معلم کون ہوتا ہے؟ معلم ایک ایسا شخص ہوتا ہے جو اندر کی ’’روشنی‘‘ بااثر لاتا ہے جو اپنے طلبہ و طالبات کو بلندیوں کی راہیں دکھاتا ہے، جو اقبال کے الفاظ میں دلوں کو سوز و سازِ آرزو اور ذوق و شوق کی حرارت سے بھر دیتا ہے۔ جو خودکسی مقصد کا دیوانہ ہوتا ہے اور دوسروں میں بھی ایسی ہی زندگی پیدا کردیتا ہے۔ ایک حقیقی معلم نہ صرف اپنے طلبہ کو متاثر کرتا ہے بلکہ اس کے جذبوں کی خوشبو سے گردوپیش بھی معطر ہو جاتے ہیں۔ کبھی سرکاری سکول ہی ہماری سوسائٹی کے ماتھے کا جھومر ہوتے تھے بلکہ بہت سے سکولوں میں تو اب تک تدریسی فرائض نہایت جوش و جذبے اور مکمل دل جمعی کے ساتھ انجام دیئے جا رہے ہیں۔ انہی سرکاری درس گاہوں سے کبھی ایک سے بڑھ کرایک گوہر تابدار تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ ہو کر نکلتا تھا اور کسی حد تک کا فیض عام اب تک جاری ہے۔ شب رفتہ جب میں نے کراچی پولیس کے ہاتھوں انہی معلمین اور معلمات کی درگت بنتے دیکھی تو مارے ندامت کے میں نے اپنی آنکھیں بند کرلیں۔ یا خدا! ہم کس بستی کے رہنے والے ہیں۔ اس ظہر کراچی کے ایک آئی ٹی گریجوایٹ سے چند ماہ قبل لاہور میں ملاقات ہوئی۔ یہ نوجوان اب کیلیفورنیا میں آئی ٹی کی ایک پرائیویٹ کمپنی کا مالک ہے اور اللہ کے فضل سے ڈالروں میں ارب پتی ہے۔ اس قابل فخر پاکستانی نے بتایا کہ اللہ کے فضل، والدین کی دعائوں کے بعد جو کچھ میں ہوں وہ کراچی کے ایک سرکاری سکول کے اساتذہ کرام کی شفقت اور حسن تعلیم و تربیت اور ان کے فیضان نظر کی بدولت ہے۔ اس نوجوان نے بتایا کہ میں اس سرکاری سکول میں پڑھتا تھا کہ جہاں ہم فرش پر بیٹھنے کے لیے بوریا گھر بھی سے لے جاتے تھے۔ جی ہاں، گزشتہ روز اسی کراچی شہر کی سڑکوں پر نوع بشر کی قسمت بدل دینے والے اساتذہ پر لاٹھیاں برسائی گئیں، انہی آنسو گیس کا نشانہ بنایا گیا اور انہیں گالیوں اور مغلظات سے نوازا گیا۔ سرکاری سکولوں کی انجمن کے صدر مسٹر اشرف کے بقول 200 اساتذہ کرام کو اہانت آمیز طریقے سے گرفتار کیا گیا جبکہ 150 کے قریب ٹیچر زخمی ہوئے جن میں آٹھ معلمات بھی شامل تھیں۔ ایک سرکاری ترجمان نے ان اعداد و شمار کی تردید کی ہے۔ تشدد کے واقعے کی نہیں، پولیس اہلکار اور اعلیٰ سرکاری افسران اس وقت غضبناک ہوئے جب اساتذہ کرام نے کراچی پریس کلب سے وزیراعلیٰ ہائوس کی طرف مارچ کرنے کا اعلان کیا۔ وزیراعلیٰ بھی تو عوام کا اپنا منتخب کردہ نمائندہ ہوتا ہے۔ عربی زبان کی مشہور مثل ہے کہ سید القوم خادمھم۔ قوم کا سردار ان کا خادم ہوتا ہے ۔ وزیراعلیٰ تو ہیں ہی سید زادے۔ سیدوں کی تاریخ تو انکسار و ایثار کی حقیقی داستانوں سے سجی ہوئی ہے۔ اگر یہ اساتذہ کرام وزیراعلیٰ ہائوس کے باہر جا کر اپنی صدائے احتجاج بلند کرلیتے اور وزیراعلیٰ ’’قصر شاہی‘‘ سے باہر آ کر ’’رعایا‘‘ کی بات شفقت و محبت سے سن لیتے تو کون سی قیامت نہ آ جاتی۔ ایک تو سرکاری سکولوں میں سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں اوپر سے معلمین و معلمات کے ساتھ یہ وحشیانہ سلوک اہانت آمیز رویہ سرکاری اداروں کا گلا گھونٹ دینے کے مترادف ہے۔ اساتذہ کرام کے ساتھ یہ اہانت آمیز رویہ صرف صوبہ سندھ میں اختیار نہیں کیاجاتا پنجاب میں بھی یہی حال ہے۔ گزشتہ تین روز سے پنجاب پروفیسرز اینڈ لیکچررز ایسوسی ایشن نے پنجاب اسمبلی کے باہر دھرنا دے رکھا ہے۔ ہائر ایجوکیشن کے افسران ان مسائل کو حل کرنا تو کجا وہ کالج اساتذہ سے گفت و شنید کرنے پر ہی آمادہ نہیں۔ اس کے بجائے اعلیٰ افسران نے اساتذہ کو ڈرانے دھمکانے کا کام شروع کردیا ہے۔ صرف اساتذہ پر ہی منحصر نہیں جب بھی سرکاری ملازمین چاہے وہ ینگ ڈاکٹرز ہوں، چاہے نرسیں ہوں، چاہے لیڈی ہیلتھ وزیٹرز ہوں، ان سے گفت و شنید کے بجائے انہیں ڈرانے دھمکانے پر زیادہ زور دیا جاتا ہے اور احتجاجی ملازموں کے خلاف بے دریغ طاقت کا استعمال کیا جاتا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب موجودہ حکمران اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو احتجاجی دھرنوں میں جاتے ہیں۔ دھرنوں اور احتجاجی جلسے جلوسوں میں بنفس نفس شرکت کرتے ہیں۔ حکومت وقت پر کھلم کھلا تنقید کرتے ہیں۔ مگر جب یہ برسراقتدار آ جاتے ہیں تو سابقہ احتجاجی دھرنوں میں جانے والے پنجاب کی وزیر صحت یاسمین راشد کا لب و لہجہ بدل جاتا ہے، ملائمت، رعونت میں بدل جاتا ہے اور شفقت، شدت میں بدل جاتی ہے۔ 23مارچ کو ایک تقریب میں ایک ینگ ڈاکٹر سے بات چیت ہوئی تو میں نے پوچھا کہ آپ آئے روز کیوں ’’مسیحائی‘‘ چھوڑ کر سڑکوں پر احتجاج کرنے نکل آئے ہیں۔ ینگ ڈاکٹر نے جواب دیا کہ میں طبی اختصاص کے ساتھ گزشتہ آٹھ نو برس سے خدمات انجام دے رہا ہوں مگر ابھی تک 17 ویں گریڈ میں ہوں کیونکہ ہمارے ہاں ترقی کا کوئی زینہ یا فارمولا ہی طے نہیں۔ اس کے برعکس ہمارے وہ ’’نالائق‘‘ کلاس فیلوز جو ڈاکٹر نہ بن سکے اور مجبوراً نوکرشاہی کے کوچے میں جا نکلے وہ گریڈ سترہ سے گریڈ 18 اور اب گریڈ 19 ویں میں جانے کے لیے پرتول رہے ہیں۔ اگر آپ وطن عزیز میں یہ ناانصافی کریں گے، حق دار کو اس کا حق نہیں دیں گے، قابلیت کی قدر نہیں کریں گے۔ احتجاج کے بغیر بات نہیں سنیں گے،جھوٹے وعدے کریں گے اور انہیں پورا نہیں کریں گے تو مجبوراً یہی ٹیلنٹ ملک سے باہر چلا جائے گا جہاں ان کی قدر افزائی بھی کی جاتی ہے۔ جناب عمران خان اپوزیشن میں تھے تو دھرنا ہی ان کا اوڑھنا بچھونا تھا، دھرنا ہی ان کی حصول اقتدار کی حکمت عملی تھی اور دھرنے کی ہی وہ شب و روز تبلیغ و تلقین کرتے تھے اور اب انتہائی واجب الاحترام پی ایچ ڈی ڈاکٹرز اپنی بات عمران خان تک پہنچانے گئے تو انہیں دھتکار دیا گیا اور خان صاحب تو کجا نعیم الحق بلکہ کسی بھی چھوٹے موٹے کارندے نے بھی بات سننے سے انکار کردیا۔ پی ایچ ڈی اساتذہ کا مطالبہ تھا کہ ہم بیروزگار ہیں آپ نے جو ایک کروڑ نوکریاں دینی ہیں ان میں سے ایک ہزار ہی ہمیں دے دیں۔ خان صاحب کے سابقہ ارشاد کی تعمیل میں جب اساتذہ نے نعرہ لگایا کہ دھرنا ہوگا، دھرنا ہوگا تو انہیں زبردستی بنی گالہ سے بھگا دیا گیا۔ کراچی میں بیٹھے ہوئے سندھ کے حکمران ہوں یا لاہور میں بیٹھے ہوئے پنجاب کے حکمران ہوں یا پھر اسلام آباد میں بیٹھے ہوئے وفاقی حکمران ہوں وہ اپنے ووٹروں سے ایسی بدسلوکی کیوں کرتے ہیں۔ اس کی سادہ سی وجوہات ہیں۔ پہلی تو یہ کہ حکمرانوں نے عوام سے جھوٹے وعدے کئے ہوتے ہیں اور دوسری وجہ یہ کہ صاحبان اقتدار کے پاس دلیل کا جواب نہیں ہوتا اور تیسری وجہ یہ کہ انتخابی مہم کے دوران ان کی عوام کے لیے دردمندی محض دکھاوے کی ہوتی ہے۔ میں خود ایک استاد ہوں اس لیے بطور خاص سکول اساتذہ کالج پروفیسرز اور صاحبان علم و فضل پی ایچ ڈی ڈاکٹرز سے ہونے والی بدسلوکی کو یوں محسوس کرتا ہوں جیسے یہ سب کچھ میرے ساتھ ہوا ہو۔ اسی لیے اے واجب الاحترام معلمین و معلمات میں آپ سے شرمندہ ہوں۔ میں ہی نہیں اس سوسائٹی کا ہر صاحب احساس شرمندہ و نادم ہے۔