ہم اپنے معاشرہ اور ملک کے منفی پہلووں ‘ کوتاہیوں اورخامیوں کا اکثر تذکرہ کرتے ہیں۔ ماضی کی غلطیوںپر نظر ڈالتے رہتے ہیں۔ لیکن ہمارے سماج اور ریاست کے مثبت پہلو کم نہیں۔ آج ان پر ایک نگاہ ڈال لیتے ہیں کہ ہماری اجتماعی زندگی کے کیا کیا روشن پہلو ہیں۔زندگی صرف منفی چیزوں کو دوہراتے رہنے اور یاد کرنے کا نام نہیں۔ صحت مند روّیہ ہے کہ ہم اپنی سوچ کو متوازن رکھیں۔ جب چوہتر سال پہلے پاکستان وجود میں آیا تو یہ برّصغیر پاک و ہند کا ایک پسمانہ علاقہ تھا۔ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ (اسوقت شمال مغربی سرحدی صوبہ) متحدہ ہندوستان کے سرحدی علاقے تھے جہاں قدیم قبائلی معاشرہ رائج تھا۔ پنجاب اور سندھ جاگیردارانہ نظام میں جکڑے ہوئے نہری ‘زرعی علاقے تھے جہاں صنعتوں کا سرے سے وجودنہیں تھا۔پورے پاکستان میں صنعتی پیداوار کے تین چار کارخانے تھے۔قومی پیداوار میں زراعت کا تناسب نوّے فیصد سے زیادہ تھا۔آج پاکستان کی بیس فیصد مجموعی داخلی پیداوار صنعتی شعبہ سے وابستہ ہے۔ اب زراعت کا حصّہ صرف بیس بائیس فیصد رہ گیا ہے۔ یعنی معیشت کے دیگر شعبے ترقی پاکر وسعت اختیار کرچکے۔ جب یہ ملک بنا لاہوراس علاقہ کا سب سے ترقی یافتہ علاقہ تھا۔شہر کی ساڑھے تین لاکھ آبادی تھی۔ آج ڈیڑھ کروڑ آبادی کا میگا سٹی ہے۔سترسال پہلے اس شہر میں گنتی کے چند لوگوں کے پاس کاریں تھیں۔ کسی کے پاس با ئسیکل ہونااس کے صاحب حیثیت ہونے کی علامت سمجھا جاتا تھا۔اب لاہور کی سڑکوں پرہمہ وقت ہزاروں کاروں کا ہجوم رہتا ہے۔ ملک بھر میں ساٹھ ستر لاکھ کاریں اور سوا دو کروڑ سے زیادہ موٹر بائیکس ہیں۔ ہر سال سترہ اٹھارہ لاکھ موٹر بائیکس فروخت ہوتی ہیں۔ کم آمدن والے لوگوں ‘ محنت کشوں کے پاس بھی اپنی سواری ہے۔آج سے چالیس پچاس برس پہلے یہ تصور کرنا ممکن نہیں تھا۔ قیام پاکستان سے پہلے لاہور کے انارکلی بازار میں مسلمانوں کی چار پانچ دکانیں تھیں۔ مسلمانوں کی اکثریت محنت مزدوری کرتی تھی۔ اشرافیہ کی اکثریت ہندو اور سکھوں پرمشتمل تھی۔ وسطی اور شمالی پنجاب کی زرعی اراضی میں سکھوں کی ملکیت کا تناسب بہت زیادہ تھا۔ سندھ کے اکثر زمیندار ہندو مہاجنوں کے مقروض تھے۔ ان کی زمینیں گروی رکھی ہوئی تھیں۔ پاکستان کا بننا مسلمانوں کے لیے ایک بڑا معاشی انقلاب تھا۔ اس ملک کے بننے سے دولت کا یک دم ایک طبقہ سے دوسرے طبقہ کو بڑے پیمانے پر‘ بے مثال انتقال ہوا۔ آج ملک میں تقریباًتمام زرعی زمین مسلمانوں کی ملکیت ہے۔ تمام کاروبار مسلمانوں کے پاس ہے۔ متحدہ ہندوستان میں یہ خیال کیا جاتا تھا کہ مسلمان اچھے کاروباری نہیں ہوسکتے۔ تجارت اور صنعت نہیں کرسکتے لیکن پاکستانیوں نے اس بات کو غلط ثابت کردکھایا۔ جومعاشی خوشحالی موجودہ پاکستان کے باسیوں کو آج نصیب ہے اس کی ہمارے خطہ کی سینکڑوں سال کی تاریخ میں مثال نہیںملتی۔ اس ترقی میں لوگوں کی محنت اور ریاست کی دستگیری دونوں شامل ہیں۔ بنیادی اشارئیے دیکھیے۔ آج تک موجودہ پاکستان میں ایسا قحط نہیں پڑا کہ لاکھوں یا ہزاروں لوگ بھوکے مر جائیں جبکہ انگریز دور میں بنگال میں لاکھوں لوگ ایسے قحط کی نذر ہوگئے تھے۔ افریقہ کے کئی ممالک اس مصیبت سے گزرتے رہتے ہیں۔ خشک سالی ہو زلزلہ یا سیلاب ریاست نے ہمیشہ عوام کی مدد کی ہے۔ لوگوں کو بھوکا مرنے نہیں دیا۔ انیس سو ستر میں مشرقی پاکستان میںتاریخ کا بد ترین سیلاب آیا ۔ اسوقت سیاسی بغاوت کے باوجود پاکستانی حکومت نے وہاں مدد پہنچائی۔ پاکستانی ریاست نے دشمن کے خلاف ملک کا بہترین دفاع کیا لیکن ایسی جنگ و جدل سے گریز کیا جس سے بڑے پیمانے پر تباہی ہو۔ عوام کو ہر قدرتی آفت اور جنگ کے نقصانات سے محفوظ رکھنے میں اپنا کردار ادا کیا۔جب یہ ملک بنا تو ریاست کے پاس قومی خزانہ میں اتنی رقم نہیں تھی کہ سرکاری ملازموں کو تنخواہ ادا کی جائے۔بہاولپور ریاست کے نواب نے حکومت کو اپنے خزانہ سے بھاری رقم دی تھی۔آج ہماری تمام حکومتیں ساٹھ لاکھ افراد کو تنخواہ اور پینشن کی مد میں ہر ماہ باقاعدگی سے تنخواہیں ادا کرتی ہے۔ مزید‘ سا ت آٹھ لاکھ لوگوں کو اولڈ ایج بینیفٹ اسکیم کے تحت پینشن دی جاتی ہے۔ ساٹھ لاکھ لوگوں کو احساس کیش پروگرام اور بینظیر انکم سپورٹ پروگرام ایسے سرکاری امدادی پروگراموں سے سہ ماہی وظیفہ دیاجاتا ہے۔ ملک کے ایک تہائی خاندان ایسے ہیں جو کسی نہ کسی شکل میں ریاست سے باقاعدگی کے ساتھ نقد رقم وصول کرتے ہیں۔ پاکستانی معاشرے اور ریاست کے فلاحی پہلو نمایاں ہیں۔ ہمارے لوگ دنیا میں سب سے زیادہ خیرات‘ عطیہ کرنے والے لوگوںمیں شمار کیے جاتے ہیں۔ ملک کے تین صوبوں میں ہرشخص کوعلاج معالجہ کے لیے سرکاری ہسپتال اورسرجری کروانے کو صحت انشورنس حاصل ہے۔ کروڑوں بچے سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ہماری حکومت دنیا کے سب سے بڑے نہری نظام کا بندوبست چلاتی ہے۔ نہروں ‘ بیراجوں ‘ ڈیموں کی دیکھ بھال کرتی ہے۔ اسکو فروغ دیتی اور قابل استعمال رکھتی ہے۔ یہ سب کام ہمارے اپنے لوگ کرتے ہیں۔ باہر سے نہیں آتے۔ پاکستان میں جنوبی ایشیا کے تمام ملکوں سے بہتر سڑکوں کا انفراسٹرکچر موجود ہے۔ملک کی غالب اکثریت کو سرکاری انتظام کے تحت بجلی کی رسد دی جاتی ہے۔ انڈیا میں بجلی حاصل کرنے والی آبادی کا تناسب پاکستان سے بہت کم ہے۔ پائپ لائن کے ذریعے گھروں میں قدرتی گیس پہنچانے کا بندوبست دنیا کے کم ملکوں میں ہے۔ اسے بڑی نعمت سمجھا جاتا ہے۔ کیونکہ اس پر بہت خرچ آتا ہے۔ پاکستان جنوبی ایشیا کا واحد ملک ہے جہاں پائپ لائن سے سستی گیس گھروں کو مہیا کی جاتی ہے۔ پولیس سے شکایات اپنی جگہ لیکن اس نے ہی ملک میںمجموعی طور پر امن وامان قائم کر رکھاہے۔لاہور‘ کراچی میں جرائم کی شرح دلی اور ممبئی سے کم ہے۔ بلکہ امریکہ کے شہروں سے بھی کم ۔شہری آزادیوں کے اعتبار سے بھی پاکستان ان چند مسلمان ممالک میں شامل ہے جہاں عورتوں کونسبتاً زیادہ حقوق اور آزادیاںمیسر ہیں۔ہمارا میڈیا دیگر تمام مسلمان ملکوں کے میڈیا کی نسبت زیادہ آزاد اور بے باک ہے۔اس کا خلیجی ممالک‘ ترکی ‘ مصراور ایران سے موازنہ کرکے دیکھ لیں۔