فکر انجام کر انجام سے پہلے پہلے دن تو تیرا ہے مگر شام سے پہلے پہلے ہم بھی سوتے تھے کوئی یاد سرہانے رکھ کر ہاں مگر گردش انجام سے پہلے پہلے رضی شوق ساتھ ہی یاد آ گئے کہ انہوں نے بھی اسی گردش کو محسوس کیا تو کہا:اور کہا مجھ سے تیری کوزہ گری چاہتی ہے میں یہاں تک تو چلا آیا ہوں گردش کرتے‘کائنات کا بننا سنورنا اور پھر بگڑنا سب کچھ خالق کے ہاتھ میں ہے پھر میاں محمد سامنے آن کھڑے ہوتے ہیں‘لوئے لوئے بھر لے پانی جے تودھ بھانڈا بھرنا۔ شام پئی بن شام محمد گھر جاندی نوں ڈرنا‘ مختصر بات یہ کہ اس کے اذن کے بغیر بات بھی نہیں ہلتی اور نہ کسی کو کچھ ملتا ہے۔ وہ جو رات سے دن اور دن سے رات نکالتا ہے وہ جو ٹھنڈی ہوائوں کے ذریعہ خوشخبری بھیجتا ہے اور تعاقب میں ابر آتے ہیں اور پھر مردہ زمین زندہ ہو جاتی ہیں اس سے امیدوں کو ثمر بار کر دیتا ہے۔ بس اس کی زمین پر فساد برپا نہ کرویہ تو تمہید تھی مجھے ایک نہایت دلچسپ کالم لکھنا ہے کہ 92 نیوز میں ایک خبر نظر نواز ہوئی کہ اوچ شریف میں ایک شہری عابد حسین کے ہاں 29 انتیسویں بچے کی پیدائش ہوئی آپ اس بیان کو غیر سنجیدہ بات خیال نہ کریں۔ اللہ کی مخلوق بڑھ رہی ہے تو اس میں تشویش کیسی اور یہ ہنسی کی بات تو بالکل بھی نہیں۔یہ کوئی آسان کام تو ہے نہیں دیکھیے مجھے یہاں بھی میر یاد آ گئے: زور و زر کچھ نہ تھا تو بارے میر کس بھروسے پہ آشنائی کی دیکھیے جو شخص اٹھائیس بچوں کی کفالت کر سکتا ہے یقینا وہ انتیسویں کی بھی کر لے گا اصل بات تو ان کی تعلیم و تربیت ہے جو ازبس ضروری ہے۔ بہرحال یہ ایک منفرد خبر ہے تو اس نے ایک موقر اخبار میں جگہ پائی ہے۔ میرے لئے یہ اس لیے بھی دلچسپ تھی کہ میرے ایک دوست لیہ میں رہتے ہیں ان کے اٹھائیس بچے تھے اور 71پوتے پوتیاں تھے کوئی ان کو شادی پہ بلاتا تو پھر کسی اور کو بلانے کی حاجت نہ رہتی۔ ایک مرتبہ وہ کسی جرم میں پکڑے گئے تو ایک لفافے میں مجھے ایک خبر ارسال کی کہ چھپوا دوں شکر ہے کہ میں نے خبر پڑھ لی لکھا تھا خاندانی منصوبہ بندی والوں نے ایک سازش کے تحت مجھے گرفتار کروایا ۔ میں نے مسکرا کے خبر ایک طرف رکھ دی۔ وہ بات اپنی جگہ کہ بچے دو ہی اچھے۔ ظاہرہے اتنے بچوں میں سے دو بچے تو اچھے نکل ہی آئیں گے۔ کثرت اولاد پرانے زمانے بھی فخر رہا ہے۔ مگر اصل بات پھر وہی کہ تربیت اصل مسئلہ ہے۔ آج کل موجودہ مہنگائی میں تو مرغیاں پالنی مشکل نظر آتی ہیں۔ خیر جو بھی ہے وہ ہمارے دوست یعقوب پرواز کا ایک خوبصورت شعر کہ جس میں ملال بھی ہے شکایت بھی ہے اور عہد حاضر کا المیہ بھی آپ لوگوں کے لئے: میرے بچے بھی ہیں مجھ سے گریزاں گھلونا ہوں مگر ٹوٹا ہوا ہوں اب یہ تصویر کا دوسرا رخ ہے کہ بچے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے۔ اب بات بچوں کی چل نکلی ہے تو ایک اور خبر دیکھیں کہ اللہ کی کیا شان ہے کہ مردہ قرار دی گئی خاتون کے ہاں تین بیٹوں کی پیدائش اور اس سے بھی عجیب و غریب بات کہ محنت کش باپ نے اپنے ان پیدا ہونے والے فرزندان کا نام بالترتیب نواز شریف‘ شہباز شریف اور حمزہ شریف رکھا ہے۔مجھے ڈر ہے کہ یہ بندہ کہیں ریمانڈ پر دھر ہی نہ لیا جائے۔خوشی کی بات یہ کہ مریدے کے اس ہسپتال کے عملے بچوں کی پیدائش کو ممکن بنانے پر عثمان ڈار‘ یاسمین راشد اور ہسپتال کے ایم ایس نے مبارکباد دی ہے۔ ہو سکتا ہے بچوں کے والد نے ان کے نام ان مبارکبادوں کے بعد رکھے ہوں۔ دیکھیے مریم نواز انہیں کب مبارک باد دیتی ہیں۔ معروف شاعر ہمارے شہزاد احمد یاد آئے۔ انہوں نے مجھے خود بتایا تھا کہ کراچی کے ہسپتال میں جب انہیں مردہ قرار دے کر ڈیتھ سرٹیفیکٹ بھی میرے ورثا کے ہاتھ میں تھما دیا گیا تو میں سب کچھ دیکھ بھی رہا تھا اور سن بھی رہا تھا۔ جب میرے گھر والے سٹریچر کو لے کر مردہ خانے کی طرف چلے کہ کچھ دیر وہاں رکھنا تھا وغیرہ وغیرہ۔ انہوں نے کہا کہ اچانک متعلقہ ڈاکٹر گویا ہوا ایک منٹ اس لاش کو واپس لائیں۔ اس ڈاکٹرکا مجھے نام بھول گیا۔ شہزاد احمد کے سینے پر زور دار انداز میں تھپتھپایا۔ ایک لمحہ آیا کہ میں نے اپنے جسم میں حرکت محسوس کی۔ اس کے بعد شہزاد احمد کا نیا شعری مجموعہ آیا تو انہوں نے اس کا انتساب اس ڈاکٹر کے نام کیا۔ شعری مجموعے کا نام بھی بڑا بامعنی تھا۔ ٹوٹا ہوا پل۔ وہ لمحہ یا پل جب شہزاد صاحب واپس لوٹ آئے۔ اس کے بعد شہزاد صاحب کئی برس زندہ رہے۔ تو اللہ پاک قرآن میں صاف کہتا ہے کہ اس کے اذن کے بغیر ایک سانس زیادہ ہو سکتا ہے اور نہ کم، آپ بس اپنی دی گئی زندگی کو قیمتی بنائیں۔ لوگوں کے کام آئیں۔ شہزاد احمد کا شعر بھی یاد آ گیا: میں اسے چھوڑنے جاتا نہیں دروازے تک لوٹ آتا ہوں کہ اب کون اسے جاتا دیکھے شہزاد احمد نے بھی اپنے بچوں توصیف اور توحید کی کمال تربیت کی۔حضرت علیؓ کا بھی قول ہے کہ موت بندے کی حفاظت کرتی ہے۔ ہاں اللہ نے آپ کو اختیار دیا ہے بیماری کا علاج بھی سنت ہے۔ سب کچھ نظر آ رہا ہے ہو تو پھر عقل بھی استعمال کرتے ہیں۔ نبی پاکؐ نے ایک کوڑھی سے ہاتھ نہیں ملایا تو یہ تعلیم ہے۔ میرا کہنے کا مقصد یہ کہ اپنے اوپر وبا کا خوف طاری نہ کریں۔ صرف ایک ہی خوف ہے جس کو اپنے اوپر طاری کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ ہے اللہ کا خوف جو اللہ سے ڈرتا ہے وہ کسی سے نہیں ڈرتا جو اللہ سے نہیں ڈرتا وہ سب سے ڈرتا ہے: وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات باقی آپ ایس او پیز کا خیال رکھیں۔ نماز پڑھیں تراویح پڑھیں اور ساری انسانیت کے لئے دعا کریں۔ میں تو اپنی بیگم کو بھی تراویح پر لے گیا کہ قاری حبیب اللہ صاحب کا قرآن سنیںمسجد قادسیہ والے بھی بہت اچھا کرتے ہیں کہ عورتوں کے لئے نماز کا اہتمام کرتے ہیں۔ ظاہر ہے عورتیں ہی اصل میں بچوں پر اثر انداز ہوتی ہیں۔