سوموار5اگست کوبھارتی آئین میںمقبوضہ کشمیرکی امتیازی حیثیت اور خصوصی درجے کے خاتمے کے اعلان کے بعدمقبوضہ وادی کشمیراورجموں کے پیرپنچال اورچناب کے مسلم اکثریتی علاقے تادم تحریر مسلسل چاردنوں سے ایک دوسرے اور باقی پوری دنیا سے کٹے ہوئے ہیں۔اتوار4اگست کی شب مقبوضہ کشمیر میں ٹیلیفون، موبائل نیٹ ورک اور انٹرنیٹ بند ہوئے تھے وہ تاحال بند ہیں اور پوری وادی اورجموں کے مسلم علاقے بھارت کی سفاک فوج کے زبردست حصاراورنرغے میں ہیں۔ کسی کو نہیں پتا کہ کیا چل رہا ہے۔ ہر جگہ خار دار تاریں لگی ہیں اور ہرطرف فوج ہی فوج موجود ہے۔ صاف دکھائی دے رہاہے کہ کشمیری مسلمان اپنے جداگانہ تشخص کے ساتھ کسی بھی سودابازی یاچھیڑ خانی کوہرگزبرداشت نہیں کریں گے ۔جیسے ہی ان کو کرفیو سے نرمی ملے گی تو وادی میں کشیدگی بڑھے گی۔ کشمیری مسلمانوں کے اندر غصے کاآتش فشاں پایاجارہاہے ہے جوکرفیوکی بندشیں اٹھنے کے ساتھ ہی ایسا لاوااگل دے گاکہ بھارت کے درودیوارلرزاٹھیں گے ۔مودی کواچھی طرح اندازہ ہے کہ کشمیری مرمٹیں گے لیکن کسی اسرائیلی طرز کی حدبندی کوقبول نہیں کریں گے اسی لئے پہلے سے موجوددس لاکھ فوج کے علاوہ بھی فوجی کشمیر میں لے آیا ہے، کرفیو لگا دیا ہے، انٹرنیٹ بند کر دیا ہے، مواصلات کے تمام ذرائع بند کردیا۔کسی کو کچھ پتا نہیں کہ باہرکیا ہو رہا ہے، سادہ لفظوں میں آپ صورتحال اس طرح سمجھ سکتے ہیں کہ کشمیری مسلمانوں کو مکمل طور پر قیدخانے میں رکھا گیا ہے۔مقبوضہ کشمیرسے باہرکشمیری مسلمان اس وقت انتہائی پریشانی کے عالم میں ہیںکیونکہ انکے آبائی علاقے میں مواصلاتی نظام بند ہونے کے باعث وہ اپنوں سے رابطہ نہیں کر پا رہے۔کشمیر میں چونکہ مسلمان اکثریت میں ہیں اسی لیے بھارتی حکومت انھیں اقلیت میں تبدیل کرنے کی ہر ممکن کوششیں کر رہی ہے۔ مقبوضہ وادی کشمیر کے تمام 10اضلاع سری نگر، بڈگام، گاندربل، بانڈی پورہ، بارہمولہ، کپوارہ، پلوامہ، اسلام آباد، کولگام، شوپیاں اورجموں کے مسلم اکثریتی علاقے پیرپنچال کے اضلاع پونچھ، راجوری اورچناب کے اضلاع ڈوڈہ اورکشتواڑ میں کرفیو نافذ ہے اورمکینوں کوگھروں سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے۔کرفیوکی بندشوں سے مقبوضہ کشمیرکسی بھی جنگی علاقوں سے مختلف نظر نہیں آتا۔ان تمام اضلاع کے ایک کروڑمسلمان عوام موت وحیات کی کشمکش میں مبتلا ہیں اور ان کی زندگی اجیرن بنی ہوئی ہے۔جبکہ کسی بھی طرح کی نقل وحمل مکمل طور پرمعطل ہے ۔ ایک بستی کادوسری بستی کے ساتھ کوئی رابطہ ہے اور نہ ہی ایک دوسرے کے حال واحوال کا کوئی اتہ پتہ ہے۔دوسری طرف جموںکے ہندو ترشول لہراکرجشن فتح منارہے ہیں اور وہ مغلظات بک کراسلامیان ریاست کے دل چھیدرہے ہیں۔ ؎ن سب اقدامات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کشمیر کے لوگ اس کے خلاف تھے اور خلاف ہیں۔ آپ کوئی ردِعمل، کچھ نہیں دیکھ پا رہے، لیکن یہ سب پابندیاں اور کرفیو ہٹے گا تو اس کا ردِعمل سامنے آئے گا، اور مجھے تو اس کا ردِعمل بڑا پرتشدد لگ رہا ہے۔مودی نے پورے کشمیر کو بند کرکے یہ قدم اٹھایا ہے کیونکہ اسے پتا تھا کہ کشمیریوں کو یہ قبول نہیں ہوگا۔ یہ ایسا ظلم ہے جو بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ آرٹیکل 370 کے خاتمے سے کشمیرمیں حالات درہم برہم اورپہلے سے بھی زیادہ گھمبیراورپیچیدہ ہوگئے حالات بد سے بدتر ہونے والے ہیں چاہے وہ معاشی حالات ہوں یا سیاسی۔ کیونکہ آرٹیکل 370کے خاتمے سے کشمیری مسلمان ذہنی طور پر متاثر ہوئے ہیں اوران کے احساسات کو بہت تکلیف پہنچائی گئی ہے۔کشمیری مسلمانوں کی شناخت کے مسائل پیدا ہوگئے ہیں، کیونکہ جموں اور کشمیر ایک ریاست تھی جس میں جموں و کشمیر اور لداخ جو تینوں علاقے ہیں ان میں الگ الگ مذہبی شناخت پائی جاتی تھی جواب مٹادی گئی اورکشمیری مسلمانوں کے لئے یہ ایک بہت بڑا ثقافتی دھچکا ہے۔اس طرح کے اقدامات سے کشمیر کے مسئلے کو اور زیادہ پیچیدہ بنا دیا گیا ہے۔ اسلامیان کشمیراس بات کواچھی طرح سمجھتے ہیں کہ ان کے لئے سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ انڈیا کی دوسری ریاستوں سے لوگ آکر کشمیر میں شہریت حاصل کر سکیں گے اور یہ باہر سے آنے والے کشمیر میں رہ کر اپنی آبادی بڑھائیں گے۔کشمیری اس بات کوخوب سمجھتے ہیں کہ اب انڈیا کے صنعت کار آکر کشمیر کو خریدیں گے، وہ آکر حکومت کے ساتھ سودے کریں گے، اورسرکاری اراضی اور جنگلات اور دوسرے وسائل خرید کر انھیں ختم کر دیں گے۔ وہ ان تمام زہرناک سازشوں سے پوری طرح باخبر ہیں کہ ان کاجو ایک انفرادی تشخص تھا، اسے ان سے چھین لیا گیا ہے۔ یہ جو ریفارمز ان سے کہہ رہے ہیں کہ اس سے بڑی کمپنیاں وہاں آکر انویسٹ کریں گی، لیکن کشمیر مسلمان کہہ رہے ہیں کہ انہیں ایسی انویسمنٹ کی کوئی ضرورت نہیں ہے جس سے وہ اپنی شناخت کھوبیٹھیں گے۔کشمیریوں کے معاشی حالات بہت بہترہیں انکے پاس سب سے بڑی صنعت سیاحت ہے، کشمیر سے سب سے بہترین زعفران اوربہترین فروٹ کا مالک ہے،وہ اعلیٰ پیمانے کے ہنرمندہیں ہاتھ سے بنی اشیا، قالینیں،اورشالیں باہر بھیجے جاتے ہیں، جن کی دنیا بھر میں مانگ ہے ۔ سب سے بڑی اوراہم بات یہ ہے کہ کشمیر کا مسئلہ ڈویلپمنٹ کا نہیں ہے، حق خودارادیت کاہے اوربس ۔ کشمیری ہمیشہ سے اپنی یہ صدابلندکرتے چلے آ رہے ہیں کہ کشمیر ایک متنازع مسئلہ ہے، کشمیر کبھی بھارت کا حصہ نہیں تھا ۔البتہ جیسے قیدیوں کے کچھ حقوق ہوتے ہیں اسی طرح بھارت کی قید میں بندکشمیریوں کے لئے آرٹیکل 370اور35Aکے تحت کچھ حقوق حاصل تھے جوبھارت نے وہ بھی چھین لئے اوران پردرندے مسلط ہوگئے ہیں۔ باقی انہوں نے کبھی بھارت کوتسلیم کیااورنہ ہی آئین ہندپرانہیں کوئی یقین تھا۔مودی حکومت جموں کشمیر کو بھی ویسا ہی بنانا چاہتی ہے جیسے اسرائیل نے فلسطین کو بنا دیا ہے۔لیکن باغیرت کشمیری مسلمان مرجائے گامٹ جائے گا پرایسا ہونے نہیں دے گا۔