مجھے دیکھ کر اسماعیل کی دلی کیفیت کیا ہوتی ہے خبر نہیں لیکن وہ بظاہر تپاک سے ملتا ہے اور پیشہ وارانہ گرمجوشی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ میرے گھر سے قریب ہی اسماعیل قصاب کی دکان ہے میں اس کے لئے پہلے ایک عام گاہک ہی تھا لیکن جب سے میں نے ماتھے پر آنکھیں رکھ کر’’ پریشر والا گوشت ‘‘واپس کیاتب سے اسماعیل کے رویئے میں تبدیلی آگئی ،اب وہ مجھ سے چائے قہوے کا بھی پوچھتا ہے او ر گوشت میں ہڈی ڈالتے ہوئے بھی ہاتھ ہلکا رکھتا ہے ،آج میں اسکے پاس قیمہ لینے گیا تو گوشت کی گہری سرخی بتا رہی تھی کہ اسماعیل آج بھی کوئی بوڑھا بیل ،بچھڑا گرالایا ہے ۔میں نے ناک بھوں چڑھاکر مجبورااسے قیمہ بنانے کا کہا۔ اسماعیل نے گوشت کا ایک پارچہ سامنے اتار کر مجھے دکھایا اور اس سے پہلے کہ میں اس پر چربی کی زیادتی پر اعتراض کرتا وہ اسے کاریگر کی جانب اچھا ل کر جملہ اچھا ل چکا تھا ’’صاحب کا قیمہ بنا دے ‘‘ قیمے کے بعد میں نے جیب سے چھ سوروپے نکال کر سامنے کئے تو اسماعیل نے مزید سو روپے کا تقاضہ کردیا ،کیوں بھائی ! کس با ت کے سو روپے ،آپ کی طرف میراتو کوئی حساب نہیں ہے ‘‘۔ ’’اوسرجی ! میں نے کب پرانے کھاتے کھولے ہیں میں تو نقدو نقد کی بات کررہا ہوں مال مہنگا ہوگیا ہے ،ا ب ہڈی والا چھ سو اور بغیر ہڈی والا سات سو روپے کلو ہو گیاہے ‘‘اسماعیل کی بات سن کرمیں نے احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ کس نے سات سو روپے کر دیا ہے ،آپ لوگوں نے اپنی بادشاہی بنائی ہوئی ہے جس کا جو دل چاہے گا وہ کرے گا۔۔۔میرے احتجاج کا قصاب پر کیا اثر ہونا تھا وہ ڈھیٹ بن کر ہاتھ پھیلائے کھڑا رہا اور مجھ سے اضافی روپے نکال کرہی رہا۔ میرے گھر سے قریب ہی سبزی منڈی ہے ۔میںکل کچھ پھل لینے چلا گیا ،تربوز 50 روپے اور خربوزہ بحث تکرار کے بعد 72 روپے کلو ملا۔ رمضان سے چند دن پہلے جو لیموں میں 140روپے کلو لایا تھا وہ300روپے کلو فروخت ہو رہے تھے ،اسلام آباد او رپنجاب کی منڈیوں میں سبزیاں ،پھل دھڑی یعنی پانچ پانچ کلو کے حساب سے فروخت ہوتی ہیں،یہی سیب منڈی میں چار سو سے ساڑھے چار سو روپے دھڑی فروخت ہوتے تھے رمضان کا چاند چڑھتے ہی گراں فروشوں نے چاند چڑھا دیئے ۔ہر سال ایسا ہی ہوتا ہے، ایسا لگتا ہے کہ رحمتوں کا مہینہ پھل ،فروٹ،سبزی فروشوں اور اشیائے خوردونوش والوں نے اپنی کمر سیدھی کرنے کا مہینہ سمجھ رکھا ہے ۔رمضان کا چاند چڑھتے ہی مہنگائی کا طوفان آچڑھتا ہے دکانداروں کی باچھیں کھل جاتی ہیں۔بلکہ درست لفظ ’’چر‘‘ جاتی ہیں ۔کوئی انہیں پوچھنے والا نہیں کہ جس نے پوچھنا ہے وہ این جی او ز کے ساتھ مل کر لنگر سروس میں مصروف ہے ،وزیر اعظم نے رمضان سے پہلے اعلان کیا تھا کہ وہ اس بار اشیائے خوردونوش کی قیمتیں خود چیک کریںگے اور اسی وقت میرا ماتھا ٹھنک گیا تھا کہ سانپ کا ڈسا رسی سے بھی ڈرتا ہے ۔