میں اسے پاکستان کی خوش قسمتی سمجھوں یا عمران خان کی سعادت کہ انہوں نے وزارت عظمی سنبھالتے ہی اپنے پہلے خطاب میں توہین رسالت مسئلے کو حل کرنے کے لئے عالمی سطح پہ قانون سازی کی تجویز دی اور دنیا کے ہر فورم پہ اسے اٹھانے کا وعدہ کیا۔نو ماہ قبل سینیٹ سے اپنے خطاب میں بھی انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ مغرب میں ہونے والی توہین رسالت کی جسارتوں کے خلاف وہ او آئی سی میں آواز اٹھائیں گے۔اس وقت بھی انہوں نے عین وہی باتیں کیں تھیں جو چار روز قبل حسب وعدہ او آئی سی کے اجلاس میں کیں۔ملعون گیرٹ ویلڈر ز نے جب گستاخانہ خاکوں کے مقابلے پارلیمنٹ میں کروانے کا اعلان کیا تو عمران خان ہی تھے جنہوں نے ہر سطح پہ اس معاملے کو اٹھایا حتی کہ اسے اس ناپاک جسارت سے دست بردار ہونا پڑا اور اب تک اس کی دوبارہ اس حرکت کے ارتکاب کی جرات نہیں ہوئی۔او آئی سی کے اجلاس میں عمران خان اپنے اس وعدے کو نہیں بھولے۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ جب بھی انہیں موقع ملا وہ او آئی سی کے فورم پہ اس مسئلے کو اٹھائیں گے ۔انہوں نے اپنے خطاب کی ابتدا ہی مغرب میں ہونے والی دل شکن توہین رسالت کی جسارتوں سے کی۔ معلوم ہوتا تھا عمران خان کے لئے دنیا کا اہم ترین مسئلہ توہین رسالت ہے۔ یہی عمران خان کا توشہ آخرت ہے اور کتنی سعادت کی بات ہے کہ وہ اس توشے کو سینے سے لگائے دنیا بھر میں آواز بلند کررہے ہیں کہ میرے نبی کی حرمت ہر شے پہ مقدم ہے۔ کسی گناہگار ترین مسلمان کی آخری جائے پناہ کیا ہے؟ عشق رسول ؐ دلم پژمردہ، آوارہ،ز عصیاں یا رسول اللہ۔نبی صادق و برحق کی غیر مشروط محبت جو رگوں میں خون کی طرح غیر محسوس طریقے سے دوڑتی رہتی ہے۔ اس کے ہونے کا احساس اس وقت ہوتا ہے جب کوئی لعین ہم گناہگاروں کی اس آخری پونجی پہ ڈاکہ ڈالنے کی ناپاک جسارت کرتا ہے۔ ہم جیسے گناہگار ،بے عمل برائے نام مسلمان جن کے اعمال کی پونجی بے شک خالی ہو لیکن کاسہ دل ایک نگاہ کرم کے لئے شافع محشر کے قدموں میں رکھا ہوتا ہے۔ تیری نگاہ ناز سے دونوں مراد پاگئے۔عقل غیاب و جستجو، عشق حضور و اضطراب۔زبان طواف کعبہ کی سعادت کی دعائیں کرتا نہیںتھکتی لیکن دل سنہری جالیوں میں اٹکا رہتا ہے۔آتش عصیاں سے راکھ بنے دل میں عشق رسول ؐ کی چنگاری سلگتی ہی رہتی ہے۔شاعر رومان اختر شیرانی ، ایسے خود پسند کہ اپنے کسی ہم عصر کو مانتے نہیں تھے، کہتے تھے مسلمانوں میں تین ہی جینئس پیدا ہوئے ہیں۔ ابوالفضل۔ غالب اور ابوالکلام۔رند بلا نوش تھے۔ایک محفل میں حسب عادت اتنی پی گئے کہ ذہن و زبان کا رابطہ منقطع ہوگیا۔الفاظ ٹوٹ ٹوٹ کر زبان سے نکلنے لگے۔شریروں نے یہ رنگ دیکھا تو سوچا خود پسند اختر شیرانی سے کوئی بات اگلوالی جائے جسے بعد میں پر لگا کر اڑایا جاسکے۔فیض کے متعلق سوال کیا۔طرح دے گئے۔جوش کے متعلق پوچھا۔کہا وہ ناظم ہے۔سردار جعفری کے نام پہ مسکرادئیے۔فراق کے نام پہ چپ ہوگئے۔ساحر لدھیانوی کے بارے میں پوچھا جو محفل میں ہی موجود تھے۔کہا ابھی مشق کی ضرورت ہے جاری رکھو۔دیگر ہم عصر شعرا کے متعلق بھی ایسی ہی رائے دی۔حاضرین نے جب دیکھا کہ ترقی پسند وں کے ہی منکر ہیں تو بحث کا رخ پھیر دیا۔ ایک نوجوان نے پوچھا ۔عیسی کے متعلق کیا خیال ہے؟آنکھیں نشے سے سرخ ہورہی تھیں۔ زبان لڑکھڑا رہی تھی۔چونک کر بولے کیا بکتے ہو؟ادب و شاعری کی بات کرو۔موڈ بھانپ کر کسی نے مکالمات افلاطون کاذکر چھیڑ دیا۔