پوری توجہ اور نہایت ایمانی ذوق کا تقاضا ہے کہ ملت کے اجتماعی دینی مسائل میں ملت کے تمام طبقات کے خیالات اور ان کی ہر طرز کی جدوجہد کو پیش نظر رکھا جائے۔ عالم اسلام کو جن بدترین مسائل کا سامنا ہے‘ ان میں ایک اہم مسئلہ حضور نبی اکرم ﷺ کی ناموس مبارک کا تحفظ ہے۔ اور ناموس اقدس پر حملہ آور مغربی قوتیں اور ان کے زیر حمایت نام نہاد مسلمان جو دراصل منافقین خالص ہیں، اپنی پوری ابلیسی توانائیاں صرف کر رہے ہیں۔ اہل اسلام کے ذرائع ابلاغ اور سفارتی محاذ بہت حد تک کمزور ہیں اس کے علاوہ مسلمان ممالک کے حکمران اپنی محدود اور مفاداتی سوچ کی وجہ سے کسی بھی جاندار اور مستقل اقدام سے گریزاں رہتے ہیں۔ غیر مسلم قوتوں کی پذیرائی میں بھی یہ مسلم ممالک کے حکمران اپنے بنیادی اور مرکزی عقیدہ دینی کو مصلحت کے طاق نسیان میں رکھ دیتے ہیں ۔ لیکن ان ممالک کے عوام الناس اپنے جہادی عقیدے کی بقاء اور دفاع کے لیے سرگرم رہتے ہیں اور بلا تاخیر کسی بھی ہنگامی صورت میں فوراً متحرک ہو جاتے ہیں۔ ان کی مبنی بر جذباتیت تحریکیں اپنے درست اور مسلمہ حقوق کی بحالی کے لیے ہوتی ہیں اور وہ ایسے احتجاج میں کسی بھی غیر قانونی حرکات کے مرتکب نہیں ہوتے اور ان کی آواز اگرچہ پورے ملک میں ہمدردی اورجذبات سے سنی جاتی ہے‘ لیکن بین الاقوامی ڈھنڈورچی اور ان کے ذرائع ابلاغ پوری بددیانتی سے اسے تخریب کاری‘ جذباتیت اور دہشت گردی ثابت کرتے ہیں اور یوں امت مسلمہ کے بنیادی عقائد پر دہشت گردانہ جنگ مسلط کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ سراسیمگی اور طاغوتی یلغار کے اس شرمناک اور دہشتناک ماحول میں مذہبی اور سیاسی قائدین پر دینی‘ اخلاقی اور معاشرتی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ اس میں کچھ شک نہیں ہے کہ حساس طبیعت دیندار مذہبی اور سیاسی رہنما معاملے کی حقیقت اور نزاکت کو سمجھتے ہوئے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کو نہایت محتاط طریقے سے بروئے کار لاتے ہیں۔ ان کی نیک نیتی اور جہد مسلسل اچھے نتائج بھی پیدا کرتی ہے۔ لیکن اس سے ذرا ہٹ کر اجتماعی جائزے کے نتیجے میں جو صورت حال سامنے آئی ہے۔ وہ عمومی طور پر مشکلات اور مایوسی کی فضا کو ساتھ لے کر آئی ہے اور یہ عمومی اجتماعی صورت حال پریشان کن ہوتی ہے۔ قارئین کی یادداشت میں توہین رسالت کے معاملات یقینا محفوظ ہونگے کہ گزشتہ 20سال سے اہل مغرب اور ان کے مشرقی گماشتوں کی سرگرمیاں وقتی وقفوں کے ساتھ منظم طور پر جاری ہیں۔ بہت سی سرگرمیاں تو عوام تک نہیں پہنچ پاتی ہیں اور جب ان کی سرگرمیاں عروج پر پہنچتی ہیں تو وہ اس کے اظہار و اشاعت میں لمحہ بھر کی تاخیر نہیں کرتے اور ان کی غیر اخلاقی‘ غیر انسانی، دل آزار تحریریں‘ تقریریں اور تصویریں سرعام آ جاتی ہیں تو ایک شدید ردعمل سامنے آتا ہے۔ پھر غیر مرتب‘ ذہین مگر جذباتی قیادت فی الفور قیادتی خلا کو پر کرنے کے لیے آگے بڑھتی ہے ان کے اہداف اور مقاصد کی مکمل ہم آہنگی میں عملی فقدان ہوتا ہے۔ اس ہنگامی صورتحال سے روایتی تحریک باز‘ بیان باز اور شرارت بھرے اذہان کے مالک اپنے مفادات کے بازار تلاش کرتے ہیں۔ مالی معاونین‘ مذہب کو سیاستِ دوراں کی چاشنی میں ڈبو کر ایک نیا راستہ بناتے ہیں اور اس ذہنی کیفیت کو مغرب کے مشرقی گماشتے منافقین خوب بھانپ جاتے ہیں۔ وہ منافقین بطور خاص اپنے بیرونی آقائوں کی ہدایت کو قومی پالیسی میں بدلوانے کے لیے عوام اور حکومت کو جداگانہ راستوں پر گامزن کر دیتے ہیں۔ سب سے زیادہ خرابی ہنگامی قیادت کے بزر جمہروں کی جانب سے سامنے آتی ہے، جب علم قیادت بے شعور‘ بے بصیرت اور ناتجربہ کار نوعمر لوگوں کے ہاتھ میں آتا ہے اور ان سے ایسی بڑی اجتماعی غلطیاں سرزد ہوتی ہیں کہ ان کا ازالہ نہ صرف مشکل ہوتا ہے بلکہ فسادات اور خرابی کا مرکز و محور ان لوگوں ہی کو شمار کیا جاتا ہے۔ تازہ ترین صورت حال جس کا ماضی کے احوال سے ایک تسلسل قائم ہے اس پر غور کرنے سے یہ نتائج برآمد ہوتے ہیں کہ 1۔ مدعیان مذہب شدید افتراق اور کج صفی کا شکار ہیں۔ 2۔ وہ ایک بڑے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اپنی ذاتی اور جماعتی شناخت کو ختم کرنے کے لیے ہرگز تیار نہیں۔ 3۔ان کے نزدیک مسلکی‘ جماعتی‘ نسل اور علاقائی تمیز و شناخت کو اولیت حاصل ہے۔ اگرچہ وہ اتحاد بین المسلمین اور اسلام کی سربلندی کے لیے اپنی ذات اور جماعت کو اسلام کے لیے وقف ہوتا باور کراتے رہتے ہیں۔ 4۔وہ اپنی جماعت میں بھی شخصی برتری کے لیے مستقل جنگ جاری رکھتے ہیں۔ 5۔ مقامی مالی سہولت کاروں اور بیرونی مالی ہمدردوں سے ان کی نیازمندی تمام وفائوں سے زیادہ وزنی ہے۔ 6۔ وہ تحریک‘ تقریر‘ تحریر میں دوسرے گروپوں پر بالواسطہ یا بلا واسطہ تنقید جاری رکھتے ہیں۔ 7۔ کچھ ایسے بھی تائبین ہیں جو ابھی تک پرانی شرارتوں پر مشق فکر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ قارئین اور بھی ضمنی نتائج اپنی جگہ ایک علامتِ سوال بنے ان قائدین تحریک ناموس رسالت ﷺ سے ان کے مزید ارادے پوچھ رہے ہیں۔ مغرب اور دنیائے کفر کا ہر زاویہ جبرو دہشت اپنی انسان ماری اور مسلمانوں کی دل آزاری میں مصروف ہے لیکن ہماری نیم مذہبی اور نیم سیاسی قیادت جس کا دعویٰ بھر پور قیادت دینی کا ہے۔ وہ پوری طرح سے اپنے مفاداتی دائروں کے تحفظ میں مصروف ہے۔ وہ امت مسلمہ کو مسلکی اور تفرقہ بازی کی عملی تربیت سے گزار کر باطل کے ہر ایوان کی بنیاد مضبوط سے مضبوط کر رہی ہے۔ آج ہم سیاسی محاذ پر مختلف مسالک کے جزوی نمائندگان کا فوٹو سیشن ملاحظہ کرتے ہیں تو نجانے دل کیوں تسلیم نہیں کرتا کہ یہ ایک ہیں۔ یہ ایک نہیں ہیں۔ اگر ان کا مقصد ایک خدا‘ ایک رسولﷺ ہے اور ایک دین کی پیروکار ہیں تو ان کی جماعت ایک کیوں نہیں ہے۔ کل کے ہر دور میں عملی دستور مختلف کیوں ہیں۔ اور یہ جماعتیں‘ ناموس رسالت حرمت رسولﷺ لبیک یا رسول اللہ ﷺ کسی کی عزت و عظمت کے تحفظ کے لیے جہاد کر رہی ہیں۔ اگر ان کا قبلہ ایک ہی ہے تو ان کی وفائوں اور اداروں کا مطاف جدا کیوں ہے؟مسلمانوں اور ان کے بنیادی عقائد کو مسمار کرنے والا امریکہ بہادر جو تمام شاتمین کی پشت پر طاقت کی فراہمی کو اپنا فریضہ سمجھتا ہے۔ یہ بے چارے قائدین ان منافق سرمایہ داروں کو ملتجیانہ نظروں سے ہی دیکھ سکتے ہیں جو نعرہ حریت کا لگاتے ہیں اور مزاج ان کے فراعنہ ہیں۔ گزشتہ کالم میں راقم نے ملت کے درد مند صاحبان حرف و قلم سے ایک گزارش کی تھی کہ وہ ناموس رسالتﷺ جیسے اہم اور نازک مسئلے کو کسی دوسرے مسئلے پر قیاس نہ کریں۔ وہ مغرب کے اہل قلم اور ان کے زبان درازوں کے مزاج کو جانچیں اور ان کے مفکرین کی کج فہمی کا بغور جائزہ لیں اور پھر ان کے مقابل آنے والے مسلمان جذباتی قائدین کے شعور و علم کے معاملات کا جائزہ لیتے ہوئے صحیح ترین راہنمائی کے لیے اپنے فکر و جذبات کی خدمات کو اپنے دین اور اپنی قوم کے سپرد کریں۔ یہی ان کی متاع ہے اور یہی نجات دارین کا غیبی سندیسہ ہے۔