بہت دنوں کا ذکر ہے جہانیاں شہر کے مغربی حاشئے پر بچھی ریلوے لائن سے پرے چک نمبر ایک سو تیرہ دس آر میں سرداراں بی بی رہا کرتی تھی. امرتسر کے نواحی گائوں میں پیدا ہونے والی جٹی اور میری دادی۔ بائیس برس ہوتے ہیں زمین اوڑھ چکیں۔ چھوٹا تھا تو ہم ہر ہفتے ابا جی کے ساتھ اپنے چک جایا کرتے تھے۔ دادی کو پتہ ہوتا کہ آج میرے شہر والے پوتے آرہے ہیں چناں چہ بستر کے نیچے، دیوار کے ساتھ ساتھ قدآدم سے اوپر بنی پرچھتیوں میں کسی برتن کی ڈھانپ تلے یا پھر اْس کچے پکے کمرے کے کونے میں تہہ در تہہ دھری رضائیوں کے بیچ سے کوئی نہ کوئی سوغات برامد ہوتی اور ہمیں کھانے کو دی جاتی۔ گرمیاں ہوتیں تو ہمارے مربعے میں ایک کھیت کے حاشئے پر بنے کھالے کے کنارے قطار میں کھڑے آموں کے دس بارہ درختوں کے دیسی آم جنہیں اماں نے رضائیوں میں رکھ کر پال لگائی ہوتی۔ آموں کی رت نہ ہوتی تو لڈو یا کوئی دیگر قسم کی مٹھائی یا پھر چوسنے والی میٹھی گولیاں۔ پھر ہم بڑے ہوتے گئے اور ہر ہفتے جہانیاں جانے کا معمول نہ رہا تاہم مہینے میں ایک آدھ چکر لگ جاتا۔ تب چاچی حنیفاں کے گھر کے بڑے سے صحن میں چارپائی پر بیٹھی اماں کو اٹھنے میں دقت ہوتی۔ وہ بیٹھے بیٹھے بانہیں کھول دیتیں’’او میرا پْت آیا‘‘۔ بوڑھی بانہوں کے حصار میں لے کر گال چومتیں اور پھر اپنے کرتے کی بغلی جیب سے ایک میٹھی گولی نکال کر دیتیں۔ جب ہم واپس ملتان کے لئے روانہ ہونے لگتے تو اسی بغلی جیب سے مڑا تڑا دس روپے کا نوٹ برآمد ہوتا کہ ’’لے پْت شئے کھا لئیں‘‘۔ لیجئے اب سرداراں بی بی کی بہو زینب کا سراپا ابھرتا ہے، میری ماں جس کی شفقت مجھے فقط انتیس برس میسر رہی۔ ماں تو رب کا روپ ہوتی ہے، اس کی رحمتوں کا کون کونسا منظر لکھا جائے۔ میری یادوں میں آج بھی پرانے گھر کے وہ دن روشن ہیں جب مجھ سے چھوٹی شازیہ ابھی دنیا میں نہ آئی تھی۔ ابا جی کچہری اور بڑے بہن بھائی سکول چلے جاتے تو ان کی واپسی تک کا سارا وقت میرا اور میری ماں کا ہوتا۔ ان دنوں ہمارے گھر سویر بہت جلدی اتر آتی تھی اور ناشتے میں میری ماں ایک دو پراٹھے زائد پکا لیتی۔ چناں چہ گیارہ ساڑھے گیارہ بجے میں اور میری ماں برنچ کرتے۔ صبح کے بنے پراٹھے کا لقمہ توڑ کر، اوپر دھرے لسوڑے یا آم کا اچار لقمے سے دبا کر تھوڑا توڑتیں اور لقمہ میرے منہ میں ڈالتیں۔ میں ہاتھ میں پکڑے گلاس سے ایک سِپ لیتا جس میں چینی ملا میٹھا پانی ہوتا۔ اچار کی نمکینی، پانی کی مٹھاس، پراٹھے کا گداز اور لقمے میں گندھا ماں کی انگلیوں کا لمس۔ دنیا کا کوئی بڑے سے بڑا شیف یہ ذائقہ پیدا کرنے پر قادر ہے؟ یہ تو ایک یاد تھی، انتیس برس تک میری زندگی کی لوح پر جس قدر آسودگی اور آسائش تحریر ہے، اس کے بڑے حصے کو میری ماں نے تصنیف کیا۔ اب مجھے دواور خواتین یاد آرہی ہیں، آپی اور میری چھوٹی بہن شازیہ۔ آپی نے تو خیر مجھے ماں ہی کی طرح پالا اور آج بھی بے حد خیال رکھتی ہیں۔ میں کوتاہی کرجاتا ہوں مگر ان کی شفقت میں کمی نہیں آتی۔ کچھ دن رابطہ نہ ہو تو خود فون کر کے حال احوال دریافت کرتی ہیں اور دعائیں بونس میں۔ شازیہ اب بیس برس سے کینیڈا میں ہے مگر جب تک وہ گھر میں تھی، جی جان سے میرے سارے کام اور دیکھ بھال کرتی تھی۔ ایک اور خاتون ہے جس نے پچھلے اکیس برس سے میری زندگی میں آسودگی بھر رکھی ہے۔ اس کا دن صبح پانچ بجے شروع ہوجاتا ہے اور پھر شب دس بجے تک وہ بلا تکان مجھے اور میرے بچوں کو آسانیاں بانٹتی ہے۔ یہ عالیہ ہے، میری اہلیہ۔ میں تو اس پر یہ بھی احسان نہیں جتا سکتا کہ گھر کی معاشی گاڑی کو رواں رکھنے کے لئے دن بھر محنت کرتا ہوں۔ اس کی نوکری بھی سخت ہے مگر اتنے برسوں میں اس نے کبھی گھر کی ذمہ داریوں کو متاثر نہیں ہونے دیا اور نہ ہی کبھی ہمیں احساس دلا یا کہ تم لوگوں کے لئے اتنا کچھ کرتی ہوں۔ وہ شاید پیدا ہی دان کرنے کو ہوئی ہے۔ اشفاق احمد دعادیا کرتے تھے ’’اللہ تعالیٰ آپ کو آسانیاں فراہم کرے اور آسانیاں بانٹنے کی توفیق دے‘‘۔ میرا خیال ہے کہ یہ دعا قابلِ عمل نہیں۔ آسانیاں بانٹنے والوں کا مقدر آسانیاں نہیں ہوتیں۔ پیڑ دھوپ میں جلتا ہے تو اپنی چھائوں میں بیٹھنے والے کو آسودگی فراہم کرتا ہے۔ عالیہ بھی ہمارے گھر کا سایہ دار پیڑ ہے جس کی چھائوں میں ہم آسودہ ہیں۔ آوارہ گردی کے بعد گھر آکر سونے کو لیٹ جائوں تو بچوں پر کرفیو نافذ کردیتی ہے کہ آہستہ بولو، پاپا سورہے ہیں۔ یا الٰہی یہ عورت کاخمیر تو نے کس مٹی سے اٹھایا ہے! اب مجھے زینب، زہرا اور امامہ کا خیال آتا ہے. بہت چھوٹی چھوٹی سی تھیں جب سے خوشی اور سعادت جان کر میری خدمت کرتی ہیں۔ دفتر کی تیاری میں ہوں تو جوتے اٹھا کر لارہی ہیں، جرابیں دے رہی ہیں۔ اب تو اور بھی سعادت مند ہوگئی ہیں. ماں سے ان کی نوک جھونک بھی کبھی چل جاتی ہے مگر میرے سامنے آواز اونچی نہیں کرتیں. اچھی بیٹیو! تم میرا اتنا خیال رکھتی ہو، میں تمہیں کیا دے سکتا ہوں سوائے دعائوں کے۔ جیتی رہو، شاد رہو، آباد رہو، سکھی رہو۔ ان خواتین اور بچیوں کا ذکر آج کے کالم میں یوں در آیا کہ آج خواتین کا عالمی دن ہے۔ سرداراں بی بی سے لے کر امامہ سجاد تک، چار پیڑھیوں کی وہ تمام خواتین نظروں کے سامنے گھوم گئیں جنہوں نے میری زندگی کو آسانیاں فراہم کیں، آسودگی بخشی اور محبتیں نچھاور کیں۔ مگر یہ سب یاد کرتے وقت میں متضاد کیفیات کا شکار ہوں۔ جہاں ایک مسحور کردینے والا احساس محبوبیت طاری ہے وہاں ایک گلٹ، ایک احساسِ جرم بھی کچوکے بھرتا ہے۔ میں ایک مرد ہوں، عورت کی چار نسلوں کی آنکھ کا تارا اور اس کی وارفتگیوں کا مرکز مگر میں کیسا بے مہر ہوں، وفا ناشناس اورکتنا کمینہ کہ بدلے میں، میں نے عورت کے چہرے پر تیزاب انڈیلا، اپنی مردانگی ثابت کرنے کو اس پر تشدد کیا۔ اس کے ساتھ انسان والا نہیں کموڈیٹی اور ملکیت کے طور پر برتاؤ کیا. ’’غیرت‘‘ کی کلہاڑی سے اس کی گردن ماری۔ کبھی زندہ دفن کردیا اور میرے اس کرتوت نے رسولِ رحمت کے عین ہائے اطہر کو ایسا تر کیا کہ ریشِ مبارک گیلی ہوگئی۔ میں نے عورت کو پیر کی جوتی جانا اور خدمت کا صلہ یہ دیا کہ اسے ناقص العقل قرار دے کر کہا کہ اس کی تو عقل گْت میں ہوتی ہے۔ میری اسی سوچ اور عمل نے آج عورت کو مارچ کرنے پر مائل و مجبور کیا۔ کاش! میں نے اس کئیر کے بدلے میں عورت کو سپاس گزاری کا، شکریہ کا ایک جملہ کہ دیا ہوتا ’’اے میرے رب کی خوب صورت تخلیق، اے عورت! اے ماں، بیوی، بہن، بیٹی! تیرا شکریہ۔‘‘