وزیر اعظم نے آج تک جس جس معاملے پر نوٹس لیا عوام کو دکھ ہی ملا اور اس بار بھی یہی ہورہا ہے ،وزیر اعظم کو جانے کون سے ادارے کن شہروں کی رپورٹ دیتے ہیں ،سچ یہ ہے کہ لوگوں کا جینا کل مشکل تھا تو آج مشکل ترین ہوگیا ہے ،مختلف اداروں کے سروے نیوز چینل کی شہ سرخیاں بن رہے ہیںکہ لوگوں کی ہمت جواب دے گئی ہے ۔ تحریک انصاف کے وہ سپورٹر جو پارٹی پرچم کی ٹوپیاں پہن کر پی ٹی آئی کے جلسوں میں شریک ہوتے ہیں وہ بھی مہنگائی کے معاملے پر حکومت کا دفاع کرنے سے بھاگ رہے ہیں ، پھل فروٹ تو عام لوگ عیاشی کے معنوں میں لیتے ہیں آٹا اور دالوں کی قیمتیں ہی دیکھ لیں ،کپتان صاحب کے حلف اٹھاتے وقت جو نان ،روٹی دس روپے کی تھی آج پندرہ روپے کی ہے،پراٹھا بیس سے پینتیس روپے کا ہوچکا ہے، ادارہ شماریات سرکار کااپنا ادارہ ہے یہ ادارہ ہر ہفتے اشیائے صرف کی قیمتوں سے متعلق رپورٹ جاری کرتا ہے ۔گذشتہ ہفتے کی رپورٹ کے مطابق مہنگائی کی شرح اٹھارہ اعشاریہ پینتیس فیصد کے ساتھ ملک کا نیا ریکارڈ ہے ،میرے گھر میں والدہ بلڈ پریشر ،شوگراور دمے کی مریضہ ہیں۔کپتان صاحب کے حلف اٹھانے سے پہلے یہ ادویات پانچ ہزار روپوں میں آجاتی تھیں آج یہ ادویات ساڑھے سات سے آٹھ ہزار روپے کی آتی ہیں،ہر ماہ کسی نہ کسی دوا کی قیمت بڑھی ہوتی ہے ،ان دوا ساز کمپنیوں کا طریقہ ء واردات یہ ہے کہ پہلے یہ اپنی دوا مارکیٹ سے غائب کرتے ہیں اور اسکے بعد واپسی بڑھی ہوئی قیمت کے ساتھ ہوتی ہے ۔میڈیا رپورٹس کے مطابق لینٹس پین نامی دوا کی قیمت میں ایک ہزار روپے کا اضافہ ہوا، رائزک نامی دوا 245روپے کی تھی اب یہ 280روپے میں فروخت ہورہی ہے ،آگمینٹن اینٹی بایوٹک دوا ہے اسکی قیمت 187روپے سے 201روپے کر دی گئی ،کسی نے ان کاکیا بگاڑ لیا؟یہ دوائیاں ، روٹیاں، گوشت ، سبزیاں ،چرس افیم، ہیروئن یا کرسٹل نہیںہیں نہ ہی ان کا لین دین زیر زمین مارکیٹ میں ہوتا ہے یہ سب مملکت خداداد اورنئی ریاست مدینہ کے بازاروں مارکیٹوں میں فروخت ہونے والی اجناس ہیں۔ میں یہ الفاظ لکھ رہا ہوں، ایک غریب آدمی کا رونا رو رہا ہوں اور سامنے اسکرین پر وزیر اعظم صاحب سکھر میںکسی عوامی تقریب میں بتا رہے ہیں کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ایک دم غربت بڑھی جس پر حکومت فورا احساس پروگرام لے کر غریبوں کی مدد کو پہنچی ۔۔۔میں یہ سب سن رہا ہوں اور سر دھن رہا ہوں کہ وزیر اعظم صاحب سے کوئی عرض کرے کہ جناب والا آپ صرف لنگر والوں کے وزیر اعظم تو نہیں ہیںجو لنگروں خیراتوں کے ابھی مستحق نہیں وہ بیچارے کہاں جائیں ،کیا کریں اور کس سے سوال کریں ؟بخدا !وہ وقت آگیا ہے کہ لوگ بددعائیں دے رہے ہیں ،ان گراں فروشوں کو روکنے کے لئے آپ کو کیا وسائل چاہئیں؟ یہ حکومت کی رٹ چیلنج کئے بیٹھے ہیں ان پر کب گرفت ہوگی ، انہیںکون لگام ڈالے گا جوعام آدمی کو آپکے لنگرخانے پہنچانے کے درپے ہیں۔ نوبت یہ آگئی ہے کہ غربت کی ماری مائیں بھوک سے بلکتے بچوں کے ساتھ خودکشیاں کررہی ہیں،اے ریاست مدینہ کے والی! آپ کو کیسے خبر دیں ؟