عمران خان کی مخالفت نے شیر اور بکری کو ایک ہی گھاٹ پہ پانی پینے پر مجبورکردیا۔یہ وہی سیاستدان ہیں جو الیکشن میں ایک دوسرے کو سڑکوں پر گھسیٹنے اور پیٹ پھاڑ کر دولت نکالنے کے دعوے کرتے تھے ۔آصف علی زرداری شریف خاندان سے ملاقات تو درکنار ان کا فون سننے تک کے روادار نہ تھے۔ اب نہ صرف یہ سب شیر وشکر ہوچکے بلکہ متحدہ مجلس عمل اور عوامی نیشنل پارٹی کوبھی بھان منتی کے اس کنبے میں شامل کرچکے ہیں۔ان کا ایجنڈا الیکشن کے عمل، الیکشن کمیشن، عدلیہ ، نیب اور عسکری لیڈرشپ کو مطعون کرنے کے سوا کچھ نہیں۔ عمران خان کی دشمنی نے ان لیڈروں کو اس قدر اندھا کردیا کہ وہ سیاسی اختلافات فراموش کرکے ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے۔یہ بھول گئے کہ عوام کا حافظہ کمزور ہے لیکن سوشل میڈیا اور جدید ٹیکنالوجی نے انہیں ایسے ذرائع مہیا کردیئے کہ وہ سیاستدانوں کی تقاریر اورانٹرویوز کے کلپ دیکھ دیکھ کر شہری انگشت بدنداں ہیں۔ روایتی سیاسی لیڈرشپ ملک میںابھرنے والی متوسط طبقہ کی نئی قیادت‘ جو جاگیردار ہے نہ ہی صنعت کار‘ جس کی باگ ڈور تحریک انصاف نے سنبھالی ہے کو اسی مرحلے پر ڈس کریڈٹ کرنا چاہتی ہے تاکہ ملک کے اندر یہ بیانیہ مقبول ہو جائے کہ برسراقتدارآنے والی پارٹی کی کوئی ساکھ نہیں ‘وہ اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر سوار ہوکر ایوان اقتدار تک پہنچی اور اسے زبردستی عوام پر مسلط کیاگیا۔ روایتی سیاستدان جانتے ہیں کہ اگر حکومت کی اخلاقی ساکھ نہ ہو۔اس کا سفینہ ڈانواڈول ہو تو وہ بڑے فیصلے کرپاتی ہے اور نہ فرسودہ نظام پر ضرب لگانے کے قابل ہوتی ہے۔ الیکشن میں دھاندلی تو ایک بہانہ ہے اصل مسئلہ احتساب کے کوڑے سے کھال بچانا ہے۔ عمران خان نے برطانوی ہائی کمشنر سے لندن کے بینکوں میںجمع پاکستان سے لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کی بات کرکے جلتی پر تیل ڈال دیا۔دنیا کے کئی ایک ممالک بالخصوص سوئٹزرلینڈ، متحدہ عرب امارات اور برطانیہ لوٹی ہوئی دولت کی محفوظ پناہ گائیں ہوتی تھیں لیکن رفتہ رفتہ ان ممالک نے بینکنگ نظام میں اصلاحات کیں ۔ اب وہ متعلقہ ممالک کو معلومات فراہم کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرتے بلکہ چوروں کو پکڑانے میں معاونت کرتے ہیں۔ نوازشریف کے خلاف کیس میں متحدہ عرب امارات نے شواہد فراہم کرنے میں کسی کوتاہی کا مظاہرہ نہیں کیا۔نامزد وزیرخزانہ اسد عمر کہتے ہیں کہ لوٹی ہوئی دولت واپس لانا حکومت کے پہلے سو دنوں کے ایجنڈے میں شامل ہے۔بدقسمتی سے پاکستان میں بہتی کنگا میں ہر کسی نے نہایا۔ سندھ میں پیپلزپارٹی کے لیڈروں نے گزشتہ دس برسوں میں خزانے کو مال مفت دل بے رحم کی طرح برتا۔اگر حکومت لوٹی ہوئی دولت کا عشرے عشیر بھی واپس لانے میں کامیاب ہوگئی تو اسے نہ صرف عوامی پذیرائی ملے گی بلکہ ملک لوٹ کر فرارہونے کا سلسلہ بھی رک جائے گا۔ پاکستان کو سیاسی عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے کئی ایک طاقتیں اور ادارے کمک فراہم کرنے کوہروقت تیار رہتے ہیں۔ عالمی میڈیا پہلے ہی الیکشن کی شفافیت پر انگلی اٹھاچکا ۔ احتجاج کی بھٹی دہکے گی تو تیل ڈالنے والے دوڑ پڑیں گے۔ ماضی میں چلنے والی سیاسی تحریکوں کو ملنے والی غیر ملکی امداد کے شواہد کوئی ڈھکے چھپے نہیں۔پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے نے کئی ایک ممالک کو مشتعل کررکھا ہے۔ حال ہی میں ایک اعلیٰ امریکی عہدے دار نے آئی ایم ایف کو خبر دارکیا کہ چوکنا رہنا کہ کئی پاکستان اس سے حاصل کردہ قرضے سے چین کی قسطیں نہ چکادے۔ حکمران جماعت تحریک انصاف اور بالخصوص وزیراعظم عمران خان کو اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے مضبوط اعصاب اور تدبر کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔بنیادی نکات پر مفاہمت کے بجائے احتساب کا عمل جاری رکھیں تاکہ قومی سیاست میںپایاجانے والا گند صاف ہو۔ البتہ احتساب کے اداروں خاص کر نیب کو زیادہ سے زیادہ غیر جانبدار اور میرٹ پر فیصلے کرنے کی طرف راغب کرنے کی ضرورت ہے۔ بلاامتیاز احتساب کرے گا تو شہریوں کا اس پر اعتماد قائم ہوگا۔ عوام کو حقیقی ریلیف فراہم کرنے کے لیے بھی فوری اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ پسے ہوئے اور محروم طبقات سستا سکیں۔یہ بھی نظرآنا چاہیے کہ حکومت کمزور اور کم آمدنی والے شہریوں کی فلاح وبہبود کے لیے بے تاب ہے۔متحدہ اپوزیشن کا مقابلہ عوامی مقبولیت کے ہتھیار سے ہی کیاجاسکتاہے جو خدمت اور کارکردگی دکھانے سے حاصل کی جاسکتی ہے۔ اپوزیشن کے جائز مطالبات کو نہ صرف تسلیم کیاجائے بلکہ انہیں پارلیمنٹ کے اندر مختلف کمیٹیوں کے ذریعے مصروف کیا جائے۔ انہیں یقین دلایا جائے کہ حکومت الیکشن ہی نہیں بلکہ پورے جمہوری اور پارلیمانی نظام کو شفاف اور موثربنانے کے لیے حزب اختلاف کے لیڈروں کی مشاورت سے کام کے لیے تیار ہے۔حتیٰ کہ وہ سیاسی جماعتوں کو جمہوری بنانے کے لیے بھی مدد کو تیار ہے۔ اچھا ہوا ! پیپلزپارٹی کی لیڈرشپ اور بعدازاں نون لیگ نے تحریک انصاف کے خلاف سیاسی لڑائی پارلیمنٹ میں بیٹھ کر لڑنے کا فیصلہ کیا۔مولانا فضل الرحمان کی خواہش ہے کہ یہ لڑائی گلی محلے میں لڑی جائے تاکہ مدارس کے طلبہ اپنے فن کے جوہر دیکھائیں۔ انہیں اندیشہ ہے کہ اگر مزاحمت نہ کی تو وہ بتدریج قومی سیاسی منظر نامہ سے غائب ہوجائیں گے۔ آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل والا مزاج رکھنے والی اس قوم میں مولانا فضل الرحمان اپنے پاؤگوشت کے لیے دوسروں کی بھینس ذبج کرنے پر تل چکے ہیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ الیکشن کمیشن توقعات کے مطابق چناؤ کرانے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔اب وقت ہے کہ ان اسباب کا جائزہ لیاجائے کہ آخر الیکشن کمیشن تمام تر اختیارات ، ریاستی اداروں بالخصوص تین لاکھ کے لگ بھگ فوجی نوجوانوں کے تعاون کے باوجود اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے میں کیوں ناکام رہا؟ یہ مطالبہ کہ الیکشن کمیشن استعفے دے کافی نہیں۔پارلیمنٹ کی ایک کل جماعتی کمیٹی بنائی جانی چاہیے جو الیکشن کمیشن کے نظام میں پائی جانے والی خامیوں کو پیشہ ورماہرین کی مدد سے دور کرے۔الیکشن کمیشن کے اسٹاف اور پولنگ کے عملے کی تربیت کے لیے ابھی سے کام شروع کیا جائے۔ ضمنی الیکشن میں نئے تجربات کیے جائیں تاکہ پولنگ کی رفتار تیز کی جاسکے اور موجودہ خامیوں پر قابو پایاجاسکے۔ اصلاح احوال کا کلچر عمومی طور پر ہمارے ہاں جڑ نہیں پکڑ سکا۔ دنیا بھر میں ہر تجربے کے بعد درجنوں رپورٹیں محض اس وجہ سے لکھی جاتی ہیں کہ یہ منصوبہ کس قدر کامیاب ہوا۔ مغربی ادارے کثیر سرمایہ خرچ کرکے دنیا بھر سے ماہرین کو مدعو کر کے غیر جانبدارارنہ جائزے مرتب کراتے ہیں کہ جو پروجیکٹ انہوں نے مکمل کیا اس میں کیا خامیاں اور خوبیاں پائی جاتی ہیں۔ الیکشن کمیشن اگر صرف اساتذہ سے درخواست کرے کہ وہ اپنے تجربات شیئر کریں توتمام کمزوریاں اور مشکلات عیاں ہوجائیں گی۔ بے شمار اساتذہ اور سرکاری ملازمین نے سوشل میڈیا پر جو تجربات شیئر کیے وہ چشم کشا تھے۔ان کے مطابق الیکشن کے عملے کی تربیت اور جدید ٹیکنالوجی سے ناآشنائی بھی ایک بڑا مسئلہ بن کر سامنے آیا۔