اسی سال کی4جنوری تھی جب قصور کی بدقسمت زینب انصاری کی خبر ٹی وی چینلز پر چلی اور اخبارات کا موضوع بنی۔ پھر گلابی کپڑے پہنے ہوئے پریوں جیسی وہ پیاری بچی ہم سب کے حواسوں پر چھا گئی۔ درد کی طرح دل میں اتر گئی۔ آنکھ سے آنسو بن کر بہہ نکلی اس کے ساتھ قتل اور زیادتی کے بہیمانہ واقعے نے پورے معاشرے کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور پھر ہر جگہ ہمیں زینب دکھائی دینے لگی۔ خبروں، ٹاک شوز‘ تجزیوں، کالموں سے لے کر روز مرہ کی گفتگو‘ آپس کی بات چیت‘ ٹوئٹر کی ٹویٹس اور فیس بک کی اپ ڈیٹس میں۔ لالی وڈ سے بالی وڈ اور ہالی وڈ تک۔ ہر جگہ زینب کے ساتھ ہونے والے بدترین ظلم کی بازگشت سنائی دینے لگی۔ لوگ سراپا احتجاج ہو گئے۔ زینب کے ساتھ کس نے ظلم کا یہ کھیل کھیلا۔ ظالم‘ قاتل‘ ریپسٹ کی جلد سے جلد گرفتاری کے مطالبے زور پکڑ گئے۔ چند دن نہیں‘ کئی ہفتے پوری قوم اس ایک دکھ پر اکٹھی ہو گئی عوام سے لے کر حکمران تک سب زینب انصاری کے ساتھ ہونے والے بھیانک ظلم پر افسردہ تھے۔ اسی دور کی بات ہے ایک انگریزی اخبار میں زینب کی بڑی بہن کا انٹرویو چھپا جس میں وہ اخبار کی رپورٹر سے استفسار کرتی ہے کہ یہ لوگ کب تک میری بہن زینب کو یاد رکھیں جلد بھول جائیں گے۔ اس کے بعد ہم ہوں گے اور زینب کی جدائی کا دکھ ہو گا۔ اب اس سانحے کو سات ماہ اور چار دن ہو چکے ہیں۔ زینب انصاری اب ہماری یادداشت سے محو ہو چکی ہے۔ قصور کی زینب کے بعد کئی اور شہروں کی معصوم زینبوں کے ساتھ ظلم زیادتی اور قتل کی یہی واردات دھرائی گئی۔ مگر ہم ان کی کہانی پر وہ توجہ نہ دے سکے جو زینب کو ملی۔ زینب سے پہلے بھی اس ملک کے گلی کوچوں‘ میں یہ معصوم بچیوں کے ساتھ ظلم اور زیادتی ہوتی رہی۔ کسی کے مجرم‘ قاتل اور ریپسٹ‘ کو ایسی سزا نہیں ملی جو معاشرے میں عبرت کا نشان ہوتی۔ اسی لیے یہ جرم عام ہوتا ہو گیا اور یہ حقیقت بھی مان لینی چاہیے کہ ہمارے معاشرے میں زینب سے پہلے بھی اس قسم کے جرم کو قابل توجہ نہیں سمجھا گیا۔ کیونکہ ہمارے پاس اپنی دانشوری بگھارنے کے لیے دوسرے اعلیٰ قسم کے موضوعات کی بہتات تھی۔ لیکن یہ زینب کے ساتھ ہونیوالے ظلم نے گویا بے اختیار سے اہل اختیار تک۔ اس معاشرے کے ہر فرد کو جھنجھوڑ ڈالا۔ جانے یہ زینب کی معصومیت تھی۔ گلابی کپڑے پہنے وہ خوب صورت تصویر کہ زینب ہر دل میں اتر گئی۔!اور یہ اسی پریشر کا اثر تھا کہ بالآخر زینب کے زیادتی اور اسے قتل کرنے کے بھیانک جرم کا مرتکب عمران گرفتار کر لیا گیا۔ قاتل عمران کی گرفتاری پر لوگ سوشل میڈیا پر یہی مطالبہ کرتے رہے کہ اسے سرعام پھانسی دے کر عبرت کا نشان بنایا جائے۔ بہرحال قاتل کی گرفتاری کے بعد عدالتی معاملات چلے اور پھر وقت کی گرد نے رفتہ رفتہ زینب کے ایشو کو سوشل میڈیا پر ٹھنڈا کر دیا لوگوں کو بات کرنے اور تبصرے فرمانے کے لیے کوئی اور ایشو مل گیا۔ زینب کے گھر والوں۔ اس کے دکھی باریش والد اور والدہ کے لیے یہ زخم آج بھی پہلے دن کی طرح تروتازہ ہے۔ زینب کو روندنے اور موت کی وادی میں اتارنے والا ملعون عمران اپنے جرم کا اعتراف کر چکا ہے۔ اس نے یہ ظلم صرف زینب کے ساتھ نہیں کیا بلکہ چھ اور بچیوں کو زیادتی کا نشانہ بنا کر موت کے گھاٹ اتارا۔ یعنی مجرم نے سات خاندانوں کو اجاڑا اور زندہ درگورکیا کتنی آسانی سے معصوم بچیوں کو اغوا کرتا اور درندگی کرتا رہا۔ اس لیے کہ قانون اور اس کی عملداری نہیں تھی۔آج بھی اخبار میں خبر ہے کہ زینب کا مجرم تو کئی اور معصوم بچیوں کا مجرم بھی ہے ایمان فاطمہ‘ کائنات‘ ماہ نور‘ تہمینہ اور پتہ نہیں کیا کیا نام ہے۔ ناموں سے کیا ہوتا ہے۔ سب بچیاں اپنے ماں باپ کے آنکھوں کی ٹھنڈک تھیں۔ ان کی معصوم گڑیائوں کو وحشی درندے نے کس سفاکی سے روندا اور پھر موت کے گھاٹ اتار دیا۔ 4مرتبہ سزائے موت عمران کی ہو چکی۔ لاکھوں روپیہ جرمانہ الگ سے ہے سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح سے کوئی عبرت ان وحشیوں کو حاصل ہو گی جو اس معاشرے میں دندناتے ہوئے ننھی بچیوں کی عزت اور جانوں کا شکار کرتے ہیں۔ معاشرے میں ایسے عناصر کو کس طرح کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ ظاہر ہے جب جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو عبرت کا نشان بنایا جائے گا تو پھر جرم میں کمی ضرور آئے گی۔ زینب کا قاتل اور کئی معصوم بچیوں کا مجرم نکلا ہے۔ اس شخص کو سرعام پھانسی کی سزا دینی چاہیے تاکہ زینب کے دکھی والدین کا مطالبہ پورا ہو۔ ان کی لاڈلی بیٹی تو کبھی واپس نہیں آئے گی۔ لیکن اس کے مجرم کو عبرت ناک سزا دے کر ان کے دل کو تسلی ضرور ہو گی۔ یہ مطالبہ صرف زینب کے والدین کا نہیں بلکہ ہر اس شخص کا ہے جو بیٹیوں کو سانجھا سمجھتا ہے۔ جو چاہتا ہے کہ پاکستان کے گلی کوچوں‘ پارکوں‘ باغوں میں ہنستی کھیلتی بچیاں درندوں کے ظلم سے محفوظ رہیں۔ ورنہ بچیوں کے ساتھ زیادتی اور قتل کی وارداتیں آئے دن یہاں ہو رہی ہیں اور اس میں سے آدھے واقعات تھانوں اور اخباروں میں رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔ ان دنوں کالم کے لیے سیاسی موضوعات کی بھر مار ہے۔ لکھنے کی طرف ذہن بھی مائل ہے۔ لیکن میں نے اس موضوع کا انتخاب اس لیے کیا کہ آج ایک بار پھر اس ایشو پر آواز اٹھانے کی ضرورت ہے۔ یہ ہم سب ہی تھے جو آواز بنے تھے زینب کے دکھی والدین کی۔ ہم نے انصاف کیلئے اور عمران کی گرفتاری کے لیے اپنی آواز بلند کی تھی۔ اب ایک بار پھر اس ایشو کو آپ کی سپورٹ کی ضرورت ہے۔ زینب کے قاتل کو کئی دوسرے جرائم میں سزائے موت ہو چکی ہے۔ اگر اس کو سرعام پھانسی دے کر عبرت کا نشان بنایا جائے تو رنج اور بے بسی کے تپتے صحرا میں چلیے زینب کے والدین کو کچھ سکون ملے گا اور معصوم بچیوں کو اپنی وحشت اور درندگی کا نشانہ بنانے والوں کو عبرت بھی حاصل ہو گی۔ آئیے ایک بار پھر زینب کے ایشو پر اپنی آواز اٹھائیں۔!