رمضان سے چند روز پہلے، یکایک بایاں کان بند ہو گیا۔ مصیبت پر مصیبت یہ پیش آئی کہ سر چکرانے لگا۔ اس گھمائو نے، چلنے میں توازن کی حِس کو بھی متاثر کر دیا۔ ڈاکٹر صاحب علامات سے مرض تک پہنچنے کے قائل ہی نہیں تھے۔ ع طبیبوں کو تو اپنی فیس لینا اور دوا دینا پہلے چند ٹیسٹ کیے گئے اور پھر چھے عدد دوائیں تجویز فرمائیں۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ آرام کیجیے اور ورزش سے کامل پرہیز۔ قصہ مختصر، مسئلہ زیادہ ٹیڑھا تھا نہیں، لیکن ڈاکٹر صاحب کی خاص توجہ سے ہو کر رہا۔ گھر سے باہر نکلنا، چند روز تقریباً بند رہا۔ پڑھنا لکھنا موقوف۔ گھر ہی میں، کئی روز بولایا بولایا پھرا کیا۔ شیخ سعدی کا یہ شعر، پوری طرح سمجھ میں آ گیا۔ اگر خود ہفت سبع ازبر بخوانی چو آشفتی، ا ب ت ندانی مطلب یہ کہ وقت کی چھْری تلے آئے اور ساری منطق اور غرہ، ہوا ہو گئے۔ دست و پا، الحمدللہ سلامت، لیکن زیادہ حرکت نہ کرنے کی پابندی کے ساتھ۔ غرض بقول ِمومن ع کوئی دن تو "مجھ" پہ کیا، تصویر کا عالَم رہا کلام ِپاک میں آیا ہے کہ خدا کی قْدرت کے نشان، انسان کی ذات میں بھی موجود ہیں۔ ہاں! ہم غور البتہ کم کرتے ہیں۔ وَفِی نفْسِکْم اَفَلَا تْبصِرْونَ۔ خْدا کا شکر ہے کہ رمضان سے عین پہلے، اس تکلیف سے نجات ملی۔ سبق یہ مِلا کہ کان صرف سْننے کا کام نہیں دیتے۔ ان میں ذرا سا بگاڑ، پورے جسم کا امتحان بن کر رہ جاتا ہے! آدمی کسی سخت تکلیف سے گْزرتا ہے تو بہت سے لفظوں کے معنٰی میں، نئی جان پڑ جاتی ہے۔ بعض چیزیں، گویا پہلی مرتبہ سمجھ میں آنے لگتی ہیں۔ کہنا چاہیے کہ ذرا سی گوشمالی، اٹھی ہوئی آنکھیں جھْکا اور بند کان کھول کر رکھ دیتی ہے۔ یہ شاعری سْنی تھی کہ ع میرے خوابوں اور خیالوں کے بھی، گویا کان ہیں لیکن کانوں کا خوابوں اور خیالوں پر یوں چھا جانا، کاہے کو سْنا ہو گا ! ذہن میں عبرت کے، کچھ اونچے اونچے مضامین اْتر رہے تھے کہ پل بھر کو جھپکی سی آ گئی۔ اْٹھ کر ٹی وی آن کیا۔ دیکھا کہ آئی ایم ایف کی ڈائریکٹر کرسٹین لاگارڈ کسی سے ملاقات کر رہی ہیں۔ ملاقاتی کی کمر، کیمرے کی طرف ہے۔ گفتگو سے پتا چلا کہ وہ کرسٹین لاگارڈ کی پیٹھ ٹھونک رہا ہے۔ کرسٹین کی بتیسی نکلی پڑ رہی ہے۔ کہتا ہے کہ پاکستان سے تم نے وہی شرائط منوائیں جو ہم نے طے کی تھیں۔ اسے باندھنے کا پہلا مرحلہ طے ہو گیا۔ اگلے مرحلے میں۔ میں نے گھبرا کر چینل تبدیل کر دیا۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نظر آئے۔ اپنی بیٹی اور داماد کے ساتھ، وہ کھانا کی میز پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ میاں بیوی دونوں بہت خوش دکھائی دے رہے ہیں۔ ٹرمپ کے چہرے پر تاثرات، کچھ ایسے ہیں کہ جیسے دنیا فتح کر آئے ہوں۔ بڑے غرور سے انہوں نے جام اٹھایا اور اپنے داماد کو مخاطب کر کے کہا کہ جیرِڈ! جب میں کوئی فیصلہ کر لوں، تو کوئی اسے بدل نہیں سکتا۔ میں نے تمہیں بتایا تھا کہ میرے پائوں میں ساری دنیا کا پائوں ہے، کوئی چوں بھی نہیں کرے گا۔ ذرا سے توقف کے بعد، گردن کو اصیل مْرغے کی طرح اکڑا کر بولے۔ تمہیں ایک دلچسپ بات بتائوں؟ میں نے فلاں اور فلاں ممالک کے حکمرانوں کو پہلے ہی وارننگ دے دی تھی کہ ایک حرف بھی مذمت کا نہ نکلے۔ خیر، یروشلم اور گولان ہایٹس کا مسئلہ میں نے حَل کر دیا ہے۔ تیسرے نمبر پر۔ مجھے لگا کہ جیسے میرے دونوں کان بند ہو رہے ہیں۔ جلدی سے ریموٹ سے اگلا چینل لگایا۔ اب منظر کیپٹل ہِل کے کسی دفتر کا تھا۔ امریکن وزیر ِخارجہ مائیک پومپیو، نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر جان بولٹن اور چند سابق وزراء میکنامارا، کسنجر، برزنسکی اور ڈانلڈ رمزفیلڈ وغیرہ، کسی شخص کے حضور، مودب بیٹھے ہوئے ہیں۔ اس آدمی کی بھی پیٹھ دکھائی دے رہی ہے۔ زیر ِبحث معاملہ ایران کا ہے۔ کچھ اختلافی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ ایران تر نوالہ نہیں ہے۔ کباب نہیں، یہ ہڈی بن جائے گا اور حلق میں اٹک کر رہے گا۔ رْو بر قفا شخص، اب تک خاموش تھا۔ اچانک اس نے ہاتھ اْٹھا کر خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔ اب اْس نے ایک ایک کو لتاڑنا شروع کیا۔ میکنامارا اور کسنجر سے کہا کہ خلیج ِٹونکن میں حملے کے جھوٹ سے تم لوگوں نے ویت نام کی جنگ شروع کی تھی۔ ساری دنیا دیکھتی ہی رہی اور ویت نام اپنے ہمسایہ ممالک سمیت برباد کر دیا گیا۔ (پہلو بدل کر رْخ، برزنسکی کی طرف پھیرا) برزنسکی! تم نے قسم کھائی تھی کہ افغانستان کو سوویت یونین کا ویت نام بنا کر رہو گے۔ اسی لیے، سی آئی اے کے ذریعے نہ صرف افغانستان، بلکہ سوویت یونین کی مسلمان ریاستوں میں بھی تخریب کے بیج بوئے تھے۔ لاکھوں بے گناہ مارے گئے اور تم بغلیں بجاتے رہے۔ روے سخن رابرٹ گیٹس کی طرف پھرا۔ باب! جعلی تصویریں دِکھا کر، سعودیوں کو تم لوگوں نے باور کرایا کہ عراقی فوج، سعودی عرب میں گھْس آئی ہے۔ خوف کے ماروں سے اربوں ڈالر اینٹھ کر، ایک مستقل ٹھیا ٹھکانہ بنا کر، گھْس بیٹھے۔ پھر نو گیارہ کے واقعے کے بعد، افغانستان کے ساتھ ہی تم نے حْکم دے دیا تھا کہ عراق پر حملے کی بھی پوری تیاری کر لی جائے۔ جب حیرت زدوں نے تم سے سوال کیا کہ کہاں عراق، کہاں افغانستان؟ تو تم نے ہنس کر کہا تھا کہ افغانستان میں تباہ کرنے کے لائق عمارتیں نہیں ہیں۔ تم سب، کان کھول کر سْن لو کہ ایران۔ اچانک میری آنکھ کھْل گئی۔ سارا بدن پسینے سے بھیگا ہوا تھا۔ کانپتے ہوئے ہاتھوں سے ٹی وی کھولا۔ پہلے چینل پر حکومتی ارکان آئی ایم ایف کے پیکج پر ایک دوسرے کو شاباش اور مبارکباد دے رہے تھے۔ گویا ع میں اپنی داد خود دے لوں کہ میںبھی کیا قیامت ہوں دوسرا چینل لگایا۔ اس پر ڈونلڈ ٹرمپ قصر ِسفید میں افطار پارٹی میں مرغ ِزریں بنے بیٹھے تھے۔ تیسرے چینل پر ایک صاحب امریکا اور ایران کے تعلقات کی بابت جو کچھ کہہ رہے تھے، اس کا خلاصہ یہ تھا کہ ع ہاتھا پائی ہے شب ِوصل کی، کچھ غم نہ کرو! میں نے سکون کا سانس لیا، پسینہ پونچھا اور دوبارہ انٹا غفیل ہو گیا!