بولے افلاطون سقراط ارسطو زندہ ہوتے تو ہمارے سامنے زانوئے تلمیذ تہہ کرتے۔ایک خبیث باطن نے دیکھا کہ اب ہوش و حواس اس حد تک مختل ہوگئے ہیں تو پوچھا:محمدؐ کے بارے میں کیا خیال ہے؟یہ سننا تھا کہ نشے میں چور، مختل حواس اختر شیرانی پہ جیسے بجلی گر پڑی۔گلاس اٹھا کر پوچھنے والے پہ دے مارا۔غصے سے بدن کانپنے لگا۔سارا نشہ ہر ن ہوگیا۔نشے سے چور سرخ آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہنے لگے۔روتے روتے ہچکیاں بندھ گئیں۔بولے بدبخت۔ ایک عاصی سے کیا کہلوانا چاہتا ہے؟ایک روسیاہ سے کیا پوچھتا ہے۔بے ادب گستاخ اس حالت میں یہ نام لینے کی تجھے جرات کیسے ہوئی۔میں تمہارے خبث باطن کو خوب سمجھتاہوں۔تم اتنے بے باک ہوگئے ہو کہ ہم سے آخری پونجی بھی چھیننا چاہتے ہو؟ اس کے بعد اٹھے اور روتے روتے محفل سے نکل آئے۔باخدا دیوانہ باش و بامحمدہوشیار۔یہی وہ آخری پونجی ہے جو جسے لوٹنے دنیا کے قزاق گاہے خاکہ کشی کے مقابلے منعقد کرواتے ہیں گاہے صرف یہ دیکھنے کے لئے کہ امت مرحوم میں اس چنگاری کی کتنی رمق باقی رہ گئی ہے، ہمارے دلوں کو اپنی ناپاک جسارتوں سے کریدتے اور روندتے رہتے ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ یہی لوگ ہیں جو اس عشق بلاخیز کی جولانیوں سے واقف ہیں۔ انہیں علم ہے کہ یہ آخری سرمایہ ہی مسلمان کی اصل طاقت ہے۔وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا۔روح محمد اس کے بدن سے نکال دو۔روح محمدؐ تو امت فاقہ کش کے بدن سے نکالنا ممکن نہیں۔ پروپیگنڈا کے ماہرین لیکن جانتے ہیں کہ اگر کسی بات کا ذکر مسلسل اور تواتر سے کیا جائے تو وہ اپنی اہمیت کھو دیتی ہے۔گستاخان شان رسالت کا انجام کسی نہ کسی دیوانے کے ہاتھوں لکھا ہوتا ہے جو تختہ دار کو چومنا عین سعادت سمجھتا ہے۔لیکن کیا یہ بھی حقیقت نہیں کہ سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین معلونین کے قتل کافتوی آیت اللہ خمینی جاری کرتے ہیں جو امت مسلمہ میں بلا تفریق مسلک قبول کیا جاتا ہے لیکن ملعون گیرٹ ولڈرز کے قتل کا فتوی علامہ خادم حسین رضوی کو جاری کرنا پڑتا ہے ۔یہی وہ مقام ہے جس کی حساسیت کو سمجھتے ہوئے عمران خان اپنے پورے قد اور قوت کے ساتھ کھڑا ہوجاتا ہے۔یہ وہ عمران خان ہے جو ناموس رسالت پہ بین الاقوامی قانون بنانے کا مطالبہ کرتا ہے تو ٹائمز آف اسرائیل اسے اس کے ماضی کا طعنہ دیتے ہوئے کہتا ہے کہ ایک ایسا شخص یہ مطالبہ کررہا ہے جس کی شہرت ایک پلے بوائے کی تھی۔عمران خان کی توہین رسالت کے خلاف ایک عالمی قانون کی تجویز اسرائیلی اخبار کو ہی نہیں دنیا بھر کے آزادی اظہار رائے کے علمبردار وں کو خطرے کی گھنٹی معلوم ہونے لگی تھی۔ او آئی سی کے اجلاس میں عمران خان کی دو ٹوک تقریر نے اسرائیلی اسکالروں میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے اور انہیں خطرہ محسوس ہونے لگا ہے کہ کہیں عمران خان کوئی اسلامی بلاک تو نہیں بنانے جارہے؟ایک اسلامی بلاک او آئی سی سے کبھی کسی کو خطرہ لاحق نہیں ہوا نہ ہی اب ہے۔ عمران خان کے خلاف بھی اسرائیلی زعما اور تجزیہ کاروں کی یہ تشویش اس لئے نہیں کہ انہوں نے فلسطین کے دوریاست حل کی بات کی ہے ، اسرائیلی جبر وتشدد پہ آواز اٹھائی ہے اور اس سے ڈیل آف دی سینچری کو کوئی خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔بلکہ اس لئے کہ امت فاقہ کش کے بدن سے روح محمد کو نکالنے کی راہ میں پہلی بار ایک ریاست کا سربراہ پورے قد کے ساتھ حائل ہوگیا ہے۔