سبز رُتوں کی جھلمل میں جب شاخیں پھول اٹھاتی ہیں بہکے بہکے سے رہتے ہیں بادل چاند ہوا اور میں میں کوئی بجھارتیں نہیں ڈال رہا۔ ایک حقیقت حال کا ذکر کرنا چاہتا ہوں کہ جس طرح انصاف ہوتا ہوا دکھائی دینا چاہیے اس طرح کام ہوتا ہوا کیوں نظر نہ آئے۔ یہ کام کسی بھی سطح کا ہو اصل بات یہ ہے کہ کام کرنے والے میں اخلاص کتنا ہے۔ آج کل بھی ہم حکومتی سطح پر کیسے کیسے بلند بانگ دعوے سنتے ہیں مگر یہ پہلو میں شور کی طرح ہی ہوتا ہے‘ دل چیریں تو بوند بھی برآمد نہیں ہوتی۔ میں ذکر کروں گا ایک چھوٹی سطح کا کہ مثال کہیں سے بھی اٹھائی جا سکتی ہے۔ ہماری کالونی مرغزار سالہا سال سے قائم ہے اور جیسے تیسے عام کالونیوں کی طرح چلتی چلی آ رہی تھی۔ مگر وہی کہ تبدیلی نظر آتی ہے‘ بتانا نہیں پڑتا۔ اتفاق سے یہاں ایک شخص شہزاد احمد چیمہ آ گیا اس کا ہمیں بعد میں پتہ چلا کہ کام دیکھ کر ہر کوئی پوچھتا کہ خیر تو ہے! یہ کام کون کروا رہا ہے۔ نئی سڑکیں بن رہی ہیں۔ صفائی ستھرائی چوکوں چوراہوں میں گملے اور پھول۔مارکیٹوں میں فٹ پاتھ اور پارکنگ ہم نے سوچا کہ آخر یہ ہو کیا رہا ہے۔ پتہ چلا کہ ایک دیوانہ شہزاد احمد چیمہ نے یہ پیش رفت کی ہے۔ مزے کی بات یہ کہ جب ایسے کام ہو رہا ہواور بہتری آ رہی ہو تو یہ بھی بعض سے برداشت نہیں ہوتی اور شک و شبہات کا اظہار کرتے ہیں بھئی پیسہ کہاں سے آ رہا ہے؟ لگتا ہے کوئی لمبی ایڈ ملی ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ اتفاق سے میری بھی ان سے ملاقات ہو گئی کہ عبدالغفور ایڈووکیٹ نے گھر پہ ایک پروگرام رکھا تھا اس میں چیدہ چیدہ شرفا مدعو تھے۔ وہیں شہزاد احمد چیمہ کی باتیں سننے کا اتفاق ہوا۔ اس توانا اور بیدار مغزشخص نے لگی لپٹی کے بغیر سب کچھ کہہ دیا کہ لوگ اس سے پوچھتے ہیں کہ سوسائٹی میں اتنا کام ہو رہا ہے تو پیسہ کہاں سے آ رہا ہے۔ وہ بتانے لگا کہ وہ کوئی پاگل ہے کہ پیسہ اپنی جیب سے لگائے گا۔ یہ سارا پیشہ خود سوسائٹی یعنی مرغزار سوسائٹی کا ہے۔ فرق یہ ہے کہ میں نے لوگوں کا پیسہ لوگوں پر لگا دیا۔ مجھ سے پہلے یہ پیسہ لیک ہو رہا تھا میں نے دیانتداری سے جمع شدہ رقم سوسائٹی کی بھلائی کے لئے استعمال کی۔ یہ بھی اپنی جگہ درست کہ سڑکوں کا نیا جال بچھانے میں فی گھر دس ہزار اور بیس ہزار لیا گیا۔ مگر سڑکوں پر تو بہت خرچ آیا میں شہزاد احمد چیمہ کی صاف گوئی پر حیران رہ گیا۔ اب کے تو مجھ پر مزید منکشف ہوا کہ اس کے پیچھے اصل میں مرغزار اصلاحی فورم ہے جس کے روخ رواں ڈاکٹر ناصر قریشی اور ان کے دوست ہیں جماعت اسلامی کے رہنما اور معروف سماجی شخص ملک محمد شفق نے اپنے گھر پر ایک پرتکلف ناشتہ دیا اور اس میں ایجنڈا یہ تھا کہ اس فورم کو مزید بہتر کیسے بنایا جائے۔ پتہ چلا کہ اس فورم سے پیشتر الیکشن ہوئے تھے اور اس میںکھینچا تانی اور سیاست کے سوا کچھ نہیں تھا۔ کالونی کا ستیاناس ہو چکا تھا پھر چند مخلص اور دیانتدار دوستوں نے مل کر یہ اصلاحی فورم بنایا تاکہ سیاسی مخاصمت اور ذاتی وابستگیوں سے بالا تر ہو کر کالونی کی بہتری کے لئے کام کیا جائے۔ نتیجہ بہت ہی اچھا نکلا سب کالونی میں بہتری لانے کے لئے یکسو ہو گئے اور پھر شہزاد احمد چیمہ جیسا شخص انہیں میسر آ گیا کالونی کے لوگ خوش ہیں۔ یہ سب کچھ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ آپ کی نیت نیک اور کچھ کر گزرنے کا آپ میں جذبہ ہو تو سب کچھ آپ کر سکتے ہیں۔ پھر تبدیلی آئی رے کا شور نہیں مچانا پڑتا۔ بار بار جھوٹ بولنا اور یوٹرن نہیں لینا پڑتا۔ آپ کام کریں لوگ سب کچھ خود ہی دیکھ لیتے ہیں۔ پھر میں وہی بات کروں گا کہ آپ کسی بھی سطح پر کچھ کر گزرنے کا طے کر لیں تو اس کے ثمرات سامنے آ جائیں گے۔ دوسری بات یہ سامنے آئی ہے کہ آپ حکومتوں پر نہ رہیں۔اپنا بوجھ خود ہی اٹھانا پڑتا ہے۔ بس آپ آغاز کر دیں: کس نے سیکھا ہے نقش پا رکھنا پیر اٹھایا تو آ گیا رکھنا وہی کہ خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی۔ نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا۔ آپ دیکھتے نہیں کہ حکومت کے سارے رتن کس کام میں لگے ہوئے ہیں۔ نواز شریف باہر چلے گئے اور یہ تاسف میں پیچھے لکیر پیٹ رہے ہیں۔کوئی اٹھتا ہے تو کہتا ہے کہ نواز شریف کے دل کا نہیں دماغ کا علاج ہونا چاہیے۔ کیا ایسی مہمل باتیں کرنے والے کا علاج بھی ضروری نہیں۔قوم کو آپ کیا دے رہے ہیں۔آپ صرف اپنے مخالفین کو گالیاں دے رہے ہیں۔ چور چور کا شور مچایا ہوا ہے اور آپ کی بکل میں بیٹھے گندم اور چینی کو سونا بنا کر تجوریاں بھر رہے ہیں۔ کام پوچھیں تو انڈے مرغیاں۔ درست ہے عمران خان تقریر بہت اچھی کرتے ہیں اور یہی کچھ ان کے مصاحبین کرتے ہیں۔ سب کچھ زبانی جمع خرچ۔نوکریاں اور گھر تو روٹی کپڑا مکان کی طرح فرسودہ یاد بن چکے۔ کبھی کوئی پروگرام اور کبھی کوئی پروگرام۔ بنیادی اقدام عنقا ہیں کہ معیشت کیسے درست ہو۔ لوگوں کو ریلیف کیسے ملے۔ کہنے کو تو یہ بھی ایک بے معنی دعویٰ ہے کہ مہنگائی کو کم کرنے میں آپ آخری حد تک جائیں گے۔مہنگائی تو خیر آخری حد تک چلی جائے گی کہ جہاں زندگی کی حد ختم ہو جاتی ہے۔ کیا یہ مہنگائی ختم کرنے کی جسارت ہے کہ کبھی بجلی مہنگی اور کبھی پیٹرول۔آپ کو کوئی نہیں بتاتا کہ جہاں گیس کا بل 500روپے آتا تھا اب 7000سات ہزار روپے آتا ہے۔ آپ جو مرضی کہتے رہیں۔ سب جانتے ہیں کہ آپ کر کیا رہے ہیں: قوم کے غم میں ڈنر کھانا ہے حکام کے ساتھ رنج لیڈر کو بہت ہے مگر آرام کے ساتھ اکبر الہ آبادی نے پتہ نہیں کن کے لئے یہ شعر کہا تھا۔ ہائے ہائے’’درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا‘‘یہ سنی سنائی بات نہیں۔ کل ایک ملنگ مجھے روک کر ہسپتال کا نسخہ دکھانے لگا کہ اپنی بیوی کے لئے دوائیاں لینی ہیں کہ وہاں سے اب دستیاب نہیں ہوتیں۔ میں کیا کر سکتا تھا۔ ایک صد روپے دے سکتا تھا‘ دے دیے پہلے ایسے نہیں تھا۔ اب تو شاید غریب کے مرنے پر بھی اسے دبانے کا مسئلہ پیدا ہونا شروع ہو جائے کم از کم اتنا تو ہو کہ اپنی ناکامی کے بعد حکومتی لوگ کچھ شرمندہ ہی ہوں۔ وہ سارے مسائل کی ذمہ داری جانے والوں پر ڈال رہے ہیں کہ اس سے آسان کام کوئی نہیں۔ میں پھر مرغزار کالونی کی بات کروں گا کہ ایک یہ شخص نے کام کرنے کا ارادہ کیااور کام کر دکھا یا۔ جو بھی ہے جن کے ذھنوں میں تعمیر کا سودا ہے اور جو باضمیر ہیں اور محب وطن ہیں وہ کسی انعام اور صلا کی پروا کیے بغیر کام کر رہے ہیں۔ آپ فطرت سے ہم آہنگ ہو جائیں کہ وہ بھی مسلسل عمل میں رہتی ہے’’ کہ آرہی ہے صدائے کن فیکون‘‘: جب پھول چپ ہوئے تو ثمر بولنے لگے پھر اس کے بعد سارے شجر بولنے لگے