وفات کیلئے جمعہ کا دن قسمت والوں کو ہی نصیب ہوتا ہے ۔ سید منور حسن بھی ایسے ہی خوش قسمت ہیں ۔ منور حسن کتنوں کے ہی مرشد تھے ۔ کتنوں نے ہی ان سے جینا سیکھا ۔ کتنے ہی مایوس لوگوں میں ا ن کی وجہ سے امید پیدا ہوئی ۔ منور حسن نے ایک بااصول زندگی گزاری ۔ وہ اپنے دو ٹوک موقف کی وجہ سے بہت معروف تھے ۔ جماعت کے اندر اور جماعت کے باہر ، دونوں ہی طبقات میں وہ حق گوئی و بیباکی کی عمدہ مثال تھے ۔ جو کہا ، پھر اس پر یو ٹرن نہ لیا بلکہ ڈٹ گئے ۔ اس ضمن میں وہ مقتدر قوتوں کی پرواہ کرتے تھے اور نہ ہی ’’پوشیدہ‘‘ قوتوں کو خاطر میں لاتے تھے ۔ وہ علم و عمل کے میزان میں ایسے کھرے شخص تھے جو ، تھے تو جماعت اسلامی کے امیر ، لیکن سیاست کی بجائے زیادہ تر دین کی بات کرتے تھے ۔ ان کی گفتگو کی ہر کڑی رجوع الیٰ اللہ پر آ کر ملتی تھی ۔ میری جب بھی منور حسن سے ملاقات ہوئی ، دنیا داری سے بے نیاز پایا ۔ نماز کا وقت ہوتا تو اذان عموماً مسجد میں سنا کرتے ۔ گھر ہوتے یا دفتر ، موذن کے بعد منور حسن ہی مسجد میں جانے والے پہلے شخص ہوا کرتے تھے ۔ متقی ، پرہیز گاری ، تکبیر اولیٰ ، سادگی ، عاجزی اور انکساری کا ایسا نمونہ تھے کہ کردار اور گفتار میں ، صحیح معنوں میں اللہ کی برہان تھے ۔ انہیں دیکھ کر قرون اولیٰ کی یاد تازہ ہوتی تھی ۔ منور حسن بائیں بازو سے تعلق رکھتے تھے لیکن پھر دائیں بازو کی طرف ایسے مائل ہوئے کہ آخری دم تک اسی راستے کو ہی پکڑے رکھا ۔ (محمد نورالہدیٰ)