی تھی کہ ہلکے پھلکے انداز میں دلچسپ خبروں کوجوڑ کر متنجن قسم کا کالم لکھ دیا جائے۔ ان میں ایک دلچسپ بیان سراج الحق کا بھی تھا کہ نالائق طالب علم نقل لگا کر بھی فیل ہو گئے۔ انہوں نے درست کہا کہ اسے سوچ سمجھ کر نقل لگانا چاہیے تھی۔ وہ جو کہتے ہیں کہ نقل کے لئے عقل کی ضرورت ہوتی ہے مجھے وہ شخص یاد آ گیا جس نے ایک طالب علم کو باہر کھڑا ہو کر انگریزی کا مضمون لکھوانا شروع کیا تو کہا ’’آگے قومہ‘‘اندر سے نقل لگانے والے نے پوچھا قومے کے سپیلنگ کیا ہیں۔ نقل لگوانے والے نے زور سے کہا ‘اوئے بدبخت تجھ کو تو فیل ہو جانا چاہیے۔ نقل لگوانے کا ہمارا بھی آخر کوئی معیار ہے۔ عوام کے ساتھ جو سلوک انہوں نے مہنگائی کی زبان میں کیا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ گویا عوام گرانی کے باعث چیخ رہے اور ماتم کناں ہیں اور خان صاحب سینے پر ہاتھ رکھ کر کہہ رہے ہیں میں تابعدار‘ میرے لائق کچھ اور؟۔ وہ واقعہ تو بہت مشہور ہوا تھا کہ احمد فراز نے اقبال ساجد کو روک کر کہا تھا کہ تو نے اپنے شعر میں مجھے رگڑا لگا دیا شعر کچھ یوں تھا , ندیم و فیض و فراق و فراز کچھ بھی نہیں نئے زمانے میں ان کا جواز کچھ بھی نہیں اقبال ساجد کہنے لگا اوئے تو تو قافیے کی مجبوری کے باعث اس شعر میں آ گیا وگرنہ وہ تینوں تو بہت معتبر بڑے تخلیق کار ہیں۔ ایک شعر کے ساتھ اجازت: جاگتی سی آنکھ سے کتنے خواب دیکھتے دشت پار کر گئے ہم سراب دیکھتے