ایک سینئیر موسٹ اور بین الاقوامی شہرت کی حامل خاتون فیشن ڈیزائنر کی والدہ کسی زمانے میں فلموں میں چھوٹے موٹے رول کیا کرتی تھیں ، میں نے اس خاتون کو پہلی بار1968ء میں باری اسٹوڈیوز میں دیکھا , وہ فلور فائیو میں ایک گھنٹہ دورانیہ کی ڈاکومنٹری فلم ،، مقدس امانت ،، میں ایک معمولی سے رول کے لئے بلوائی گئی تھیں ، اس مزدور فنکارہ کی دس بارہ سال کی بیٹی بے بی بھی اسی فلم میں ایک اہم رول ادا کر رہی تھی،میرا کردار اس فلم میں مرکزی نوعیت کا تھا، رنگیلا میرے باپ اور ناصرہ ماں کے کردار میں تھے، ایک دن اس بوڑھی ایکسٹرا فنکارہ نے مجھے بتایا کہ وہ نعیم ہاشمی صاحب کی 1957ء میں ریلیز ہونے والی فلم۔۔نگار۔۔ میں بھی کام کر چکی ہے،اب وہ ایکسٹرا سپلائر بھی ہے۔ فلمی لغت میں ایکسٹرا سپلائر اسے کہتے ہیں جو ہیروئن کے ساتھ ناچنے کے لئے یا ہیرو یا ولن کی لڑائی مار کٹائی میں شامل لوگ فراہم کرتے ہیں ، یعنی فلم کے ایسے مناظر جہاں زیادہ لوگوں کی عارضی ضرورت ہو،یا چھوٹے موٹے کردار کے لئے درکار ہوں، اس زمانے میں فلمیں بہت بنا کرتی تھیں اور تمام اسٹوڈیوز کے فلور ڈے نائٹ بک ہوا کرتے تھے۔۔نگار خانوں کے دروازوں پر بھی سینکڑوں نوجوان اس آس پر کھڑے نظر آتے کہ کوئی ایکسٹرا رول انہیں مل جائے یا انہیں ان کے پسندیدہ کسی ایکٹر، ایکٹرس کی ایک جھلک ہی نظر آجائے، گھروں سے بھاگ کر آنے والی لڑکیاں نگار خانوں کے دروازوں پر ہی دلالوں اور تماش بینوں یا اسٹوڈیو ملازمین کے ہتھے چڑھ جاتی تھیں ۔ نجی اسی بوڑھی خاتون کی چار بیٹیوں میں سے ایک تھی جن کا میں ذکر کر رہا ہوں ، ان کا ایک بیٹا بھی تھا ، جس کاانتقال ہو گیا تھا۔ نجی نے بے بی کے نام سے چائلڈ اسٹار کے طور پر فلمی دنیا میں قدم رکھا، قدم کیا رکھنا جی ، اس نے تو آنکھ ہی ایور نیو سٹوڈیوز کے فوارے پر کھولی تھی ، آج کی اس قابل احترام نجی نے جسے اب لوگ کسی دوسرے نام سے جانتے ہیں کئی سو فلموں میں ، فردوس ، نغمہ ، شیریں، سلونی اور اس دور کی دوسری بڑی ہیروئنز کے بچپن کے رول ادا کئے ، اس کی ایک بہن شبو نے بھی کئی فلموں میں ڈانس یا ثانوی کردار ادا کئے ، بعد میں وہ لاہور میں اسٹیج کی معروف ہیروئن بھی رہی ، بے بی نے کبھی اپنے ماضی پر پردے نہیں ڈالے، وہ اپنی زندگی پر کتاب بھی لکھنا چاہتی ہے اور اپنی داستان حیات پر فلم بھی بنانا چاہتی ہے۔ ’’ اب اس بوڑھی ایکسٹرا کے حوالے سے ایک واقعہ جس کی راوی اس کی بیٹی بے بی ہے ٭٭٭٭٭ ’’ سخت سردی کا موسم تھا،رات ڈھل رہی تھی ، بوڑھی ایکسٹرا باری اسٹوڈیوز کے ایک سیٹ پر اس انتظار میں تھی کہ آرٹسٹ اور دوسرے لوگ کب کھانا کھاتے ہیں ؟، اس کے پانچوں بچے گھر میں بھوکے ماں کی واپسی کے منتظر تھے، جب سب نے کھانا کھا لیا تو بڑھیا نے بچا کھچا کھانا سمیٹ لیا، وہ یہ ’’جھوٹا کھانا‘‘ چادر میں چھپائے باری اسٹوڈیوز کے گیٹ سے باہر نکلنے لگی تو نگار خانے کے چوکیدار نے شک پڑ جانے پر اسے روک لیا ، چوکیدار اس کی چادر اتروا کر تلاشی لینا چاہتا تھا اور بڑھیا تلاشی سے بچنا چاہتی تھی ، چوکیدار نے شور مچا کر لوگ جمع کر لئے اور جب اس بوڑھی ایکسٹرا کی چادر اتری تو روٹی اور سالن کے ڈھیر سارے ٹکڑے زمین پر گر گئے‘‘ ٭٭٭٭٭ میں نے اس بڑھیا کی بیٹی بے بی کو بارہ برس کی عمر میں پہلی بار دیکھا تھا۔ وہ مجھ سے چھوٹی تھی ، میرے والد نعیم ہاشمی فیملی پلاننگ والوں کے لئے ایک گھنٹے کی ڈاکومنٹری کے رائٹر اور ڈائریکٹر تھے، دیگر اداکاروں میں وہ خود اور رخسانہ بھی تھیں، فیملی پلاننگ کی یہ فلم حسن طارق مرحوم کو بنانے کے لئے ملی تھی وہ اپنی دوسری فلموں کی تکمیل میں مصروف تھے جس کے باعث انہوں نے یہ فلم ہاشمی صاحب کو بنانے کے لئے دے دی تھی ، جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں اس ڈاکومنٹری کا مرکزی کردار میں ادا کر رہا تھا ، میں رنگیلا کے سات بچوں میں سب سے بڑا اور بے بی میری سب سے چھوٹی بہن کا کردار ادا کر رہی تھی، اس رات جو سین فلمایا جا رہا تھا ، اس میں ہم سب کردار موجود تھے ، سین کچھ یوں تھا کہ میرے فلمی ابا رنگیلا کے بچپن کے ایک دوست نعیم ہاشمی اپنی بیوی رخسانہ کے ساتھ کئی سال بعد ہمارے گھر آتے ہیں ، گھر کا دروازہ کھٹکتا ہے تو میں کنڈی کھول کر باہر جاتا ہوں، دروازے پر دو مہمان کھڑے ہوتے ہیں، ان کے ہاتھ میں مٹھائی کا ڈبہ ہے ، میں ندیدے بچوں کی طرح مٹھائی ان سے چھین کر گھر کے ایک کونے میں چلا جاتا ہوں اور جلدی جلدی ڈبہ کھول کر مٹھائی کھانا شروع کر دیتا ہوں، اسی دوران ایک ہاتھ میری طرف بڑھتا ہے ، یہ ہاتھ ہوتا ہے میری سب سے چھوٹی بہن بے بی کا ، جو چاہتی ہے کہ مٹھائی کا ایک ٹکڑا میں اسے بھی دوں ، میں سین کی ڈیمانڈ کے مطابق اسے مٹھائی دینے کی بجائے ایک زوردار چانٹا رسید کرتا ہوں، میں نے ہاتھ ہلکا رکھنے کی بجائے پوری قوت سے اسے چانٹا رسید کر دیا، بے بی بری طرح فلور کے پکے فرش پر گر جاتی ہے ، اسے سر پر چوٹ لگتی ہے اور سچی مچی خون بھی بہنے لگتا ہے ، سیٹ پر موجود کسی شخص کو حقیقت کا علم نہ ہو سکا اور سین اوکے ہوگیا، اس کے بعد گونج سنائی دی سب کی شاباشی تالیوں کی ، ہاشمی صاحب کیمرہ مین سرور گل سے کہہ رہے تھے ’’ اوئے پتر اے میرا ، پہلا شاٹ ای اوکے کیوں نہ ہندا؟‘ مجھے لگا جیسے میں دلیپ کمار بن گیا ہوں، اگلا سین ٹیک ہونے میں کچھ وقفہ تھا، میں چہل قدمی کے لئے باری اسٹوڈیوز کے فلور فائیو سے باہر نکل آیا ، یہ سوچتے سوچتے اسٹوڈیو کے مین گیٹ تک پہنچ گیا کہ اب میں فلم نگر کابہت بڑا آرٹسٹ بن جاؤں گا،سارا پاکستان مجھے بھی پہچانا کرے گا، لوگ مجھے بھی راہ چلتے ہوئے دیکھا کریں گے، میرا نام لے کر میری طرف اشارے کیا کریں گے۔ میں انہی خیالات اور سوچوں میں گم اسٹوڈیو کے گیٹ تک پہنچ گیا، اور وہاں اچانک مجھ پر حملہ ہو گیا ، میری ہی عمر کے آٹھ دس لڑکے تھے ،سب دل کھول کر میری پٹائی کر رہے تھے ، گھونسے اور لاتیں مارتے ہوئے گالیاں بھی بک رہے تھے ، وہ ایک ہی بات کہہ رہے تھے’’’ تو نے بے بی کو سچی مچی کا تھپڑ کیوں مارا ؟ اس کا سر کیوں پھاڑا؟ ، تجھے ہم بتاتے ہیں کہ تھپڑ ہوتا کیا ہے‘‘ مجھے اچھی خاصی پھینٹی لگا کر وہ لڑکے رفو چکر ہو گئے، مجھے مارنے والے یقینا بے بی کے ساتھی ایکسٹرا لڑکے ہی تھے اور ان تک نہ صرف بات پہنچ گئی تھی بلکہ انہیں میرے فلور سے باہر نکلنے کی خبر بھی ہو گئی تھی، میں واپس فلور فائیو پہنچا ابھی تک اگلے شاٹ کی تیاری ہو رہی تھی، میں ایک نکڑ میں پڑی کرسی پر جا بیٹھا ، والد سمیت کسی کو خود پر تشدد کے اس واقعہ سے آگاہ نہ کیا ،کیونکہ یہ ایک ’’ہیرو کی توہین،، تھی‘‘ اس واقعہ کے بعد پھر میں نے کبھی ایکٹنگ کی طرف دھیان نہ دیا۔